تحریر : رانا ظفر اقبال ظفر ایک بار پھر بزدل دہشت گردوں نے ایسٹر کے دن گلشن اقبال پارک لاہور کو نشانہ بنا کر اکھڑتے قدموں سے دہشت گردی کر کے، معصوم بچوں، نوجوانوں اور بزرگوں کو خون میں نہلا دیا دہشت گردی کے اس بزدلانہ خود کش دھماکے میں تقریبا دس کلو بارود استعمال کیا گیا جس سے تقریبا 72 افراد شہید اور تین سو سے زائد افراد زخمی ہوئے شہید ہونے والوں میں زیادہ تعداد معصوم بچوں کی بتائی جا رہی ہے۔
گلشن اقبال پارک چونکہ تفریح کا مقام ہے ہفتہ وار چھٹی کے دن لاہور و گردونواح سے بہت زیادہ لوگ اپنی فیملیوں ،بچوں کے ہمراہ آتے ہیں اور بچوں کو انکی من پسند کے جھولوں پر بیٹھنے کا موقع ملتا ہے گذشتہ دن اتوار کی چھٹی کی شام لوگ بچوں کے ہمراہ آئے ہوئے تھے اقلیتی برادری کا ایسٹر تہوار بھی تھا اور بہت سی فیملیاں مل کر ایک دوسرے میں خوشیاں تقسیم کر رہے تھے کہ خود کش بمبار نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا جس سے نہ صرف آگ بھڑک اٹھی بلکہ زور دار دھماکے کی آواز سے ہر سو بھگدڑ مچ گئی دھماکہ مین گیٹ کے قریب ہوا جہاں بہت سے جھولوں اور کھانے ،پینے کے کیبن ہونے کی وجہ سے رش زیادہ ہوتا ہے اس لیے اس جگہ کو نشانہ بنایا گیا۔
ہر طرف خون ہی خون تھا ایک سیکنڈ میں کھلتے پھول مرجھا گئے خود کش دھماکے میں 29 معصوم بچے خالق حقیقی سے جا ملے مگر جہاں معصوم بچوں کی شہادت نے ہر اہل دل کو رلا دیا وہاں امدادی کاموں میں حصہ لینے کے لیے عوام کا سمندر امڈ آیا ہسپتالوں میں خون دینے والوں کی لمبی لائینیں لگ گئیں اور ہر شخص سوگوار چہرے سے آخری دہشت گرد کے خاتمے تک ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا عزم بلند کرتے ہوئے دہشت گردوں کو پیغام دے رہاتھا کہ ہم متحد ہو کر ایک قوم کی طرح تمہاری جڑیں ختم کر کے دم لیں گے۔خود کش دھماکے سے جہاں فضاء سوگوار ہوئی وہاں پنجاب کی فول پروف سیکورٹی پر بھی ہزاروں سوالات اٹھ گئے گلشن اقبال سے چند فٹ پر پولیس تھانہ،لاہور انٹری ہوتے ہی جگہ جگہ پولیس کی بھاری نفریاں آتے جاتے گاڑیوں کی تلاشیاں لیتی رہتی ہیں شہر بھر میں ناکوں پر کھڑی پولیس صرف دکھاوے کے لیے ہے یا آتے جاتے وزرا کو سلامیاں دینے کا اہتمام کیا گیا ہے۔
Injured Child
لاہور جس پر سب کی نظریں جمی ہوئی ہیں اور بھاگتے دہشت گرد کئی بار پنجاب میں حملوں کی دھمکیاں بھی دے چکے تھے اے پی ایس اور باچا خاں یونیورسٹی کے بعد پنجاب حکومت نے صرف سکولز ،کالجز،ہسپتالوں کی دیواریں اونچی کرنے،سیکورٹی گارڈ رکھنے کی ہدایات دیکر سیکورٹی الرٹ کا نعرہ لگا کر خاموشی اختیار کر لی ۔ھساس جگہوں پر سی سی ٹی وی کیمرے اور سخت ترین سیکورٹی کا کہا گیا مگر گلشن اقبال کے دھماکے نے پنجاب حکومت کی عدم توجہ کا پردہ فاش کر دیا ہمارا ماضی گواہ ہے کہ جب بھی ایسے واقعات رونماء ہوتے ہیں تو سیکورٹی کے حوالے سے ناکامی اور ندامت ہمارے پلڑے میں ہوتی ہے ہر با شعور شخص جانتا ہے کہ ضرب غضب میں پاکستانی افواج نے دہشت گردوں کے قدم اکھاڑ دیے ہیں۔
اکثریت پکڑے گئے کئی جہنم واصل ہو گئے اکا دکا بکھرے دہشت گرد اور ان کے سہولت کار پنجاب میں داخل ہو سکتے ہیں مگر اس حوالے سے ناکافی اقدامات کیے گئے گلشن اقبال پارک لاہورکی سیکورٹی کا یہ عالم تھا کہ تین ،چار فٹ کی دیوار،پارک میں آنے ،جانے والے گیٹ پر کسی کو چیک نہیں کیا جا رہا تھا،سی سی ٹی وی کیمرے اور نہ ہی سکینر ڈور لگے ہوئے تھے جسکا مطلب تھا کہ جس کا دل چاہے آئے،گیٹ سے گزے یا دیوار پھلانگے اور کاروائی کرے،قوم کو خون کے آنسو رلائے اور چلتا بنے پنجاب حکومت کی اس کھلی دعوت کے جواب میں وحشی درندوں نے وہی کیا اور کئی گھروں کے چرغ گل کر دیے۔
دھماکے کے بعد کڑیاں مل رہی ہیں پٹھان کوٹ پر حملہ ہوتا ہے تو انڈیا پاکستان پر الزام تراشی کرنے لگتا ہے پھر چند دنوں بعد ہی باچا خاں یونیورسٹی کے نہتے ،طلباء اور اساتذہ کو خون میں نہلا دیا جاتا ہے اب بلوچستان سے انڈین نیوی کا بھرتی ،،را،،ایجنٹ کو پاکستان کے سیکورٹی ادارے گرفتار کرتے ہیں جو بلوچستان میں جیولری کی دوکان بنا کر اسکی آڑ میں بلوچستان علحدگی پسند باغیوں کو آرگنائز کرنے کے ساتھ ساتھ مکمل سپورٹ کرتے ہوئے کروڑوں ڈالر ان پر خرچ کر رہا تھا ،،را،،کا خاص کارندہ پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کو رکوانے کے علاوہ کراچی کے امن کو تباہ کرنے میں بہت بڑا کردار ادا کر رہا تھا اور پورا نیٹ ورک بنا کر پاکستان دشمن کاروائیاں کرتے ہوئے نقصان پہنچا رہا تھا انڈین مداخلت اور تخریب کاری کے حوالے سے واضع ثبوت ہاتھ لگ جانے پر انڈیا نے پہلے تو ٹال متول سے کام لیا مگر باآخر مان لیا کہ گرفتار جاسوس بھارتی ہے اور بڑی مشکل میں پڑچکا تھا ہو سکتا ہے۔
انڈیا نے عالمی توجہ ہٹانے کے لیے ایسٹر کے موقع پر دہشت گردی کی کاروائی کروائی ہو تا کہ پاکستان کی دنیا میں بدنامی ہو کہ یہاں اقلتیوں کو تحفط نہیں ہے ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ یہ رد عمل بھارت کا نہیں ہو سکتا یقین کی حد تک کہا جا سکتا ہے کہ اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے بھارت کسی بھی حد تک گر سکتا ہے اور معصوم بچوں کا خون کر سکتا ہے لاہور میں دھماکوں کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے قبل بھی اقبال ٹائون کے معروف اور مصروف ترین علاقہ مون مارکیٹ میں سات دسمبر 2009کو رات تقریبا نو بجے دو دھماکے ہوئے تھے جس میں بیس افراد جاں بھق ہوئے تھے ان میں بھی زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی تھی اور دھماکے اس وقت کیے گئے تھے جب خریداری کرنے کے لیے آنے والے لوگوں کا بہت زیادہ رش ہوتا ہے۔
Lahore Explosion
دوسری بار اقبال ٹائون کے ہی علاقہ میں پانچ یکے بعد دیگرے دھماکے کیے گئے تھے اور اس بار بھی اسی علاقہ کو نشانہ بنایا گیا اس وقت بھی سیکورٹی پر سوالات اٹھے تھے اس بار بھی سیکورٹی کی حالت بہتر نہ تھی گلشن اقبال دھماکے کے بعد اعلی سطح کے ایک اجلاس میں پنجاب بھر میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت آپریشن کرنے کا فیصلہ لے لیا گیا ہے فیصلہ کیا گیا ہے کہ آپریشن فوج اور رینجر کرے گی جس سلسلہ میں پنجاب کے مختلف شہروں میں آپریشن شروع کر دیا گیا ہے آپریشن کا فیصلہ پہلے بھی کیا گیا تھا مگر مسلم لیگ ن نے نیب کو خاموش کروانے کی طرح آپریشن کو بھی روک لیا تھا مگر اب مرد آہن ،شیر دل چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ بہت ہو چکا ہم نے بہت خون دیکھ لیا اپنوں کا اب نہیں بس اب نہیں مزید نہیں دیکھا جا سکتا ہے۔
پنجاب میں ہونے والے آپریشن میں کسی بھی دہشت گرد ،اسکے سہولت کار،پناہ دینے والے کو رعایت نہیں دی جائے اس عزم کا اظہار کیا کہ جس طرح وزیرستان،کراچی اور دیگر شہروں سے پاک فوج نے دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ کر کے بھاگنے پر مجبور کر دیا ہے اسی طرح پنجاب میں بھی کسی کو چھپنے،پناہ لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے اس فیصلے پر عوام نے بھرپور پذیرائی دی ہے اور ہر قدم پر پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑی دکھائی دے رہی ہے۔اس فیصلے سے پریشانی کسی سیاسی پارٹی کو تو ہو سکتی ہے مگر عوام دہشت گردی کے خاتمہ کا عزم پاک فوج کے سنگ کر چکی ہے۔
اس دھماکے کی روشنی میں آپریشن سمیت کئی فیصلے پنجاب حکومت بھی کرے گی مگر اسکو چاہئے کہ پنجاب میں ،سکول،کالجز،پارک،بند کرنے کے احکامت جاری کرنے کی بجائے سیکورٹی پر توجہ دے اور ٹھوس عملی اقدامات کر کے عوام کی جان و مال کو یقینی تحفظ فراہم کرے نیز اس دھماکے کے بعد یہ تو ثابت ہو چکا ہے کہ پنجاب میں دہشت گردوں یا سہولت کاروں کی موجودگی ہے اب اسے جلد ڈھونڈ نکالنا حکومت کی ذمہ داری ہے تا کہ کسی اور پارک یا مارکیٹ میں کوئی ملک و قوم کا دشمن ہمارے بچوں کو خون میں نہ نہلا سکے۔کیونکہ اولاد کے بچھڑ جانے کا زخم تین،پانچ،دس لاکھ سے نہیں بھرتا بلکہ دوبارہ تازہ ہو جاتا ہے۔