تحریر: شہزاد حسین بھٹی ملک میں کرپشن اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ ہمارے سرکاری افسران اپنے دفاتر میں ہر وقت اپنے ذاتی امور اور پلاٹوںکی خریدوفروخت کے متعلق گفتگو کرتے دیکھائی دیتے ہیںملک میں ایک طرف جہاں غریب عوام کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں وہاں دوسری طرف یہ اعلیٰ سرکاری افسران نئے سیکٹرز اور کالونیوں میں اپنے پلاٹ بُک کرا رہے ہوتے ہیں مہنگائی نے عام آدمی کی کمر توڑ کر رکھی ہو ئی ہے اور ان حالات میں اس کے لیئے پلاٹ تو دور کی بات دددھ اور بچوں کے سکولوں کی فیس ہی ٹائم پر ہی ادا ہو جائیں تو بڑی بات ہے۔
ہمارے ایک بزرگ دوست محمود غزنوی صاحب ایک پرئیویٹ فرم میں اعلیٰ عہدے پر تعینات ہیں اور انھیں سیاست اور معاشرت پر گفتگو کرنے کا بڑا شوق ہے ایک دن وہ دوران گفتگو فرمانے لگے کہ نواز شریف صاحب نے سو ارب کے فنڈز پر اپنی بیٹی کو تعینات کر رکھا تھا جس کے بارے میں مشہو ر تھا کہ وہ اپنی خدمات کے عوض کو ئی تنخواہ نہیں لیتی بلکہ وہ اپنا یہ فرض منصبی رضاکارانہ طور پر ملک و ملت کے مفاد میں سر انجام دے رہی ہیں وہ تو اللہ بھلا کرے پی ٹی آئی والوں کا کہ جنھوں نے عدالت کے ذریعے حکام کی توجہ اس جانب مبذول کروائی اور دباؤ بڑھنے پر مریم نواز نے پرائم منسٹر یوتھ لون سکیم سے استعقی دے دیا وگرنہ وہ یہ خدمات حکومتی پانچ سالہ معیاد میں انجام دیتی رہتیں۔
محمود صاحب کچھ توقف کے بعد گویا ہوئے اور کہنے لگے یا ر میں ایک پڑھا لگا انسان ہوں ساٹھ سال کے قریب میر ی عمر ہے انتظامی امور کا تجربہ بھی ہے حکومت کو چاہیے وہ مجھے کوئی بڑا عہدہ نہ دے صرف CDA کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا اعزازی چیئر مین لگادے مجھے تنخوا ہ بھی نہ دے بلکہ ہر مہینے دس لاکھ روپے مجھ سے میر ی خدمات کا صلہ بھی لے میں یہ ڈیوٹی مکمل دل جمعی اور حکومت کی توقعات کے مطابق رضاکارانہ طور پر ادا کروں گا۔
میرے تجسس کو بھانپتے ہو ئے کہ وہ دس لاکھ حکومت کو کیسے دیں گے کہنے لگے دیکھ یا ر اگر میں کوئی اور کرپشن نہ کروں صرف روات سے لے کر اسلام آباد زیروپوائنٹ تک ٹمبر مافیا کے ساتھ ملکر رات کی تاریکی میں صرف درخت ہی پیچنا شروع کر دوں تو میں کروڑوں روپے مہینے کے بچا سکتا ہوں اور ایسا ہو بھی رہا ہے ٹمبر مافیا گذشتہ کئی سالوں سے اسلام آباد کی حدود میں رات کی تاریکی میں درخت کاٹ کاٹ کر بیچ رہا ہے کئی ایف آئی آر بھی کٹ چکی ہیں ملزمان گرفتا ر بھی ہوتے ہیں اور پھر عدم ثبوت کی بنا ء پر بری ہو جاتے ہیں اور یہ چوہے بلی کا کھیل جاری رہتا ہے اس طرح نئی ھاؤسنگ کالونیوں اور نقشے منظور کروانے کے لاکھوں روپے وصول کیئے جا رہے ہیں۔
نئے راستے بنانے اور موجودہ سڑکوں کو چوڑا کر نے سے بھی کروڑوں روپے کے جنگلات ختم کر دیئے اور یوں یہ جنگلات ٹمبر مافیا کو اونے پونے داموں فروخت کر دیئے گئے۔ اسی طرح DHA سوسائٹی نے ماڈل ٹاؤن ہمک کے قریب سی ڈے اے کی قیمتی زمین قبضہ کر لی اور سی ڈے اے کے افسران کو اس سوسائٹی کے نظرانے کے طور پر پلاٹ عطا کیئے گئے ۔جیسے صدیق الفاروق کواس کی خدمات کے اعتراف کے طور پر وقف املاک بورڈ کا چیئر مین لگا دیا گیا۔
Muslim League (N)
اس طرح وہ بات زبان عام ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے ایم این اے ،ایم پی ایز نے کمائی والے علاقوں میں اپنے منظور نظر پٹواری ، گرد اور تحصلیدار تعینات کر رکھے ہیں جو ماہانہ کی بنیا د پر ان کو بھتہ دیتے ہیں ایک عا م رجسٹری محرر کے پاس چالیس سے پچاس لاکھ مالیت کی گاڑیاں نظر آتی ہیں۔محکمہ اینٹی کرپشن اپنا حصہ وصول کرنے کے بعد خاموش تماشائی کی طرح عوام کو محکمہ مال کے ان راشی ملازمین کے رحم و کرم پر چھوڑ چکا ہے یہی وجہ ہے کہ ملک بھر میں اگر پٹواریوں ہی کی ذاتی پراپرٹی کے بارے میں چھان بین کی جائے تو کئی پٹواری ایسے ہیں جو کروڑوں میں نہیں اربوں پتی نکلیں گے ۔پاکستان میں محکمہ مال ،محکمہ پولیس اور محکمہ ہیلتھ ایسے محکمے ہیں کہ جن کو اگر درست کر لیا جائے تو ملک میں کرپشن کی شرح کا گراف نیچے آسکتا ہے۔
جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے محکمہ مال کو مال بناؤ محکمہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور ہر شخص کی یہ خواہش ہے کہ وہ اس محکمہ میں بھر تی ہو کر اپنے آنے والی نسلوں کو بھی اتنا کچھ دے جائے کہ اسے کسی چیز کی کمی نہ ہو۔پنجاب میں محکمہ ما ل کا ریکارڈ کمپیوٹرائز کرنے کے ساتھ ہی پٹواریوں کی چاندی ہوچکی ہے اور وہ اغلاط سے بھرا ریکارڈ کمپیوٹر سینٹر کو فراہم کرکے مال بنانے کا ایک نیا طریقہ ایجاد کر چکے ہیںجب کو ئی شخص کمپیوٹر سینٹر میں جا تا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ وہ جس گھر میں رہتا ہے اسکی اپنی زمین ہی اسکے نام نہیں ہے کمپیوٹر سیکشن والے دوبارہ اسکو ریکارڈ درست کروانے کے لیئے پٹواری کے پاس بھیج دیتے ہیںاور پھر وہ منہ مانگے پیسے وصول کر کے ریکارڈ کو درست کرواتا ہے۔
پٹواری مافیا نے عملی طور پر کمپیوٹرائز نظام کو فعل کرنے کے لیئے پیش بندی کر رکھی ہے جس کے تدارک کے لیے ضروری ہے کہ چیک اینڈ بیلنس کا ایسا نظام وضح کیا جائے کہ لوگ رشوت دیئے بغیر اپنے زمینوں کا ریکارڈ درست کرواسکیں بصورت دیگر اگر یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہا تو یہ کمپیوٹرائز نظام مکمل طور پر تباہ ہو جائے گا ۔اس سلسلے میں محکمہ اینٹی کرپشن میں نیک شہرت کے حامل افسران کو تعینات کر کے ملک میں کرپشن کی بڑھتی ہو ئی رفتا ر کو روکا جا سکے ۔اسکے لیئے حکومت پنجاب خصوصی طور پر ایسے اقدام اٹھائیں جس سے نظر آئے کہ جدید آلات کے استعمال لوگو ں کو ریلیف ملے۔
اگر ایسا نہ کیا گیا اور یہ سب میڈیا میں تشہیر تک محدو د ر ہا تو پھر جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں کرپشن ختم نہیںہو سکتی وہ یہ کہنے میں حق بجانب ہو نگے۔ آخر کرپشن کے آگے کسی نہ کسی کو تو بند باندھنا ہو گا بصورت دیگر یہ نظا م زیادہ عرصہ تک نہ چل پائے گا اور ہمارے ملک میں سیاست دان انقلاب یا دھرنا کا پر کشش نعرہ لگا کر ہماری عوام کو سڑکوں پر بٹھا کر نظام حکومت کو یوں ہی مفلوج کیے رکھے گا۔