تحریر: نعیم الرحمان شائق درحقیقت کتابت ِ حدیث کا آغاز عہد ِ رسالت ماٰب ﷺ میں شروع ہو گیا تھا ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ آپ ﷺ نے نہ صرف کتابت ِ حدیث کے کام کی حوصلہ افزائی کی ، بلکہ آپ ﷺ نے چند مواقع پر خود اپنی سرپرستی میں احادیث لکھوائیں ۔ رسول اللہ ﷺ کے عہد ِ مبارکہ میں لکھی گئیں چند احادیث کی کتابیں درج ذیل ہیں: 1۔ صحیفہ ِ عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ 2۔ الصحیفۃ الصادقہ 3۔ کتاب الصدقہ ِ 4۔ صحیفہِ علی رضی اللہ عنہ اس کے علاوہ آں حضرت ﷺ کے دور میں احادیث کے سلسلے میں دیگر تحریری کام بھی ہوا تھا ۔اس چھوٹی سی تحریر میں اس عہد ِ مبارکہ کے تمام تحریر ی کام کا موازنہ کرنا محال ہے ۔ درج بالا چار کتابوں میں سے پہلی اور تیسری کتاب آپ ﷺ نے لکھوائی تھیں۔ جب کہ دوسری اور چوتھی کتاب آپ ﷺ کے دو صحابیوں ، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص اور سیدنا علی المرتضی ٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے تحریر کی تھیں ۔اب ان چار کتابوں کا اجمالی طور پر جائزہ لیا جاتا ہے ۔
1۔۔سن 10 ہجری میں یمن کا علاقہ نجران فتح ہوا ۔ آپ ﷺ نے حضرت عمروبن حزم رضی اللہ عنہ کو وہاں کا عامل مقرر فرمایا ۔ جاتے وقت حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے ایک کتاب لکھوا کر ان کے حوالے کی ۔اس کتاب میں عام نصیحتوں کے علاوہ طہارت ، نماز ، زکوۃ ، عشر ، حج عمرہ ، جہاد ، غنیمت اور جزیہ کے احکام ، نسلی قومیت کے نظریہ کی ممانعت ، دیر (خوں بہا) ، بالوں کی وضع ، تعلیم ِ قرآن اور طرز ِ حکم رانی کے متعلق ہدایات درج تھیں ۔(تفصیل کے لیے ڈاکٹر محمد حمید اللہ کی الوثائق السیاسہ پڑھیے۔) حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کی عمر اس وقت سترہ سال تھی ۔انھوں نے اس کتاب کی روشنی میں بہ طور عامل اپنے فرائض بہ حسن خوبی سر انجام دیے ۔ ان کے انتقال کے بعد یہ کتاب ان کے پوتے ابوبکر کے پاس رہی ۔ امام زہری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ مسودہ انھی سے پڑھا اور نقل کیا ۔
2۔۔الصحیفۃ الصادقہ ، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کا تحریر کردہ ہے ۔ ان کے بارے میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :”نبی ﷺ کے صحابہ میں سے آپ ﷺ کی حدیثیں مجھ سے زیادہ کسی کے پاس نہیں ۔ سوائے عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے ۔ کیوں کہ وہ لکھ لیا کرتے تھے اور میں نہیں لکھتا تھا ۔”(بخاری ، ترمذی ، سنن دارمی) حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ اس صحیفے کا خاص خیال رکھتے تھے ۔ آپ رضی اللہ عنہ کے شاگرد مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں :”میں حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور ایک مسودہ ، جو آپ کے تکیے کے نیچے رکھا ہوا تھا، اٹھا کر ہاتھ میں لے لیا ۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے مجھے رو ک دیا ۔ میں نے کہا : “آپ تو مجھ سے کچھ نہیں چھپاتے ۔”
Muhammad Farman
اس پر آپ نے فرما یا :” یہ صادقہ ہے ۔ یہ وہ کچھ ہے ، جو میں نے خود رسول اللہ ﷺ سے براہ ِ راست سنا ہے اور آپ کے اور میرے درمیان کوئی تیسرا راوی نہیں ہے ۔ اگر یہ کتاب اللہ (یعنی وہی حدیث کی کتاب ) اور وہظ (آپ رضی اللہ عنہ کی زرعی زمین )میرے لیے موجود رہیں تو پھر مجھے باقی دنیا کی کچھ پروا نہیں ہے ۔”(جامع البیان العلم ، اسد الغابہ) روایات بتاتی ہیں کہ انھوں نے اپنی یہ کتاب آں حضرت ﷺ کی اجازت سے تحریر کی تھی ۔ قریش کے لوگوں نے انھیں الصحیفۃ الصادقہ لکھنے سے منع کیا تو انھوں نے آپ ﷺ سے اس بات کی شکایت کی ۔آپ ﷺ نےفرمایا :” قسم ہےاس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے ۔ ان دونوں لبوں کے درمیان (جو زبان ہے اس) سے حق کے سوا کچھ نہیں نکلتا ۔ اس لیے تم لکھا کرو ۔”(ابن ِ سعد ، ابو داؤد، المحدث الفاصل ، مستدرک) حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد یہ مسودہ آپ کی اولاد کے پاس رہا ۔ان کے پڑپوتے حضرت عمرو بن شعیب رحمۃ اللہ علیہ اس سے درس ِ حدیث دیا کرتے تھے ۔مشہور محدثین یحیٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ اور علی بن المدنی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عمرو بن شعیب کی روایت کردہ ہر حدیث ، خواہ وہ کسی بھی کتاب میں ہو ، حضرت عبد اللہ بن عمرو کے صحیفۃ الصادقہ سے لی گئی ہے ۔ (تہذیب التہذیب)
3۔۔حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :”رسو ل اللہ ﷺ نے کتاب الصدقہ لکھوائی ۔آپ ﷺ اسے اپنے عاملوں کے پاس نہ بھیجنے پائے تھے کہ آپ ﷺ کی انتقال ہو گیا ۔ آپ ﷺ نے اسے اپنی تلوار کے ساتھ منسلک کر لیا تھا ۔ آپ ﷺ کی وفات کے بعد اس پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عمل کیا ۔یہاں تک کہ وفات پائی ۔ پھر اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عمل کیا ۔ یہاں تک کہ وفات پائی ۔” (سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی ، الابل والغنم) الصحیفۃ الصادقہ کی طرح ، کتاب الصدقہ کا بھی درس دیا جاتا تھا ۔ اس کتاب کا درس مشہور محدث ابن شہاب زہری رحمۃ اللہ علیہ (51 ہجری ۔۔۔125ہجری) دیا کرتے تھے ۔انھوں نے یہ کتاب حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے صاحب زادے حضرت سالم رحمۃ اللہ علیہ سے پڑھی تھی ۔ جسے انھوں نے حفظ کر لیا تھا ۔
Hazrat Ali
4یہ بات بھی مشہور ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس احادیث کا تحریر کردہ مجموعہ تھا ۔ جو “صحیفہ ِ علی ” کے نام سے مشہور ہے ۔ یہ بھی رسول اکرم ﷺ کے عہد ِ مبارک میں لکھا گیا تھا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے اس صحیفے کے متعلق فرمایا : “ہمارے پاس کچھ نہیں ، سوائے کتاب اللہ اور اس صحیفے کے جو نبی ﷺ سے منقول ہے ۔”(صحیح بخاری شریف) امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح بخاری میں چھے مقامات پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی زبانی اس صحیفے اور اس کے مضامین کا ذکر کیا ہے ۔مشہور مورخ ابن ِ سعد کا بیان ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ (اپنے دور خلافت میں ) مسجد میں کھڑے ہوئے اور ایک خطبہ ارشاد فرمایا ۔ پھر لوگوں سے پوچھا: کون ایسا ہے ، جو محض ایک درہم کے عوض علم خریدنا چاہتا ہو ؟” اس جملے سے آپ کی مراد یہ تھی کہ تحصیل ِ حدیث کا طالب ِ علم محض ایک درہم کا کاغذ خریدے اور آپ رضی اللہ عنہ کے پاس احادیث ِ نبوی لکھنے کے لیے آجائے ۔ بیان کیا گیا ہے کہ حارث الاعوار نے کاغذ خریدا اور آپ رضی اللہ عنہ کے پاس آگیا ۔طبقات ابن ِ سعد میں ہے کہ اسلامی تاریخ کی ابتدائی صدیوں میں لفظ “علم” محض علم ِ حدیث کے لیے بولا جا تا تھا ۔
(نوٹ: اس مضمون کی تیاری میں درج ذیل کتابوں سے استفاد ہ کیا گیا ہے : 1۔ کتابت ِ حدیث عہد ِ رسالت ﷺ اور عہد ِ صحابہ رضی اللہ عنہم میں ۔۔ مفتی محمد رفیع عثمانی 2۔حجیت ِ حدیث ۔۔۔مفتی محمد تقی عثمانی 3۔تاریخ ِ تدوین ِ حدیث ۔۔مولانا عبد الرشید نعمانی رحمۃ اللہ علیہ)
تحریر: نعیم الرحمان شائق ای میل: shaaiq89@gmail.com فیس بک: fb.com/naeemurrehmaan.shaaiq Reply, Reply All or Forward | More