تحریر : شیخ خالد زاہد ہم کسی کے مذہبی عقیدے کی ھتک یا توہین کرنے یا اس پر منفی تبادلہ خیال کرنے کا کوئی “حق” استعمال کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے جبکہ آج دنیا “آزادی اظہار” کو کتنے بھرپور طریقے سے استعمال کر رہی ہے، اس پر روشنی ڈالنے کی بھی ضرورت نہیں ہے اور یہ “آزادی اظہار” استعمال بھی ہمارے ہی خلاف ہو رہی ہے بلکہ ہمارے پیارے نبی ﷺ اور تمام انسانیت کیلئے رحمت العالمین کے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔ ہم ایک ایسے نبی ﷺ کے امتی ہیں جنہوں نے سارے مذاہب کا احترام کرنے کا درس دیا اور آپ ﷺ کی ساری تعلیمات کا احاطہ حسنِ سلوک پر مبنی ہے۔ آپ ﷺ کی حیاتِ طیبہ دنیا کے کسی فرد سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اکیسویں صدی میں جب سائنس اور تیکنیک اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے تو بھی آپ ﷺ کی تعلیمات بغیر کسی ردو بدل کہ نافذ العمل ہے اور انشاء اللہ رہے گی۔
انڈیا نامی ملک جو شائد دنیا میں میڈیائی ترقی کی دوڑ میں بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ اس ملک کی خاص بات یہ ہے کہ اسکا کوئی سرکاری مذہب نہیں ہے اور یہ اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی سیکولر ریاست کہلواتا ہے جبکہ ایک اندازے کے مطابق اسی (80٪) فیصد ہندو مذہب کو ماننے والے اس ملک کے رہائشی ہیں اور ہر مذہبی تہوار اتنے زور و شور سے منایا جاتا ہے کہ دوسرے مذاہب کے لوگ خوفزدہ ہوجاتے ہیں۔ اس سیکولر ملک کا ہر چلتا پھرتا فرد مذہبی دیکھائی دیتا ہے اور گمان یہ کیا جاتا ہے کہ یہ لوگ سیکولر ہیں۔ ان کے سیکولر ہونے کی ایک دلیل یہ تو ضرور ہوسکتی ہے کہ انکے ملک میں عورت سے کہیں زیادہ گائے اہم ہے۔ عورت کو بطور تسکین نفس کیلئے سمجھا جاتا ہے جبکہ گائے کو عبادت کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
عورت کسی بھی معاشرے کی اکائی سمجھی جاتی ہے اگر معاشرہ اس ہستی کی عزت اور احترام سے عاری ہے تو پھر معاشرہ تنزلی کی جانب رواں دواں ہے۔ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو دعوت ہے کہ وہ ثابت کریں یا قائل کرے کہ جتنا مرتبہ اور مقام اسلام نے عورت کو دیا ہے کسی اور مذہب نے اسکے “آنے” کے برابر بھی نہیں دیا۔ جہاں دیدہ لوگوں نے جنکا تعلق کسی بھی مذہب سے نہیں تھا (مگر ایسا سمجھ لینا ممکن نہیں ہوتا کیوں کہ کسی نا کسی جانب جھکاؤ ضرورہوتا ہے اور اگر شروع میں نا ہو یا جوانی میں نا ہو مگر وقت کہ آخیر میں سمجھ آہی جاتے ہیں) اس بات کی بھر پور تائید کی کہ جتنا مقام عورت کو اسلام نے دیا کبھی کسی مروجہ مذہب نے نہیں دیا اور نا بعد میں دے سکے گا۔ انڈیا وہ ملک ہے جہاں عورت کے ساتھ زیادتی یا بلادکار کرنے والے کو تو بچا لیا جاتا ہے مگر کیسا ملک ہے کہ گائے رکھنے والے کو جان کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ کیا خوب اقلیتوں کو تحفظ دینے والا ملک ہے۔ جہاں انسانی حقوق کی تنظیمیں تو بے بس نظر آتی ہیں مگر مذہبی جماعتوں کہ شدت پسند سرِ عام اقلیتوں کے خون سے ہولی کھیلتے دیکھائی دیتے ہیں۔ یہ ہے سیکولر انڈیا کا اصلی چہرہ جہاں اپنے سوا کسی کو برداشت نہیں کیا جاتا۔ اسکی ایک تازہ ترین مثال کرکٹ کے ایک کھلاڑی گوتم گھبیر نے قائم کی جنکا کہنا تھا کہ ایک ہندو سپاہی کہ بدلے سو مسلمان جہادی ماردینا چاہئیں۔
اتنے تندو تلخ ماحول میں جو مسلمان انڈیا میں رہتے ہیں ان پر آفرین ہے، حقیقی معنوں میں یہ لوگ ہیں جو اسلام کی سربلندی کیلئے بر سرِپیکار ہیں اور اپنے مذہب پر اتنے مصائب کے ساتھ کاربند ہیں۔
مضمون کے عنوان کے حوالے سے بتاتا چلوں کہ یہ عنوان ہم نے انڈیا کی ایک بہت بڑی ہستی بیگم جیا بچن کے دئے گئے ایک بیان سے اخذ کیا ہے۔ یقین کریں یہ خبر پڑھ کر ایسا لگا جیسے انتہائی حبس ذدہ موسم میں ایک تازہ ہوا کا جھونکا۔ مگر مجھے یقین ہے کہ اس بیان کے بعد بیگم جیا بچن بھی کسی نا کسی دھمکی آمیز بیان کی ذد میں آجائینگی اور انہیں ایک بار پھر اپنا بیان دھرانا پڑے گا کہ “گائے کو نہیں عورت کو تحفظ فراہم کرو”۔