اسلام آباد (جیوڈیسک) عدالت عظمیٰ نے بنیادی انسانی ضروریات اور اخراجات کے بارے میںحکومتی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ شایدآئین میں درج زندگی اورانسانی عظمت کاحق ریاست کی کثیر آبادی کو دستیاب نہیں۔ عدالت کو بتایاجائے کہ کیا ہر پاکستان شہری کو بنیادی انسانی حقوق دیے جا رہے ہیں؟ آٹے کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے کے خلاف جماعت اسلامی پاکستان کے سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ کی درخواست کی سماعت کے دوران عدالت نے آبزرویشن دی ہے کہ آرٹیکل 9 کے تحت زندگی کے تحفظ اورآرٹیکل 14 کے تحت استحصال سے پاک انسانی وقارکے آئینی حق سے ملک کی بیشتر آبادی محروم ہے۔ اس معاملے پرکوئی فیصلہ دینے سے پہلے سائنٹفک اندازمیں اعدادوشمار کودیکھا جائے گا۔ عدالت نے قراردیا آرٹیکل 38 ذیلی شق ڈی کے تحت عوام کی فلاح وبہبود ریاست کا ذمہ وفاقی اورصوبائی حکومت پر عائد ہوتا ہے۔
جسٹس جوادایس خواجہ نے ریمارکس دیے کہ پیٹ بھریں گے تو سوچ آئے گی، بھوکاآدمی صرف پیٹ کے بارے میں سوچتا ہے۔ جس گھر میں دانے اس کے کھمبے بھی سیانے۔ فاضل جج نے استفسار کیا کہ عدالت کو بتایا جائے کہ کیا ہر پاکستان شہری کو بنیادی انسانی حقوق دیے جا رہے ہیں۔ ان کے کھانے پینے، تعلیم وصحت اورسر پرچھت ہونے سمیت بنیادی لوازمات پورے کیے جارہے ہیں؟ گزشتہ روزڈپٹی اٹارنی جنرل اور چاروں صوبوں نے آٹے کی قیمت اور دستیابی سے متعلق رپورٹ پیش کی جبکہ نیشنل فوڈاینڈ سیکیورٹی کمشنرنے اوسط اخراجات کے بارے میں رپورٹ پیش کی۔ نیشنل فوڈاینڈ سیکیورٹی رپورٹ کے مطابق میاں بیوی اور 2بچوں پرمشتمل خاندان کے کھانے پینے کے اوسط اخراجات 5530 روپے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق دودھ 15 روپے کلو، 40کلو آٹا 1680 روپے اور 5 کلو چاول 3 سو روپے میں دستیاب ہیں۔
عدالت نے اس آبزرویشن کے ساتھ رپورٹ مسترد کر دی کہ اعداد و شمار بہت پرانے ہیں۔ درخواست گزارکے وکیل توفیق اسلم نے کہاکہ راولپنڈی اسلام آبادمیں دودھ 80 روپے کلو ہے۔ صوبائی حکومتوں کی رپورٹ میں گندم کی قیمتوں میں موجود تفاوت پربھی عدالت نے حیرانی کااظہار کیا۔ خیبر پختونخوا حکومت کی رپورٹ میں آٹے کی عدم دستیابی کا بھی کہا گیا تھا جبکہ توفیق اسلم نے بتایا کہ گلگت وبلتستان میں لوگ آٹے کیلیے سڑکوں پرنکلے ہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عتیق شاہ نے بتایا کہ آٹاافغانستان اسمگل ہونے کی وجہ سے قلت ہوجاتی ہے۔ سرحدی علاقوں میں بڑے بڑے گودام بنے ہوئے ہیں۔ مقامی انتظامیہ کی آنکھوں کے سامنے یہ سب کچھ ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ انتظامی نااہلی ہے۔ جسٹس جوادنے کہا کہ اگرایک جنس موجودہے لیکن عوام تک نہ پہنچ پائے تویہ مجموعی انتظامی ناکامی ہے۔ ریاست تب چلے گی جب قواعدکے مطابق اسے چلایاجائے گا۔ داتا صاحب کے دربارمیں اگر کوئی بھوکا نہیں ہوتا تووہ اولیا کی کرامات ہیں۔ ملک قانون اوراصولوں سے چلتے ہیں۔