کراچی (جیوڈیسک) عدالت عالیہ سندھ نے 4 لاپتہ افراد سے متعلق سیکیورٹی اداروں اور حکومت سے جواب طلب کر لیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس احمد علی شیخ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے اسکول پرنسپل کی غیرقانونی حراست کے خلاف دائر درخواست پر ڈی جی رینجرز۔
آئی جی سندھ اور دیگر کو نوٹس جاری کرکے جواب طلب کر لیا ہے، عمیر انور نے اپنی درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ اس کے والد عیسیٰ انور گورنمنٹ پرائمری اسکول لیاری کے پرنسپل ہیں، قانون نافذ کرنے والے اداروں نے انھیں 29 اگست کو گرفتار کیا مگر انھیں تاحال کسی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔
والد کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث ہیں اور نہ ماضی میں ایسی کسی سرگرمی سے ان کا تعلق رہا ہے، مدعاعلیہان کو ہدایت کی جائے کہ وہ والد کو عدالت میں پیش کریں اور ان کے خلاف کوئی الزام ہونے کی صورت میں اسکی تفصیلات سے آگاہ کرے کوئی الزام نہ ہونے کی صورت میں عدالت عالیہ والد کی رہائی کاحکم دے۔
فاضل بینچ نے محکمہ داخلہ کو شیرشاہ سے گرفتار نوجوان سعید کی بازیابی کیلیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دینے کا حکم دیتے ہوئے 2 ہفتے میں رپورٹ طلب کرلی ہے، بینچ نے مسمات شمع پروین کی درخواست کی سماعت کی۔
درخواست گزار نے ڈی جی رینجرز، رینجرز ونگ عبداللہ شاہ غازی،آئی جی سندھ اور دیگر کو فریق بناتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ رینجرز کے عبداللہ شاہ غازی ونگ نے درخواست گزار کے بیٹے سعید کو 27 مارچ کو حراست میں لیا تھا وہ تاحال لاپتہ ہے۔
بدھ کو سماعت کے موقع پرعبداللہ شاہ غازی ونگ کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ لاپتہ نوجوان کو حراست میں نہیں لیا گیا، عدالت نے قانون نافذ کرنے والے اور تحقیقاتی اداروں کے نمائندوں پر مشتمل جے آئی ٹی تشکیل دینے کی ہدایت کی، عدالت نے حکم دیا۔
کہ جے آئی ٹی ایک ہفتہ میں اجلاس منعقد کرے اور 2 ہفتے میں رپورٹ پیش کرے، اسی عدالت نے 2 بھائیوں عنایت اللہ اور شفیع اللہ کی غیر قانونی حراست سے متعلق مسمات صابرہ کی درخواست پر ڈپٹی اٹارنی جنرل اور ایڈوکیٹ جنرل سندھ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے۔ جواب طلب کرلیا ہے، درخواست میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار کا ایک بیٹا مدرس اور دوسرا دکاندار ہے، قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دونوں کو بلدیہ ٹاؤن سے 15 اگست کو حراست میں لیا تھا جو تاحال لاپتہ ہیں۔