لاہور (جیوڈیسک) پاکستان میں انسانی حقوق کے کمیشن کے مطابق ایک پولیس افسر کی سربراہی میں بنائی جانے والی پنجاب حکومت کی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم سے غیر جانبدارانہ تحقیقات کی توقع نہیں ہے۔ انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے چئیرمین ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا تھا کہ عینی شاہدین کے بیانات اور منظرعام پر آنے والی ویڈیوز نے بھی محکمہ برائے انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے دعوؤں کی نفی کر دی ہے۔
اگر سی ٹی ڈی کا یہ موقف بھی مان لیا جائے کہ کہ گاڑی میں دہشت گرد سوار تھے تو بھی 13 سالہ بچے اور اس کی ماں کو اتنے نزدیک سے گولیاں مارنے کا کیا جواز تھا۔ ڈاکٹر مہدی حسن کے مطابق گاڑی میں سوار افراد کو آسانی سے گرفتار کیا جا سکتا تھا کیوں کہ عینی شاہدین کے بقول گاڑی میں سوار افراد غیر مسلح تھے۔
انسانی حقوق کمیشن کے چئیرمین کے مطابق پاکستان میں انسانی حقوق کی زیادہ تر خلاف ورزیاں حکومتی ادارے کرتے ہیں جن میں پولیس سر فہرست ہے۔ ان کے بقول اس واقعے نے ان تمام کیسز کے بارے میں بھی سوالیہ نشان پیدا کر دیے ہیں جن میں افراد کو دہشت گرد قرار دے کر اٹھا لیا جاتا ہے۔
پاکستان کے سینئیر تجزیہ کار سید طلعت حسین نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ یہ ایک مشکل صورتحال ہے، سی ٹی ڈی کا کہنا ہے کہ گاڑی میں سفر کرنے والی فیملی بے گناہ ہے جبکہ ڈرائیور کا تعلق دہشت گردوں سے تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر سی ٹی ڈی کا موقف مان لیا جائے تو یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ انسانوں کی آڑ میں سفر کرنے والے مطلوب افراد کے بارے میں آئندہ کیا حکمت عملی اختیار کی جائے؟
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت جو پہلے ہی بڑے دباو میں کام کر رہی تھی اس واقعے کے بعد تو بالکل ہی “ڈیفینسیو” ہو کر رہ گئی ہے، ’’سوشل میڈیا پر لوگ عمران خان کی تقریروں کے وہ کلپس شئیر کر رہے ہیں جن میں وہ پولیس ایکشنز کی ذمہ دار حکومت کو ٹھہرا کر ذمہ داری کا تعین اوپر کی طرف کرتے ہوئے شہباز شریف کے استعفے کا مطالبہ کیا کرتے تھے۔ اب لوگ اسی معیار پر عثمان بزدار اور عمران خان کا استعفی مانگ رہے ہیں۔‘‘
ان کے بقول جے آئی ٹی بنانے کا مقصد عوامی غصے کو کم کر کے حکومت پر آئے ہوئے دباو میں کمی لانا ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنما محمود الرشید نے کہا ہے کہ ساہیوال واقعے پر حکومتی وزرا کے مستعفی ہونے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
نماز جنازہ اور تدفین
ساہیوال کے واقعے میں ہلاک ہونے والے افراد کی نماز جنازہ لاہور میں شنگھائی پل کے قریب فیروزپور روڈ پر ادا کر دی گئی، نماز جنازہ میں شہریوں کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔ اس موقع پر سانحہ ساہیوال میں مرنے والے خاندان کے رشتہ دار روتے رہے۔
نماز جنازہ کے بعد بعض مشتعل مظاہرین اور پولیس اہلکاروں میں جھڑپیں بھی دیکھنے میں آئیں۔ نماز جنازہ کے بعد ہلاک ہونے والوں میں سے خلیل، اس کی بیوی اور بیٹی کی شہر خموشاں قبرستان میں تدفین کر دی گئی۔ جبکہ گاڑی کے ڈرائیور ذیشان کے گھر والے اس کی میت فیروزپور روڈ پر رکھ کر احتجاج کر رہے ہیں۔
ذیشان کے بارے میں حکومتی اہلکاروں کا کہنا تھا کہ اس کا داعش سے تعلق ہے جبکہ ذیشان کے گھر والے اس کی تردید کر رہے ہیں۔ ذیشان کی میت کے پاس کھڑے احتجاجی مظاہرین دہشت گردی کا الزام واپس لینے اور پنجاب کے وزیر قانون راجہ بشارت کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اتوار اور پیر کی درمیانی رات میں اس رپورٹ کے فائل کئے جانے تک ذیشان کے ورثاء کا احتجاج جاری تھا۔
مقدمہ درج
ادھر ساہیوال میں محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے اہلکاروں کی جانب سے مشکوک مقابلے میں ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین کے مطالبے پر سی ٹی ڈی کے 16 نامعلوم اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔ پولیس کے مطابق مقدمہ مقابلے میں مارے جانے والے خلیل احمد کے بھائی جلیل احمد کی مدعیت میں درج کیا گیا جس میں قتل اور دہشت گردی کی دفعات شامل کی گئیں۔
لاہور میں احتجاج جاری
اتوار کے روز بھی لاہور کے علاقے چونگی امر سدھو کے قریب فیروز پور روڈ پر احتجاج جاری رہا۔ لاہور میں آج میٹرو بس سروس بھی بند رہی۔ احتجاج کے باعث علاقے میں ٹریفک کی روانی بری طرح متاثر ہوئی۔ ساہیوال واقعے میں مرنے والوں کی میتیں یہاں پہنچنے پر اس احتجاج میں شدت آ گئی۔ احتجاجی مظاہرین نے وزیراعظم عمران خان اور پنجاب حکومت سے انصاف ملنے پر نا امیدی کا اظہار کرتے ہوئے چیف جسٹس اور آرمی چیف سے انصاف کی اپیل کی۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ
اتوار کی شام کو جاں بحق ہونے والے افراد کی پوسٹ مارٹم کی رپورٹس بھی سامنے آگئیں۔ ان رپورٹس کے مطابق واقعے میں خلیل کو سب سے زیادہ 13 گولیاں سینے اور ہاتھ پر لگیں جبکہ گاڑی چلانے والے ذیشان کو 10 گولیاں لگیں۔ رپورٹ کے مطابق خلیل کی 13 سالہ بیٹی اریبہ کو سر اور جسم کے دیگر حصوں پر چھ گولیاں لگیں، جبکہ اس کی والدہ نبیلہ کو 4 گولیوں کے زخم آئے۔ واقعے میں زخمی چار سالہ ہادیہ کو ہسپتال سے فارغ کر دیا گیا ہے جبکہ دیگر دو زخمی بچے عمیر اور منیبہ ابھی تک لاہور کے جنرل ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔
تحقیقات شروع
مذکورہ واقعہ کی تحقیقات کے حوالے سے پنجاب کے محکمہ داخلہ کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق ایڈیشنل انسپکٹر جنرل (اے آئی جی) پولیس سید اعجاز حسین شاہ کی سربراہی میں تین رکنی جے آئی ٹی تشکیل دی گئی ہے۔ دیگر دو ارکان میں انٹر سروسز انٹیلی جنس اور انٹیلی جنس بیورو کے نمائندے شامل ہیں۔ جے آئی ٹی کے ارکان نے اتوار کے روز جائے واردات کا معائنہ کیا اور سی ٹی ڈی کے زیر حراست اہلکاروں کے بیانات بھی قلمبند کیے۔ جے آئی ٹی نے اس واقعے کے بعد وزیراعلی کو دی گئی پہلی رپورٹ کو بھی تفتیش کا حصہ بنا لیا ہے۔ جے آئی ٹی دو دن میں پنجاب حکومت کو رپورٹ پیش کرے گی۔
پنجاب حکومت کا موقف
اتوار کے روز لاہور میں صوبائی وزیر قانون پنجاب راجا بشارت نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ انسداد دہشتگردی ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے مطابق ذیشان داعش کے لئے کام کر رہا تھا۔ پہلا فائر بھی اسی نے کیا۔ جے آئی ٹی تحقیقات کرے گی کہ ذیشان اس فیملی کے ساتھ کیوں جا رہا تھا؟ وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت کا کہنا تھا کہ انسداد دہشتگردی ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے موقف کے مطابق آپریشن سو فیصد انٹیلی جنس معلومات کے مطابق کیا گیا۔
راجہ بشارت کا کہنا تھا، ’’13 جنوری کو ہنڈا سٹی کار دہشت گردوں کو لے کر ساہیوال گئی۔ 18 جنوری کو تصدیق ہوئی کہ ذیشان دہشت گردوں کے لیے کام کر رہا تھا۔ 19 جنوری کو سفید سٹی کو کیمروں سے مانگا منڈی کے قریب دیکھا گیا تو سی ٹی ڈی کو کہا گیا کہ کار کو روکا جائے۔ گاڑی کو جب روکا گیا تو فائرنگ ہو گئی۔‘‘
صوبائی وزیر قانون کے مطابق سی ٹی ڈی کے موقف کے مطابق پہلا فائر ذیشان نے کیا تھا جبکہ لواحقین کے مطابق فائرنگ سی ٹی ڈی نے کی جس کا تعین ہونا ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ذیشان کی گاڑی سے دو خودکش جیکٹیں، آٹھ ہینڈ گرنیڈ، دو پستول اور گولیاں برآمد ہوئیں۔ رات گئے جاری کئے جانے والے ایک بیان میں صوبائی وزیر قانون راجا بشارت نے اس تاثر کی تردید کی کہ حکومت انسداد دہشت گردی کے اہلکاروں کو سزا سے بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے پولیس کے ہاتھوں شہریوں کے قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی۔ اپنے ردعمل میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ تحریک انصاف نے پنجاب کو پولیس اسٹیٹ میں تبدیل کردیا، ساہیوال سانحہ پیغام ہے، نئے پاکستان میں شہری بال بچوں کے ساتھ گھروں سے باہر نہ نکلیں۔
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ سہمے ہوئے بچوں کو دیکھ کر ابھی تک صدمے کی حالت میں ہیں۔ ان کے بقول اگرچہ سی ٹی ڈی نے دہشت گردی کے خلاف نمایاں خدمات سرانجام دیں لیکن قانون کے سامنے سب جوابدہ ہیں۔ ان کے بقول جے آئی ٹی کی رپورٹ آنے کے بعد اس ضمن میں فوری کارروائی کی جائے گی۔
پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز کا کہنا تھا کہ پاکستان میں حکومت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی، غیر سنجیدگی عروج پر ہے۔ حکومتی اہلکار خون میں لت پت ماں کو اغوا کار اور کبھی دہشت گرد کہتے ہیں، ’’بہری حکومت سے کہتا ہوں بربریت کے ذمہ داروں کو سرعام پھانسی دی جائے۔‘‘
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ قوم حکمرانوں سے پوچھ رہی ہے کہ سی ٹی ڈی اور پولیس کو شہریوں کے قتل عام کا کس نے لائسنس دیا ہے۔ اگر لاٹھی گولی کی سرکار کا اقتدار ہے تو پھر عدالتوں کو تالے لگوا دیں۔
اس واقعے کے حوالے سے قومی اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ نون کی طرف سے ایک تحریک التوا بھی جمع کروا دی گئی ہے۔