تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر ایشیا کے دل کی بات آج کل امرتسر بھارت میں ہو رہی ہے یعنی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس جس میں ہمارے نصف وزیر خارجہ سرتاج عزیز صاحب شرکت کر رہے ہیں کیونکہ بھارت علاقے کا نمبردار ہے اگر ہم اس کے بلانے پر کانفرنس میں نہ جاتے تو ہمارے حکمرانوں کو خدشہ تھا کہ کہیں ہندوستان ہمیں دہشتگرد ڈکلیئر نہ کروا دے اسی خوف کو لے کر ہم نے کانفرنس میں شرکت کا جواز تراش لیا اور ہندوستان کی تمام تر کارستانیوں کو پس پشت ڈال دیا اگر ہم قوم کے جذبات کے عکاس ہوتے تو کبھی بھی بھارت کانفرنس میں شرکت کو ضروری نہ سمجھتے۔
ایسا لگتا ہے کہ ہم نے بر صغیر کو ایک گائوں مان کر اس میں ہندوستانی نمبرداری کو تسلیم کر لیا ہے۔ذرا اپنے ذہنوں پہ چھائی ہوئی گرد کو ہٹا کر دیکھ لیتے ہمارے حکمران کہ کیا یہ وہی بھارت نہیں جو خود خطے کا سب سے بڑا دہشتگرد ہے جس کے مظالم کی روداد ایک مدت سے کشمیر کی لہو رنگ وادی بیان کر رہی ہے ، جو آئے روز ہماری سرحدوں کی حرمت کو پامال کرتے ہوئے کئی بیگناہ شہریوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگتا رہتا ہے ہماری افواج پاک کے جوان اس کی دراندازی کی بھینٹ چڑھ کر مقام شہادت پر فائز ہوچکے ہیں میری دھرتی کے ایک جوان کی قیمت اگر پورا ہندوستان بھی صفحہ ہستی سے مٹ جائے تب بھی پوری نہیں ہو سکتی کتنی قیمتی جانیں بلا وجہ اور بلا اشتعال لے چکا ہے مودی بھیڑیا اور اس کی ناپاک سینا ہم کیونکر اپنے جوانوں کے خون کو فراموش کر دیتے ہیں بلوچستان میں ہندوستانی سرگرمیاں ہماری نظروں سے کیونکر اوجھل ہو گئیں اپنے گھر میں وی آئی پی مہمان کلبھوشن کو ناجانے کونسی خوبی کے زیر اثر کبھی زیر بحث لانے کی ہمت نہیں کیسے دماغ سے محو کردیا ہم نے بھارت کی شیطانی چالوں کو ؟
india
کیا آپ کو یاد ہے یہ وہی بھارت ہے جسنے اپنی چانکیائی سیاست کے بل بوتے پرسارک سربراہ کانفرنس کا انعقاد پاکستان میں نہ ہونے دیا بلکہ بنگلہ دیش اور افغانستان کو بھی اپنا ہمنوا بنالیا تھا اور خود شامل ہونے کی بجائے دیگر ملکوں کو بھی شرکت سے روک دیا تھا تو پھر ماننا پڑے گا کہ گائوں برصغیر کا نمبردار بھارت ہی ہے جو خطے کے دیگر ممالک کو اپنی چاپلوسی اور چالاکی سے اپنی بات منوا لیتا لیتا ہے اور سارے ممالک اس کی بات ایسے مان جاتے ہیں جیسے ہاری کسی وڈیرے کے سامنے سرتسلیم خم کر دیتا ہے۔ جو اس کی بات نہ مانے اسے پھر اندرونی اور بیرونی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسے میری پاک دھرتی کو دہشتگردی کا سامنا براستہ افغانستان یا بذریعہ ہندوستان کرنا پڑتا ہے سری لنکا میں بھی انڈین دخل اندازی بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ خطے کے باقی ممالک مل کر ہندوستان کو دہشتگرد قرار دلواتے مگر بے حسی کی انتہا ہے کہ ہم اپنے پیاروں کے خون کا اگر بدلہ لینے کی ہمت نہیں کر سکتے تو کم از کم قاتل سے مصافحہ بھی نہ کرتے بلکہ اس سے بے زاری اختیار کرتے۔
مگر ہم ایسے ہی بھونڈا ساجواز گھڑ لیتے ہیں کہ اگر ہم نہ جاتے تو ہمیں دہشتگرد قرار نہ دلوا دے اسی لیئے شرکت ضروری تھی واہ کیا کہنے ہماری با ضمیر اور دوستی کی رسیا حکومت کے جنہوں نے اتنے جوان لاشے اتھانے کے باوجود مودی بھائی کی ناراضگی سے خوفزدہ ہو کے پوری قوم کی مخالفت کے باوجود سرتاج عزیز کو بھارت بھیجا اس حکومت کو کسی بھی صورت فقط اپنے سر پر سجنے والا حکومت کا تاج عزیز ہے باقی سرتاج عزیز کا کیا ہے وہاں جا کے ادھوری کانفرنس چھوڑ کر واپسی ہوئی نہ پھر کیا ہے عوام کی نہیں مانی تو پھر کیا ہوا مودی بھائی کی کلغی تو اونچی ہوئی نہ ۔ ارے بھائی صاحب ہندوستان نوازی کا اس سے برا اور ثبوت کیا ہو گا کہ اسے خطے کا نمبردار تصور کر کے آج تک ہماری حکومت اس کے سامنے غریب مزارعے کی طرح کبھی آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی بھی جسارت نہ کر سکی۔وہ تو صدا سلامت رہیں اس پاک دھرتی کی سرحدوں کے رکھوالے جو ماں دھرتی کی طرف اٹھنے والی آنکھ پر ابھی صرف پٹی باندھ رہے ہیں اگر ہماری حکومت یعنی سیاستدانوں کے روپ میں بزنس مین لوگ تھوڑی سی ہمت والی ہوتی تو اس دشمن کی آنکھیں کب کی نکال باہر کیں ہوتیں۔
مگر کبھی مزارعے بھی نمبردار کے سامنے بولے ہیں ؟ ہماری طرف سے اگر کوئی معصوم پرندہ (کبوتر ) کبھی غلطی سے ہندوستان کی طرف چلا جائے تو وہ کئی کئی ہفتے اس پرندے کے خلاف بولتے نہیں تھکتے اور ایک ہم ہیں کہ ہمارے ہاں را کے ایجنٹ بھی پکڑے جائیں تو ہمارے سیاستدان اس کے خلاف زبان کھولنا کفر تصور کرتے ہیں ۔ ہمارے ہاں سیاسی کلچر کچھ عجیب طرح سے پنپ رہا ہے ہوتا ایسے ہے کہ عمران خان نے اگر کہیں حکومت کے خلاف کوئی بیان جاری کر دیا تو پھر حکومتی وزراء کی ایک فوج ظفر موج کئی کئی دن تک عمران خان کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں اور ان کی زبان کی کمان سے لفظوں کے تیر وں کی بارش شروع ہو جاتی ہے اور دوسری طرف کشمیر میں ہندوستان بربریت کی انتہا کر دے تو یہی وزراء خاموشی کا جام پی کر مدہوش پڑے رہتے ہیں کوئٹہ دھماکوں سے لرزتا رہے تو یہ لوگ اپنے لب سی لیتے ہیں کبھی ہندوستان کے خلاف بول کر گناہگار نہیں ہونا چاہتے ،اسی لئے قوم چاہتی تھی کہ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کا پاکستان کو بائیکاٹ کرنا چاہئے مگر اس ذہین اور فطین حکومت نے کسی کی ایک نہیں سنی کیونکہ قوم قوم ہوتی ہے گورنمنٹ یا بادشاہ نہیں یہ اختیار صرف اور صرف حکومت کے پاس ہوتا ہے کہ کب اور کہاں دشمن سے پیار کی پینگیں بڑ ھانی ہیں کب اور کس وقت ذلیل دشمن کے ہاتھوں کھلونا بننا ہے یہ صرف حکومت کی صوابدید ہوتی ہے قوم کون ہوتی ہے مشورے دینے والی ؟ قوم کو آخر یہ اختیار دیا کس نے ہے ہمیں تو قوم نے مینڈیٹ دے رکھا ہے سیاہ و سفید کرنے کا مگر قوم کو یہ حق کس نے دیا ؟۔
Pakistan
میں تو یہ ہی کہوں گا کہ اگر یہ وزراء قسم کے لوگ صرف اتنا سوچ لیں کہ ہمارے پاس جو عہدے ہیں وہ پاکستان کی وجہ سے ہیں پاکستان ہے تو ان کی وزارتیں بھی ہیں اور حکومت بھی جتنا یہ وزیر اعظم کے دفاع کے لئے بولتے ہیں کاش اتنا یہ لوگ مادر وطن کے دفاع اور اس کے دشمن کی سرکوبی کے لئے بولیں مگر شائید وہ دفاع وطن کو اپنے فرائض میں گنتے ہی نہیں دیکھ لیا نہ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شمولیت کا نتیجہ ۔ سیدھی سی بات ہے افغانستان اور بنگلہ دیش ہندوستان کے پروردہ ملک ہیں یہ وہی ممالک ہیں جنہوں نے بھارت کے کہنے پر سارک سربراہی کانفرنس کو پاکستان سے منتقل کروایا تھا پھر ہارٹ آف ایشیا کا ایجنڈہ تو تھا ہی افغانستان اس میں شرکت بنتی ہی نہیں تھی ۔ دیکھ لیا نہ پھر اشرف غنی نے صاف کہہ دیا کہ پاکستان ہماری فکر چھوڑے اور اپنے اندرونی معاملات پر غور کرے واہ کیا بات ہے ٹڈی کے بھی پر نکل آئے ۔موجودہ حکومت کے روپ میں کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ میرا ذکر سن رہے ہو میری راہ پر نہ چلنا سرورق یہ بھی لکھنا مجھے مات ہو گئی ہے
مان لینا چاہئے ان کو بھی کہ ہماری حکومت کس طرح مودی کی چالاکی کے زیر اثر ہے خدا کے لئے اب تو مان جائو کہ سیاسی بساط پہ تم ہزیمت سے دوچار ہو چکے ہو مودی کی یاری کا خبط اپنے ذہنوں سے نکال کر اب بھی مادر وطن کے بیٹے بن جائو صبح کا بھولا اگر شام کو گھر واپس آجئے تو وہ بھولا نہیں کہلاتا ۔بھارت اگر ناراض ہو بھی جائے تو کوئی فکر کرنے کی ضرورت نہیں اور اگر خدانخواستہ دھرتی ماں روٹھ گئی تو سب کہیں کے نہیں رہیں گے وہ بار بار ظلم کرتا ہے اور ہم ہیں کے پھر اسی کے گھٹنے سے چمٹنے کی کوششوں میں ہیں وہ تو لاکھ احسان ہے قادر مطلق کا جس نے ہمیں دنیا کی بہترین فوج سے نواز رکھا ہے جو سرحدوں کی حفاظت کو ہر کام پر اولیت دیتی ہے مگر جس دشمن سے ہم بار بار نقصان در نقصان اٹھا کر بھی دوستی کی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں وہ تو کبھی ہمارا دوست تھا ہی نہیں اور نہ مستقبل میں دوست ہو سکتا ہے۔
وہ تو اسقدر کمینہ دشمن ہے کہ سرحدوں پر ہماری افواج کا مقابلہ کر نہیں سکتا تو ففے کٹنی عورتوں کی طرح ہمارے داخلی معاملات میں ٹانگ اڑا کر ہمیں باہم لڑوا رہا ہے وہ ایسے اسباب پیدا کرتا ہے کہ کہیں ہم لسانیت کے نام پر اس کے ہاتھوں بیوقوف بن کر ایک دوسرے کے خون سے ہاتھ رنگ رہے ہیں کہیں فرقہ واریت کی آگ کو ہوا دے کر وہ اپنے ایجنٹوں کے ہاتھوں کشت و خون کروارہا ہے اور الزام بھی اس پر نہیں آتا کیونکہ اس کے ایجنٹ اگر پکڑے بھی جائیں تو تو مجرم کا نہیں بلکہ ان کے ساتھ مہمانوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے ؟ ہر محب وطن پاکستانی سے میری گزارش ہے کہ خواہ وہ اقتدار میں ہے ،بیوروکریسی میں ہے ،مزدور یا ملازمت پیشہ ہے ،خوانچہ فروش سے لے کر مسند اقتدار تک ہر پاکستانی تہہ دل سے ہندوستان کا بائیکاٹ کرے جو ایسا نہیں کر سکتا وہ بلا شبہ غدار ہے ماں دھرتی کا۔
M.H Babar
تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر mobile ;03344954919 mail ; mhbabar4@gmail.com