صوفی بزرگ بابا بھلے شاہ کی نگری قصور کے ایک موسیقی سے لگائو رکھنے والے گھرانے میں اللہ وسائی نامی ایک بچی نے 21 ستمبر1928ء میں آنکھ کھولی چونکہ یہ گھرانہ موسیقی سے وابستہ تھا اس لئے بچپن ہی میں موسیقی کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے اس بچی کو استاد کے پاس بٹھادیاگیا بچی کو موسیقی کے ساتھ ساتھ فن اداکاری سے بھی لگائو تھااستاد بابا غلام محمد سے موسیقی کی تربیت حاصل کی انہیں کلاسیکی روایتی ہندوستانی موسیقی کی خصوصی طور پر تربیت دی گئی تھی انکو ٹھمری، دھرپد، خیال اور دیگر اصناف موسیقی پر چھوٹی عمر میں ہی عبور حاصل کرلیاشوبز میں آئیں تو اللہ وسائی سے نورجہاں بنیں 10000 کے لگ بھگ اردو، سندھی، بنگالی، پشتو، عربی اور پنجابی زبانوں میں گانے ریکارڈ کرائے شہرت کی بلندیوں پہ پہنچی تو ملکہ ترنم کا خطاب بھی ان کے حصہ میں آیا انہیں ہفت زبان گلوکارہ بھی کہاجاتاہے کلکتہ میں میں ان کی ملاقات نامور گلوکارہ مختار بیگم سے ہوئی۔
اللہ وسائی سے بے بی نورجہاں کا نام بھی تجویز کیا اور اپنے شوہر آغا حشر کاشمیری سے کہلوا کر تھیٹر کی دنیا میں آئیں بے بی نورجہاں معروف گلوکارہ سے بہت متاثر تھیں یہی وجہ تھی کہ ان کی گلوکاری اور اداکری میں مختار بیگم کی جھلک نظر آتی تھی ملکہ ترنم نے چھوٹی ہی عمر میں اسٹیج پہ اداکاری کے جوہر اور اپنی آواز کا جادو جگایاپھر ہندوستان کے شہر کلکتہ میں اپنی ہمشیرائوں کے ہمراہ شفٹ ہو گئیں 1935 میں بننے والی فلم ”پنجاب میل ”گلوکاری کے ساتھ ساتھ اپنی عمدہ کردار نگاری سے شائقین کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔
ابتدا میں بے بی نورجہاں نے بہت سی فلموں میں بچپن کے رول کئے 1935 میں کے ڈی مہرہ کی فلم” پنڈ دی کڑی”1936 میں فلم ” مصر کا ستارہ” میں اداکاری و گلوکاری کی 1937میں فلم” ہیر سیال ”میں ہیر کے بچپن کا کردار بھی اداکیاکلکتہ کو خیر بعد کہا اور لاہور چلی آئیں جہاں انہوں نے ماسٹر غلام حیدر کی ترتیب دی گئی دھنوں میں صداکاری کی تو ان کی شہرت دوردور تک پھیل گئی پنچولی سٹوڈیوز کے مالک سیٹھ دل سکھ کی فلم ”گل بکائولی کے لئے”شالا جوانیاں مانے” گیت گایا1942میں نورجہاں کوپران کے مدمقابل فلم ”خاندان” کے لئے ایک اہم اور مرکزی رول کے لئے کاسٹ کیا گیا یہ ایک کامیاب فلم تھی 1943میں بننے والی فلم” دہائی ”کے لیے گیت گائے میڈم نورجہاں فلم ”خاندان” کی زبردست پذیرائی کے بعد بمبئی چلی گئیں وہاں ان کی ملاقات اداکار و ہدایت کار سید شوکت حسین رضوی سے ہوئی پھر ملاقاتوں پہ ملاقاتیں بڑھتی گئیں۔
ملاقاتوں سے پیار کی پینگیں بڑھیں نور اور رضوی کے عشق کا چرچہ زبان زد عام ہوا اورر انجام شادی پر منتج ہوا،حالانکہ ملکہ ترنم کے گھر والے شادی تو درکنار تعلقات ہی کے خلاف تھے کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی کمائو بیٹی پیا گھر سدھائے اور روزی روٹی سے ہاتھ دھونا پڑیں شادی کے بعد میڈم نے 1945ء میں بننے والی فلم” بڑی ماں ”میں مرکزی کردار اداکیاجبکہ لتامنگیشکر اور آشابھوسلے نے اس فلم میںبچپن کے رول کئے اسی سال میڈم نے زہرابائی انبالے والی اور کلیان کے ہمراہ قوالی گائی خواتین کی یہ قوالی جنوبی ایشیا میں پہلی بار گائی گئی تھی ”آہیں بھریں نہ شکوے کئے” قوالی کے بول تھے”مرزاصاحباں” میڈم کی متحدہ ہندوستان میں آخری فلم تھی میڈم نے 1932ء سے 1947ء تک 127 گانے گائے جبکہ 69 فلموں میں اداکاری کی ان میں سے 55 فلمیں بمبئی، 8 فلمیں کلکتہ، 5 فلمیں لاہور اور 1 فلم رنگون (ینگون) برما میں بنی تھیں جبکہ12 خاموش فلموں بھی کام کیا۔
جب دنیا کے نقشہ پہ پاکستان معرض وجودمیں آیاتو دونوں میاں بیوی پاکستان کے عروس االبلادشہر کراچی شفٹ ہوئے پاکستان میں ان کی پہلی فلم ”چن وے ”تھی جو کراچی شفٹ ہونے کے تین سال بعد بنی یہ ایک اوسط درجے کی فلم تھی اس فلم کی ہدایات بھی میڈم نے دی تھیں فلم کی موسیقی فیروز نظامی نے ترتیب دی تھی بطور مرکزی اداکارہ بھی یہ نورجہاں کی پہلی پنجابی فلم تھی دیگر کاسٹ میں سنتوش، جہانگیر خان، یاسمین، غلام محمد شامل تھے 29 مارچ 1951ء کو یہ فلم ریلیز ہوئی تھی سبطین فضلی کی ہدایات میں بننے والی فلم ”ڈوپٹہ” 1952 میں نمائش کے لیے پیش کی گئی س فلم نے کامیابی کے نئے ریکارڈ قائم کئے اس فلم کے پیش کار اسلم لودھی تھے میڈم کے ”ڈوپٹہ” کاگیت ”سب جگ سوئے ہم جاگیں۔۔۔
تاروں سے کریں باتیں چاندنی راتیں” بہت مقبول عام ہواتھا جس کی شہرت آج بھی برقرار ہے میڈم اور رضوی کے درمیان 1952 اور 1953کے دوران اختلافات پیدا ہوگئے دونوں میاں بیوی ایک دوسرے پہ الزمات لگاتے تھے کہ ان کے جنس مخالف سے ناجائزتعلقات ہیں اختلافات کا انجام بالخیر نہ ہوا اور دونوں میاں بیوی میں نوبت طلاق تک پہنچ گئی رضوی سے میڈم کی ایک بیٹی ظل ہما اور دو بیٹے اکبر رضوی اور اصغر رضوی تھے علیحدگی کے بعد بچے میڈم نے اپنے پاس رکھے تھے میڈم کی دوسری شادی اعجاز درانی سے ہوئی جو اس وقت ایک مقبول ہیرو تھے اعجاز نہیں چاہتے تھے کہ میڈم شوبز سے منسلک رہے دبائو بڑھا میڈم نے اداکاری کو تو خیر بعد کہہ دیا لیکن پس پردہ گلوکاری ترک نہ کی ”باجی”نورجہاںکی آخری فلم تھی اداکارہ فردوس سے اعجاز کے ناجائزتعلقات کا جب چرچہ ہواتو میاں بیوی کے درمیان تعلقات کشیدہ ہونے شروع ہوئے لیکن اعجاز نے فردوس سے تعلقات کی تردید کی ”ہیر رانجھا” کی عکس بندی کے دوران عشق کا بھانڈا بیچ بازار پھوٹ گیا میڈم نے تو یہاں تک اعلان کر ڈالا وہ فردوس کے لئے اپنی آواز نہیں دیں گی لیکن فردوس پہ قدرت مہربان تھی جس نے نورجہاں کی آوازکے بغیر پنجابی اور اردوفلموں میں کامیابی حاصل کی وگرنہ میڈم سے اختلاف کسی بھی اداکار یا اداکارہ کی پیشہ ورانہ موت ہوتے تھے۔
نور جہاں نے زیادہ تر گانے انفرادی طور پر گائے اور کئی مرد گلوکاروں کے ساتھ بھی دو گانے گائے جن میں مہدی حسن، پرویز مہدی، احمد رشدی،مسعود رانا، عنایت حسین بھٹی، ندیم، بشیر احمداور اے نیئر شامل ہیں، اس کے علاوہ نورجہاں نے زنانہ گلوکاروں کے ساتھ بھی گانے گائے ہیں جن میں رونا لیلی، ناہید اختر، فریدہ خانم، مہناز اور مالا قابل ذکر ہیں۔ملکہ ترنم میڈم نورجہاں 23 دسمبر 2000ء کو 73 سال 2 ماہ کی عمر میں کراچی میں انتقال کرگئیں ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی، کراچی کے قبرستان میں تدفین عمل میں آئی میڈم نور جہاں منوں مٹی کی نیچے ابدی نیند سو گئیں لیکن ان کی مدھر آواز شائقین موسیقی کے کانوں میں اب بھی گونجتی ہے موسیقی سے محبت کرنے والوں کے دلوں میں زندہ جاوید رہیں گی کیونکہ میڈم نے ایک گیت میں کہا تھا ”گائے گی دنیا گیت میرے”سننے والے تو سنتے ہی ہیں لیکن گانے والے بھی ان کے گیت گاتے ہیں یہی کسی بھی فنکار کا ورثہ حیات ہوتا ہے۔