کیا میں پاگل پاگل ہوں؟

Mad

Mad

تحریر: بخشی وقار ہاشمی
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک مایہ ناز اور نہایت شریف ڈاکٹر صاحب صبح صبح jogging سیر کرتے کرتے پاگل ہسپتال پہنچ گیا اُس نے سوچا کیوں نہ اس کا دورہ کیا جائے چونچہ وہ ڈاکٹر صاحب ہسپتال میں داخل ہوتے ہی کہنے لگے میں سینر ڈاکٹر ہوں مُجھے اس پاگل ہسپتال کا ابھی دورہ کرایہ جائے ۔ہسپتال کے سٹاف کو ان صاحب کا ہُلیہ دیکھتے ہی پاگل خانے میں ڈال دیا وہ صاحب بڑے چیختے چلاتے رہے میں اس مُلک کا مایہ ناز ڈاکٹر ہوں میں اس ملک کا بڑا ڈاکٹر ہوں لیکن مجودہ سٹاف نے اُن کی ایک نہ سنی اور یہ کہتے ہوئے اسے بے ہوشی کا ٹیکہ لگا دیا کہ یہاں پہ جو بھی آتا ہے کوئی کہتا ہے میں ڈاکٹر ہوں میں انجینئر ہوں میں ایم اے پاس ہوں میں وہ ہوں میں یہ ہوں میں فنکار ہوں میں اداکار ہوں اور اب یہاں پہ کوئی کہتا ہے میں وزیرِ اعظم ہوں پھر تم یہ بھی کہو گے کہ میں اس مُلک کا صدر ہوں ۔ کوئی یہ نہیں کہتا کہ میں پاگل ہوں۔

مگر میں اس بات سے کو رد کرتا ہوں اور میں یہ ثابت کروں گا کہ میں پاگل ہو بلکہ میرے اس مُلک کا ہر وہ شخص پاگل ہے جو شعور رکھتا ہے ۔ جس کی قلم کُچھ ایسی سچی باتوں کو لکھنے سے کانپتی ہے اور جس کی آواز صرف اور صرف اُسی کے کانوں کو سُنائی دیتی ہے جس کی آنکھیں سب کُچھ دیکھ کہ بھی کُچھ اعتراف نہیں کرتیں ۔جو اپنی فریاد صرف اور صرف اپنے دل میں ہی کرتا ہے جس کی درخواست صرف اور صرف اپنی ذات تک محدود ہوتی ہے جو اپنی سوچ کو محدود رکھتا ہے اور لا محدود کی ذد میں رہتا ہے اور یہی سوچ اس کو کینسر کی طرح اندر ہی اندر کھوکھلا کر رہی ہے مگر وہ کُچھ نہیں کر سکتا ایسے شخص کو ہمارا معاشرہ ‘لاپرواہ ‘ selfish مست یا پھر پاگل کہتا ہے۔

ذرا سوچیں کہ ایک آدمی نوکری کی تلاش میں تھا ایک دن اُس نے دیکھا کہ ایک سکول میں چپڑاسی کی پوسٹ خالی تھی اُس نے پرنسپل سے چپڑاسی کی پوسٹ کے لیے درخواست دی ۔ اُس سے پوچھا گیا ۔ پڑھے لکھے ہو وہ کہتا نہیں ۔ پوچھا گیاکہ آپ اپنا نام لکھ سکتے ہیں وہ کہتا نہیں لیکن چپڑاسی کے لیے تو یہ سب ضردوی نہیں صرف ذہین کی بات ہوتی ہے پرنسپل نے کہا نہیں تُجھے یہ نوکری نہیں مل سکتی ۔ وہ چلا گیا
کُچھ عرصہ بعد یونین کونسل کے الیکشن ہوئے اُس آدمی نے الیکشن میں حصہ لیا اور کامیاب ہو گیا کرتے کرتے وہ MNA بن گیا ایک دن سکول کے سمینار میں اُسے بطور مہانِ خصوصی بُلوایا گیا تعلیم کے حوالے سے تقریر کی ایک سوال کے جواب میں پرنسپل نے پوچھا کہ آپ پڑھے لکھے ہوتے تو آج آپ کیا ہوتے اُس ساسیی لیڈر نے مُسکرا کے جواب دیا کہ میں اگر پڑھا لکھا ہوتا تو آج آپ کے سکول کا چپڑاسی ہوتا۔ ذرا سوچئے۔

Mad Signs and symptoms

Mad Signs and symptoms

ویسے تو ہمارے معاشرے میں پاگلوں کی کافی علامتیں ہیں ان میں سے چند ایک ذیر بحث لاؤں گا کُچھ تو پڑھے لکھے بھولے بھالے ذہین پاگل ہیں اور کُچھ اَن پڑھ بھولے بھالے ذہین ہوشیار پاگل ہیں یہ ایسے بھولے بھالے پاگل ہیں جو اپنے اس پاگل پن میں ہوشیار صاحبان کو صاحبِ مسند بنا دیتے ہیں ۔ جو اپنی ہوشیاری سے اپنا کام کرتے رہتے ہیں اور ہم وہیں جوں کے توں ہی رہتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ جو بھی اس مُلک کی بہتری اور اچھائی کے لیے سوچتا ہے یااپنی مدد آپ کے تحت کوئی بھی کام بروے کار لانے کی کوشش کرتا ہم ایسے شعور والےاور ایسی حرکت کرنے والے کو پاگل کہتے ہیں۔ میری نظر میں پاگل ہونے کی چند علامات سامنے آئی ہیں۔ وہ کُچھ اس طرح کی ہیں کہ ۔۔۔۔

ہم اپنے ہیروز کو زیرو سمجھتے ہیں۔ نوٹ پر چپھی ہوئی ٹوپی والے بابا جی کا نام بابا قائد اعظم ہے اسی نام سے ملک کی آدھی عوام واقف ہے ان کی کیا خدمات تھیں کوئی پتہ نہیں۔ ہمارے حکمران قائد اعظم کے مزار پر آئے سال پھول چڑھا کر رسم تو پوری کر دیتے ہیں پر اُنھوں نے ان کی تعلیمات پر عمل کرنے کا ٹھیکہ تو نہیں لیا نہ۔ علامہ ڈاکڑ محمد اقبال کے خواب کو صرف خواب ہی سمجھا جائے تو اچھا ہے . سر سید احمد خان کی کاوش ایک کاوش ہی تھی۔
مولانا محمد علی جوہر
مولانا شوکت علی
خان لیاقت علی خان
چوہدری رحمت علی

حفیظ جالندھری جیسے ہزاروں نام صرف کُچھ مخصوص کتابو ں میں ہی دہ گئے ہیں اور بد قسمتی سے ہم ان کی تعلیمات پر عمل کرنے سے قاصر ہیں ۔ بلکہ اب تو یہ بھی آہستہ آہستہ ہمارے نصاب میں ان کی خدمات کو پسِ پُشت رکھا جارہا ہے اور تبدیل کئےجا رہے ہیں اور لازمی مضامین سے نکالے جا رہے ہیں اور سندھ میں تو باقاعدہ اس کاآغاز ہو چُکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نئی نسل ان کی تعلیمات پر عمل کرنے قاصر ہے ۔کراچی میں الطاف حُسین صاحب کے نام پر ایک university تو قائم کی جا رہی ہے اور بہر یا ٹاون والے کئی لاکھ گھر بنا چُکے ہیں اور قرعہ اندازی میں کئی کروڑوں کے مکان دئیے جا چُکے ہیں پر قائدِاعظم کے خاندان کے کُچھ لوگ آج بھی کرایہ کے مکان میں رہتے ہیں۔

Pakistan

Pakistan

پاکستان دُنیا کا واحد مسلمان مُلک ہے جو ایٹمی طاقت ہے مگر اسے ایٹمی طاقت بنانے والے ہیرو سائنس دانوں کی کیا حالت ہے یا اُن کی کتنی بات سُنی جاتی ہے اُس سے ہر آدمی واقف ہے۔تعجب کی بات یہ بھی ہے کہ پورے ملکِ پاکستان میں اپنی مدد آپ کے تحت ایدھی سنٹر چل رہا ہے کُچھ ظالموں نے ایک شام اُن کو بھی لوٹ لیا تھا ۔ میں یہ بھی اعتراف کرتا ہوں کہ ہم میں بھی کافی خامیاں ہیں لیکن آخر کب تک اس طرح رہے گا اب کُچھ کڑوا سچ ہم جس مُلک میں رہتے ہیں وہاں “پیمرا ” پولیس سے زیادہ تیز رفتاری سے ہمارے گھر پہنچ جاتا ہے۔ ہم کار پر 100٪ سو فیصد قرضے حاصل کر سکتے ہیں مگر افسوس کہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے ہمیں 20٪ بیس فیصد قرضہ بھی مُیسر نہیں ہوتا۔

ہم ڈی وی ڈی فلم گیمز وغیرہ اعلی اچھے مارک کے کپڑے مہنگے سے مہنگے خریدیں گے۔
مگر ہماری لائبریری میں صرف چند تصویروں دھول سے بھری چند کتابیں اور پٹھی پُرانی اخبارات کے علاوہ کُچھ نہیں ملے گا۔ ہم اُن کتابوں کو پڑھ کر بڑے پڑھے لکھے کہلواتے ہیں اور اپنے نام کی بڑی تختی بنوا کر ایم بی بی ایس ایم اے پی ایچ ڈی عالم فاضل لکھوا کر اپنے گھر کے باہر آویزاں کرتے ہیں۔ ہم ہر روز صبح صبح تازہ اخبار پڑھنے کے شوقین ہیں پھر وہی کتابیں اخبار ہم چند ٹکوں کی خاطر گندے نالے کے قریب ایک ردی والے کو پیچ دیتے ہیں۔ ہم اپنے بچوں کو مہنگے مہنگے کھلونے لے کہ دیتے ہیں چند ماہ بعد اُن کا جی اُن کھلونوں سے بھر جاتا ہے اور وہ سٹور روم میں پھینک دیتے ہیں ہم اُن کو بجائے کسی غریب کے بچے کو دینے کے علاوہ ہم اُن کھلونوں کو کباڑ والے کو دیتے ہیں۔

ہم اپنے گھر پر لاکھوں روپیہ خرچ کرتے ہیں مگر اپنے ہی گھر کا کوڑا باہر پہنکنےسےگُریز نہیں کرتے اور اگر اپنے گھر کی گلی میں پانی کھڑا ہو وہ بھی ہمیں گنوارہ نہیں ہوتا۔ ہم منافہ زیادہ کمانے کے لئے دالوں میں اگر کُچھ پتھر ڈال دیتے ہیں تو اس میں بُرائی کیا ہے ۔سبھی تو ڈال رہے ہیں۔ اگر بھینس گائے بکری مر گئی ہے تو کیا ہوا دوسروں کو کون سا پتہ چلے گا ایسے ہی فروخت کر دیتے ہیں ۔ دوسرے لوگ تو گدے کا گوشت بیچ رہے ہیں یہ تو حلال جانور ہے مر گیا تو کیا ہوا ؟

Rice

Rice

چاول 120 روپے کلو ملتے ہیں لیکن سم آپ کو 100 روپے چارج کے ساتھ فری مل سکتی ہے۔ جُوتے “جو ہم پہنتے ہیں اے سی A.C والی دُکان میں فروخت ہوتے ہیں ۔لیکن “سبزیا ں “جو ہم کھاتے ہیں فٹ پاتھ پہ ہی فروخت ہوتی ہیں۔ ہم دودھ بزرگ کہتے ہیں اس میں خُدا کا نُور ہوتا ہے وہ آرٹیفیشل artificial بنا لیتے ہیں۔
اگر اس میں یوریا کھاد یا صرف ملا لیا تو کیا ہوا وہ بھی تو روپوں کا آتا ہے نہ۔

ہم ہمہ قسم جوس آرٹیفیشل Artificial flavour میں بنا سکتے ہیں لیکن ڈِش واش لیکویڈ میں اصلی لیمن استعمال کرتے ہیں۔ ہزاروں لوگ جن کے پاس ڈگریاں ہیں بے روز گار ہیں جبکہ کافی ماشااللّہ سے ان پڑھ صاحبان اسمبلیوں میں بیٹھ کر ہماری قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ہم کتنی عظیم قوم ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ میں اب چُپ رہوں ان باتوں کو زیادہ ہوا نہ دوں کہیں یہ فتووں کی آندھی اور طوفان بن کر نہ برس پڑے۔ آپ سے بھی بلکہ ہر اُس سے گُزراش ہے کہ اس کو آگے مت پھیلائیں اسی طرح سوتے رہیں ورنہ لوگ آپ کو الزام دیں گے کہ یہ تو ہم میں سے نہیں ہے یہ تو کوئی پاگل ہے۔

Syed Bakshi Waqar Hashmi

Syed Bakshi Waqar Hashmi

تحریر: بخشی وقار ہاشمی