تحریر : سلطان حسین چترال سے اسلام آباد جانے والا پی آئی اے کا مسافر بردار طیارہ گذشتہ روز شام کو حویلیاں کے قریب گر کر تباہ ہو گیا جس میں عملے کے ارکان سمیت 48 افراد سوار تھے۔ مسافروں میں ملک کے مشہور گلوکار اور نعت خواں جنید جمشید بھی شامل تھے۔جہاز بٹولنی گاؤں کے قریب واقعہ پہاڑیوں پر گرااس مقام تک پہنچنے کے لیے آدھے گھنٹے پیدل سفر کرنا پڑتا ہے۔جو جہاز حادثے کا شکار ہوا ہے اسے اے ٹی آر کہا جاتا ہے۔اے ٹی آر طیارے انتہائی غیر محفوظ ہیں، پاکستان میں ان طیاروں کی جیسی حالت ہے کسی بھی وقت ان جہازوں کو حادثہ پیش آسکتا ہے۔
پی آئی اے جس وقت ان طیاروں کی خریداری کر رہی تھی اس وقت بھی اس پر سوالات اٹھے تھے لیکن پی آئی اے کے حکام نے صرف اپنی کمیشن کھری کرنے کے لیے ان اعتراضات پر توجہ نہیں اور اسے نظر انداز کرکے یہ جہاز خریدلیے دوران پرواز متعدد بار ان طیاروں کے انجن فیل بھی ہوئے لیکن اس کے باوجود مسافروں کی زندگیوں خطرے میں ڈالا جاتا رہا۔بدھ آٹھ دسمبر کو تباہ ہونیوالے طیارے کے بلیڈ بھی زائد المعیاد تھے جو ٹھیک طریقے سے کام نہیں کررہے تھے جس کو کمپنی سے تعمیر کرنے کی ضرورت تھی لیکن پی آئی اے نے پیسے بچانے کیلئے ان کی خود ہی مرمت کی حالانکہ ان کے پاس اس کی صلاحیت ہی نہیں تھی ،پی آئی اے نے طیارہ ساز کمپنی اے ٹی آر کو مرمت سے قبل بلیڈز کی مرمت کے لیے ایک ای میل بھی بھیجی تھی اور کمپنی کی طرف سے اس کا جواب بھی دیا گیا تھا۔
اس جوابی ای میل میں کمپنی بلیڈ ز کی لسٹ مانگی تھی جس کا کوئی جواب پی آئی اے نے نہیں دیا۔اس کے بعد پھر ای میل کرکے جواب مانگا گیااس بار ای میل میں پی آئی حکام سے استفسار کیا گیا تھا کہ پی آئی اے حکام کو خط موصول ہوا ہے یا نہیں،سمجھ بھی آئی ہے کہ نہیں پی آئی اے نے اس دوسری ای میل کے جواب میںجو ای میل بھیجی اس میںکہا گیا کہ ہمارے پاس مرمت کرنیوالے تمام کاریگر اور آلات بھی موجود ہیںاس جواب پر کمپنی کو حیرت ہوئی اور اس پر اے ٹی آر کمپنی نے جواب دیا کہ بلیڈز کی مرمت کی اتھارٹی صرف کمپنی کے پاس ہے کوئی اور اسے مرمت نہیں کرسکتا ہے لیکن اس کے باوجود پی آئی اے کے حکام نے صرف اپنی کمیشن کے لیے لوگوں کی زندگی سے کھیلتے ہو ئے خود اس کی مرمت کا کام کیا پی آئی اے نے ڈی آئی ایس کی مرمت کیلئے جو تار خریدی تھی وہ بھی غیرمعیاری تھی ،جہاز کے کنڈکٹر بھی ایک مقامی کمپنی سے خریدے گئے،ان طیاروں کی اس حالت کو دیکھتے ہوئے چار پائلٹس نے اے ٹی آر طیاروں کی خرابی کے بارے میںانتظامیہ کو چار بار لکھ کردیا لیکن اس پر چپ سادھ لی گئی۔
PIA Plane
حادثہ جس طیارے کو پیش آیا یہ 2007 میں پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کے حوالے کیا گیا اور 2007میں ہی اس کی پہلی پرواز ہوئی۔2009میں اسی طیارے کو لاہور ہوائی اڈے پر اترتے وقت حادثہ پیش آیا تھا جس سے اسے نقصان پہنچالیکن مرمت کے بعد یہ دوبارہ استعمال کیا جانے لگا۔دوسری بار 15ستمبر 2014 کو فلائیٹ Pk452جو سکردو سے اسلام آبادساٹھ افراد کے ساتھ جا رہی تھی حادثہ پیش آیا۔ سکردو سے روانگی کے بعدچودہ ہزار فٹ کی بلندی پر، طیارے کے بائیں انجن کا ایک کمپریسر بیکار ہو گیا اوراسے آگ لگ گئی، جہاز کے عملہ نے انجن کو بند کر دیا اور اسے واپس سکردو ہی میں باحفاظت اتار لیا۔پی آئی اے اس وقت جو جہاز مقامی سفر کے لیے استعمال کر رہی ہے وہ اکثر ممالک میں گراؤنڈ ہوچکے ہیں۔
جہاں بھی کوئی ائیرلائن اپنا کباڑی جہاز استعمال کے بعد فروخت کرتی ہے پی آئی اے حکام وہاں اسے خریدنے پہنچ جاتے ہیں کہا جارہا ہے کہ جو جہاز حادثے کا شکار ہوا یہ انیس سو بیس میں بنا تھااور اسے دد ممالک استعمال کرنے کے بعد فروخت کرچکے تھے جو اب یہ ہماری لاجواب ائیرلائن کے پاس تھاجو باکمال لوگوں کے لیے استعمال ہورہا تھا حالانکہ متعلقہ حکام ان جہازں کو گراونڈ کرنے کا مشورہ دے چکے تھے اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ پی آئی کے پاس اس وقت جو جہاز موجود ہیں اس سے پشاور کی باڑہ کی بسیں بھی بہتر ہیں تو بے جا نہیں ہوگاباڑہ روڑ پر وہی پرانی بسیں چلتی ہیں لیکن بروقت مرمت کے باعث ان کی حالت پی آئی اے کے جہازوں سے بہتر ہے اور دیگر روٹس کی بہ نسبت اس روٹس کی بسوں کے حادثات کے بارے میں بہت کم شکایت سامنے آئی ہے۔
پی آئی اے کے جہازوں سے ان بسوں کی حالت بہتر ہے۔پی آئی کے پاس اس وقت جو جہاز ہیں یہ سب بابا آدم علیہ سلام کے وقتوں کے ہیں جو اب دنیا میںمتروک ہوتے جارہے ہیں اور ان متروک جہازوں ہی کی وجہ سے پاکستان میںاکثر حادثات ہورہے ہیںپی آئی حکام کو اب ان پرانے متروک شدہ بوڑھے جہازوں کی جان چھوڑ دینی چاہیے ۔کرپشن اور اقرباء پروری نے اس ادارے کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے جس کی وجہ سے اس ادارے کے پاس اب جہاز خریدنے کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں اگر حکومت عوام کی جان و مال کی حفاظت کے بارے میں سنجیدہ ہے تو اس قومی ائیرلائن کے لیے پرانے کباڑی جہازوں کی خریداری پر پابندی لگائی دے سیون ٹویل کا حادثہ بھی اے ٹی آر کے کباڑی جہاز کی انجن خرابی کی وجہ سے ہی پیش آیا ۔دوسروں کی زندگیوں سے کھیلنے والے پی آئی اے کے متعلقہ حکام اور حکمران اب ذاتی مفادات کے لیے اس ”دہشتگردی”سے باز آجائیںحکومت کو چاہیے کہ روایتی بیانات اور خانہ پری کی تحقیقات کی بجائے اس حادثے کے ذمہ داروں کے خلاف تادیبی کارروائی کرئے تاکہ آئندہ کے لیے اس قسم کے حادثات رونما نہ ہوں۔