ممبئی (جیوڈیسک) بھارتی ریاست اتر پردیش میں گزشتہ دنوں گائے کا گوشت کھانے کے الزام میں مسلمان شخص کے قتل کی تحقیق کرنے والے کمیشن نے انتہا پسند ہندوؤں کے چہرے سے نقاب اٹھاتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ اخلاق نامی شخص کا قتل اچانک نہیں ہوا بلکہ اسے منصوبہ بندی کے تحت قتل کیا گیا ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق اتر پردیش میں گائے کا گوشت کھانے کے الزام میں قتل کیے گئے مسلمان شخص اخلاق کے قتل کی تحقیقات کرنے والے نیشنل کمیشن فار منارٹیز( این سی ایم) نے اپنی رپورٹ حکومت کے سامنے پیش کردی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اخلاق کو گائے کا گوشت کھانے کی افواہوں کے بعد اچانک اشتعال کے دوران قتل نہیں کیا گیا بلکہ اس کے لیے پہلے سے منصوبہ بندی کی گئی تھی۔
این سی ایم نے اپنی رپورٹ میں اس خدشے کا بھی اظہار کیا ہے کہ اس واقعہ کے بعد حکومتی ارکان اور سیاست دانوں کے گائے کے گوشت پر بیانات نے جلتی پر تیل کا کام کیا جس کی وجہ سے مختلف برادریوں کے درمیان تعلقات خراب ہو رہے ہیں لہٰذا اس طرح کے ماحول میں ایسے متنازعہ بیانات سے اجتناب برتا جائے یا پھر مزید حالات کی خرابی کے لیے تیار رہا جائے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ان ہی دنوں گائے کو ذبح کرنے کی افواہوں پر لوگوں نے 2 اور افراد کو قتل کرنے کی کوشش کی تھی تاہم پولیس کی بروقت کارروائی سے یہ کوشش ناکام بنادی گئی۔ 3 رکنی ٹیم کے سبربراہ نسیم احمد کا کہنا تھا کہ جب گائے کو ذبح کرنے کی مندر کے ذریعے افواہ پھیلائی گئی تو زیادہ تر لوگ سو رہے تھے اور یہ کیسے ممکن تھا کہ لمحوں میں اتنی بڑے تعداد میں لوگ جمع ہوجاتے جس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ اخلاق کے قتل کی پہلے سے منصوبہ بندی کی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ٹیم اس بات پر بھی متفق ہے کہ مندر جیسی جگہ کو ایک کیمونٹی کو دوسری کیمونٹی کے خلاف اشتعال دلانے کے لیے استعمال کیا گیا جو افسوس ناک ہے۔ کمیشن نے واقعہ کی تحقیق کے لیے علاقے کے لوگوں اور متاثرہ مسلمان خاندان سے بھی ملاقات کی۔
واضح رہے کہ 28 ستمبر کو اترپردیش میں ہندو انتہا پسندوں نے مسلمان شخص اخلاق اور اس کے بیٹے کو گائے کو ذبح کرنے اور اس کا گوشت کھانے کے الزام میں انسانیت سوز سلوک کا نشانہ بنایا جس میں اخلاق زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے موقع پر ہی دم توڑ گیا جب کہ اس کا بیٹا انتہائی تشویشناک حالت میں اسپتال میں زیر علاج ہے۔