کراچی : جمعیت علماء پاکستان کے مرکزی رہنما اور مرکزی جماعت اہل سنت کے نگران اعلی شاہ محمد اویس نورانی صدیقی نے کہا ہے کہ پانامہ کیس پر اگر عدلیہ کسی نتیجے پر پہنچتی ہے تو فریقین کو چاہیے کہ عدالت کے فیصلے کو من و عن تسلیم کریں،اگر معاملہ وزیر اعظم پر بھی آتا ہے تو ان کو انصاف کے نفاذ کے لئے مثال بننا ہوگا۔
پارلیمنٹ میں اکثریت سیاسی جماعتیں ملک و قوم کی بہتری کے لئے سنجیدہ نہیں ہیں،پانامہ کیس کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے،عدالت میں کچھ اور عدالت کے باہر کچھ بیانات دیئے جا رہے ہیں، جو کیس سپریم کورٹ میں چل رہا ہو اس پر اخباری بیانات کیسے دیے جا سکتے ہیں؟عوام کو پانامہ کیس کی کمنٹری میں مصروف رکھا جا رہا ہے تاکہ دیگر عوامی اور قومی مسائل سے ان کی نظریں ہٹ جائیں، الیکٹرانک میڈیا اس حوالے سے کوئی قابل قدر اور قابل ذکر کردار ادا کرنے سے قاصر رہا ہے۔
حقیقت اور حالات کا ادراک سب کو ہے،مگر مصلحت انگیزرویے کی وجہ سے ملک کا تباہی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے،کیا کوئی ایسا ادارہ تخلیق دیا گیا ہے کہ وہ سی پیک کے اخراجات کا حساب کتاب رکھے؟ ایسا نہ ہو کہ دس سال بعد چائنا لیک کے نام سے پھر نئے چوروں کا انکشاف ہوا،حضور غوث اعثم کے سالانہ عرس کے موقع پر ایک محفل میں ذمہ داران سے گفتگو کرتے ہوئے جمعیت علماء پاکستان کے مرکزی رہنما اور مرکزی جماعت اہل سنت کے نگران اعلیٰ شاہ محمد اویس نورانی صدیقی نے کہا کہ عدالت عظمہ پانامہ کیس کا جو بھی فیصلہ کرے فریقین کو قبول کرنا ہوگا، وزیراعظم کو عدلیہ کو مینڈیٹ دینا ہوگا۔
یہ بات بلکل واضح ہے کہ دونوں فریقین پانامہ کے دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں، دونوں اطراف کے کئی لوگوں کی آفشور کمپنیاں ہیں، عدلیہ اگر دو لوگوں کے فیصلے میں اتنی دیر لگائی گی تو پھر باقی کئی سو لوگ جن کا نام پانامہ پیپر میں آیا ہے ان پر مقدمے کب چلیں گے؟پانامہ کے ساتھ ساتھ باہاماس کا ذکر کیوں نہیں کیا جا رہا ہے؟ عدالت عظمہ اداروں سے پوچھے کہ دبئی لیک کیا ہے؟پانامہ کیس کے دونوں فریقین آپس کی جنگ کی وجہ سے کئی بڑے بڑے مگرمچھوں کو بچانے کا سبب بن رہے ہیں۔
260 افراد وہ ہیں جو پانامہ میں ملوث ہیں، 160باہاماس میں ملوث ہیں،2500پاکستانی وہ ہیں جن کی دبئی میں جائیدادیں ہیں اور ان کا نام دبئی لیک میں موجود ہے،2500پاکستانی دبئی میں 100ارب کی جائیداد بنا کر بیٹھے ہوئے ہیں جن کا ذریعہ معاش اور ٹیکس ریکارڈ کسی کے پاس نہیں ہے،قوم سوال کرتی ہے کہ دو فریقین کی جنگ میں پاکستان کے 100ارب واپس کب آئینگے؟ہم سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ کیا دو فریقین پاکستان کے تمام چوروں اور لٹیروں کو بچانے کا کردار تو ادا نہیں کر رہے ہیں؟کل 200ارب روپے ہیں جو دبئی اور باہاماس لیک میں آشکار ہوئے ہیں۔
پانامہ میں کھربوں روپے ملک کے باہر ہیں،ہر روز ایک تماشہ ہوتا ہے اور حقیقت پر مبنی باتیں کوئی نہیں کرتا ہے، شاہ محمد اویس نورانی صدیقی نے کہا کہ گورنر سندھ سلیم الزماں صدیقی بہادر انسان تھے، اللہ انہیں غریق رحمت کرے، انہوں نے مشرف دور میں ایل ایف او کی مخالفت اور دستخط نہ کر کے جرات کی تاریخ رقم کی،اس عمر میںانہیں گورنری دینا زیادتی تھی۔
نئے گورنر کا انتخاب عمر کے حساب سے کیا جائے،قوم کو مشکل میں نہ ڈالا جائے،کسی متعصب اور تنگ نظر شخص کو گورنر نہ بنایا جائے بلکہ تمام جماعتوں کے لئے قابل قبول شخص کو گورنری دی جائے۔