رحم نہیں انصاف

Justice

Justice

تحریر : انجینئر افتخارچودھری

عدالت کے احاطے میں ایک گاڑی آ کر رکتی ہے اس سے بڑے خوبصورت سمارٹ پولیس والے جوان اترتے ہیں۔میں نے سمجھا یہ لوگ کسی بڑے دہشت گرد کو لے کرآئے ہیں سوچا ابھی کوئی مکروہ ٹی ٹی پی یا را کا ایجینٹ اس سے اترے گا جس کے منہ پر تھیلا چڑھا ہو گا لیکن میں یہ دیکھ کر دھنگ رہ گیا کہ یہ تو میرے مطابق والے ڈاکٹر شاہد مسعود ہیں دراز قد چوڑی پیشانی والے شاہد مسعود کو ہتھکڑی لگی ہوئی تھی۔ایک طرف محب وطن پاکستانی تھا اور دوسری جانب عدالت۔میں نے سوچا کہ کیا ہم جو بات کیا کرتے تھے کہ پاکستان دو نہیں ایک ہو گا۔اور سچ تو یہ ہے یہ ہمارا دل سے نعرہ تھا۔میں وثوق سے کہتا ہوں کہ پی ٹی آئی اپنے نعرے پر قائم ہے۔وہ اقتتدار میں آ تو گئی ہے مگر اقتتدار کی سب جہتیں اس کے قابو میں نہیں ہیں کوئی ہے۔

جو ایوانوں میں چھپا بیٹھا ہے جو چاہتا ہے کہ پارٹی بد نام ہو۔مجھے پورا یقین ہے میری یہ چند سطریں میرے دکھ کا سندیسہ ہوں گی جسے عمران خان بھی دیکھیں گے افتخار درانی اور میرے دیگر دوست شہر یار آفریدی بھی۔میں کالم کیوں لکھ رہا ہوں اس لئے کہ لوگ بھی جان جائیں کہ فوجیں اسلام آباد میں داخل تو ہو چکی ہیں لیکن ابھی کسی نہ کسی دشمنوں کے مورچے سے ہم پر فائرنگ ہو رہی ہے۔

ہمارا شمار اس شہر کے اگر سیانوں میں نہیں ہوتا تو کم از کم جانکاروں میں ضرور ہوتا ہے۔شہر اقتتدار پر ٹھٹھرتے موسموں کا راج تو ہے لیکن ایک اور چیز نے اس شہر کے جانکاروں دوست کالم نگاروں کو پریشان کر رکھا ہے بلکہ ہر اس شخص کو پریشان کر رکھا ہے جس کے سینے میں کوئی دل نامی چیز ہے۔پچھلے دنوں ڈاکٹر عرفان کا بھی سوال تھا اور یہ سچ پوچھیں میرا سوال بھی ہے کہ ڈاکٹر شاہد مسعود کے ہاں کون سی ہیروئن
پکڑی گئی یا انہوں نے کسی جگہ بم رکھنے کی سازش کی تھی کہ انہیں ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کیا جاتا ہے۔یہ بات ہمارے اس نعرے کی بھی نفی کرتی ہے جس میں دعوی یہ تھا کہ دو نہیں اک پاکستان۔کیا یہ بات اس نعرے کے منہ پر طمانچہ نہیں ہے کہ اس ملک کے ایک کالم نگار اینکر پرسن کو عدالت میں جب لایا جاتا ہے تو اس کی تذلیل کی جاتی ہے۔

اس روز اخونزادہ چٹان نے بھی میرے ساتھ ایک نجی ٹی وی کے شو میں بات کی کہ باہر کے ملک میں جب کوئی پروفیسر یا ڈاکٹر عدالت میں پیش ہوتا ہے تو اسے احترام سے دیکھا جاتا ہے۔سچ پوچھئے ہمارے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں کہ پروفیسر جیلانی کامران اور ڈاکٹر شاہد مسعود کو ہتھکڑیاں کیوں لگائی جاتی ہیں۔عدلیہ میں پیش کرنے والی پولیس کا بڑا شہر یار آفریدی ہے وہ میرے اچھے دوستوں میں سے ہیں میں نے تو انہیں بھی بتایا ہے کہ اس ظلم کو روکیں۔مجھے ان عدالتوں سے بھی سوال کرنا ہے کہ خدا را اللہ کو جوابدہ ہوں انہوں نے کون سا ایسا جرم کیا ہے کہ آئے روز عدالتوں میں ان کی تذلیل کی جاتی ہے۔جناب چیف جسٹس اب کچھ ہی دبوں میں اس کرسی عظیم کو چھوڑ کر گمنامی کی وادی میں چلے جائیں گے۔

یہ سوال ان سے چمٹا رہ جائے گا کہ جب ایک پڑھے لکھے شخص کو عدالت میں ہتھکڑی لگا کر اور اس کے مقابلے میں ایان علی جیسی ماڈل کو بنائو سنگھار کے بعد اور ان لوگوں کو جو اس ملک کا مال شیر مادر سمجھ کر پی گئے ایک بڑے پروٹو کول میں لایا گیا تو آپ کیا کر رہے تھے۔ان سے یہ سوال تو ہر بندہ پوچھے گا جب وہ عام لوگوں میں موجود ہوں گے کہ حضور ڈاکٹر عاصم اور ڈاکٹر شاہد میں بڑا فرق تھا۔اللہ کرے وہ شاندار ریٹائرڈ زندگی گزاریں مگر ہم نے بڑے بڑے ریٹائرڈ لوگوں کو زندگی میں دیکھا ہے ان کے کرو فر ان کی نوکری کے ساتھ ہی دفن ہو جاتے ہیں۔چیف جسٹس صاحب کے فیصلے یاد رکھے جائیں گے لیکن ایک سوال زندہ رہے گا کہ ڈاکٹر شاہد مسعود کے ساتھ یہ سلوک کیوں روا رکھا گیا۔

ایک اور چیز اس بے رحم میڈیا سے جڑی ہوئی ہے بڑے بڑے اینکر کبھی دبے لفظوں میں بھی ڈاکٹر شاہد مسعود کا ذکر نہیں کرتے۔ہو سکتا ہے ان کی پروفیشنل جلن ہو جو ایک دوسرے کے بارے میں لوگ کرتے رہتے ہیں لیکن یاد رکھئے آج ڈاکٹر شاہد ہیں کل آپ بھی تو ہو سکتے ہیں کسی نے احتجاجی کتبے نہیں اٹھائے کسی نے مطالبہ اور مظاہرہ نہیں کیا کوئی بولتا نہیں اللہ بھلا کرے سوشل میڈیا کا ہتھیار بنانے والوں کا اس پر لوگ چیخ رہے ہیں ۔آج حبیب کیانی کی پوسٹ بھی اسی سلسلے میں تھی اس سے پہلے میں چند دنوں سے میں مطالبہ کر رہا ہوں کہ خدارا پی ٹی آئی کو بدنامی سے بچائیں۔میں نے افتخار درانی،نعیم الحق،عامر کیانی،شفقت محمود،شہر یار آفریدی،علی محمد خان سب کو اطلاع دی کہ خدا کے بندو یہ وہی ڈاکٹر شاہد ہے جس نے نون لیگ کو اپنے بے لاگ تبصروں اور تجزیوں سے دھبڑ دوس کر کے رکھ دیا ہے آج وہ ہتھکڑی میں کیوں عدالت لایا جا رہا ہے۔

کہتے ہیں قانون اندھا ہوتا ہے اس کے سامنے ملزم سب برابر ہوتے ہیں اس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوتی ہے۔یہ بات کہنے کی حد تک تو سچ ہے لیکن یہ اگر سچ بھی ہے تو پاکستان میں آنکھوں پر اس بندھی پٹی کی مثال اس بچے کی آنکھ پر بندھی پٹی سے زیادہ نہیں جو بعض اوقات سائڈ سے دیکھ رہا ہوتا ہے۔یہ قانون دیکھ لیتا ہے کہ اربوں کی کرپشن میں مبتلاء ڈاکٹر عاصم میرے سامنے ہے یا قلم کار اور صحافی ڈاکٹر شاہد مسعود۔شائد اسی لئے دوہرے معیا ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت لاجواب کام کر رہی ہے۔اس کا
سب سے بڑا کام شیلٹر ہومز کا بنانا ہے۔غریب لوگوں کی شکایات جو وزیر اعظم کا سٹیزن پورٹل ہے اس کا بنانا بھی کمال کا کام ہے۔قومی غیرت اور حمیت کا مظاہرہ کر کے دنیا کے سب سے بڑے بڑبولے صدر ٹرمپ کو ٹکاسہ جواب دینا ہے۔لیکن اگر مجھ سے کوئی پوچھے تو ہماری حکومت کے ماتھے پر ایک کالا داغ ڈاکٹر شاہد مسعود کو عدالت میں ہتھکڑی لگا کر پیش کرنا ہے۔مرے ہوئے شخص کو ہتھکڑیاں لگانا ہے پروفیسر جیلانی کامران کو ہتھکڑیاں لگا کر پیش کرنا بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔یہ کون کر رہا ہے خود جناب عمران خان نے نیب کے چیئرمین سے کہا تھا کہ تحقیق ضرور کریں مگر تذلیل نہ کریں ۔مگر اس کے باوجود یہ ہوا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس کا ازالہ اس بات سے نہیں ہوتا کہ اس امر کی تحقیق کی جائے کہ ایان علی بغیر ہتھکڑی پہنے پیش ہوتی ہے اور ڈاکٹر شاہد مسعود ہتھکڑی سمیت۔اس بات کی ت۔ہم یہ بھی جانتے اور مانتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کا مک مکا تھا وہ ایک دوسرے کی چوری چکاری اور ڈاکوں کو تحفظ دیتے تھے وہ کیس بناتے تھے اور ضمانتیں کرانے کا بندوبست بھی کر تے تھے لیکن یہاں تو پی ٹی آئی ہے جو کسی نجرم کا ساتھ نہیں دے گی۔یہ تو شہر یار آفریدی کے بھتیجے کو بھی دھر لیتی ہے۔اسی لئے تو لوگ مضطرب اور پریشان ہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔

چوروں اور ڈاکئوں کو عدالتوں میں بڑے کروفر سے پیش کیا جاتا ہے اور اس کیحقیق کی جائے کہ ایسا کیوں ہوا ہے فواد چودھری بھی دیکھیں مقابلے میں جن کا تعلق کتاب اور قلم سے ان کی تذلیل کیوں کی جاتی ہے۔میں اپنے تمام اہل قلم بھائیوں سے درخواست کروں گا کہ اپنے قبیلے کی عزت کا تحفظ کریں اپنا مطالبہ ان حلقوں تک پہنچائیں۔میں تو خود پریشان ہوں کہ حکومت وقت کو کون بدنام کر رہا ہے۔یہ ہے کوئی اندر کا چور جو پی ٹی آئی کو بدنام کرنے کی مذموم کوشش کر رہا ہے کہ حکومت کو ویسے تو گرفت میں نہیں لیا جا سکتا نہ وزیر چوری کرتے ہیں نہ ٹھگی کا بازار گرم ہے چلو آئیں اس طرح کے گندے کام کر کے عمران خان کو بدنام کریں۔

ڈاکٹر صاحب پر الزامات کی نوعیت کیا ہے۔کہا جاتا ہے انہوں نے پی ٹی وی کے سربراہ ہوتے ہوئے گھپلے کئے۔ہم کب کہتے ہیں کہ انہوں نے نہیں کئے لیکن اسی پی ٹی وی کے حوالے سے اور لوگوں کا نام بھی ؤتا ہے میں نہیں چاہوں گا کہ اس بندے کا نام لوں جس کا بغیر ذکر کئے بھی اس بہار کی ہوا کا نام سب جانتے ہیں ان سے تنخواہیں لے لیں۔چیف جسٹس صاحب آپ کے اچھے فیصلے بھی بہت ہیں لیکن بہت سے ایسے فیصلے ہیں جن پر انگلی اٹھائی جائے گی۔١٧٢ صالحین کو بچایا گیا اس پر لوگ بات کرتے ہیں ۔میں آپ پر تنقید نہیں کرتا نہ میری جراء ت لیکن سوال تو لوگوں نے خلیفہ ء وقت سے نھی کئے تھے اور آپ سے بھی کرتا ہوں کہ اس ملک کے سب سے بڑے ڈاکو کو آپ نے گرفت میں لیا لیکن اسی کے ہم پلہ بلکہ اس سے بڑے کو ریلیف دیا۔

اگر پی پی پی ،نون لیگ نے اس ملک کو نہیں لوٹا تو پھر آپ ہی بتا دیجئے کہ کیا اس ملک کو سید مودودی لوٹ کر کھا گئے،مولانا شاہ احمد نورانی اور عبدالستار نیازی کھا گئے۔ملک لوٹا گیا ہے یہ واضح ہے نابینا افراد کے اکائونٹس میں فالودے والے کے کھاتے میں اربوں آئے ویلڈر کروڑوں کا مال لے اڑے۔تاریخ کی سب سے بڑی منی لانڈرنگ جتنی گزشتہ ادوار میں ہوئی ایسا کبھی نہیں ہو سکا۔بحری قزاقوں کی داستانیں بھی سامنے آ رہی ہیں۔اللہ پناہ جناب والا جنہوں نے ٹرانسفر کئے انہیں بلا کر پوچھیں اگر یہ سوال مشکل ہے تو عزت ماب اقبال تھانے دار کے حوالے کریں وہ آپ کو نام نکال دے گا۔اس ملک کے لٹیروں اور غاصبوں کو آپ جیلوں تک لے کر گئے مگر معاف کرنے انہی لوگوں کو ریلیف بھی آپ ہی کے دور میں ملا۔یہ کالم میرا ہے اس کے مندرجات میرے لکھے ہیں میں اگر مزاج گرامی پر نگراں گزرا ہے تو معافی مانگ لیتا ہوں ناک رگڑ کر معافی لیکن وہ شخص اللہ اور اس کے رسولۖ کا ناپسندیدہ ہے جو اپنے مسلمان بھائی کو صیح مشورہ نہ دے اور میرا مشورہ ہے ڈاکٹر شاہد مسعود پر رحم نہیں انہیں انصاف دیا جائے۔

Engineer Iftikhar Chaudhry

Engineer Iftikhar Chaudhry

تحریر : انجینئر افتخارچودھری