تحریر: سجاد گل دردِ جہاں وہ اپنے پرانے سے موٹر سائیکل پر سوار ہوئے جا رہا تھا، پولیس کے اہلکار نے اسے رکنے کا اشارہ کیا،وہ رکا اور مسکراتے ہوئے کہا ”جی سر جی”پولیس والے نے موٹر سائیکل کی کاپی طلب کی ،اس نے کاپی دیکھائی،دوسرے پولیس کے اہلکار نے اسکی سر سے پائوں تک تلاشی لی،اسکی جیب سے ایک عدد پرس ، اس میں لگ بھگ تین ساڑھے تین سو روپے، ایک چھوٹی کنگھی ،ایک ٹوٹے ہوئے آئنے کا ٹکڑا، ایک عطر کی شیشی اور کالی نسوار کا پیکٹ نکلا، پولیس والوں نے اسکا تمام سامان اسے تھمایا ،اسکے بعد اسکے موٹر سائیکل پر نظر ڈالی تو سیف گارڈ کے ساتھ ایک کالے رنگ کی تھیلی لٹکی ہوئی تھی،پولیس نے چیک کیا تو اس تھیلی میں ہاف لیٹر Nestle کی پانی والی بوتل تھی مگر بوتل میں پانی کے بجائے پیٹرول تھا،پولیس والے نے اسے کھا جانے والی نظر وں سے ویکھتے ہوئے پوچھا کہا ں آگ لگانے کا پروگرام ہے؟اس نے جواب دیا ”سر جی آگ کہیں نہیں لگانی میں اپنے پاس ہمیشہ اتنا پیٹرول رکھتا ہوں،وجہ یہ ہے کہ آپ اکثر دیکھتے ہوں گے کہ لوگ ہاتھ میں موٹرسائیکل پکڑے پیدل جا رہے ہوتے ہیں سوال کرنے پر جواب ملتا ہے پیٹرول ختم ، مجھے ایسا شخص مل جائے تو پیٹرول اسے دے کر اسکی مدد کر دیتا ہوں، اس سے مجھے دلی خوشی حاصل ہوتی ہے،پولیس والے نے دوسرے پولیس والے سے کہا یہ تو پورا پاگل ہے،اور اسے جانے کا اشارہ کیا، وہ پاگل آدمی مسکراتا ہوا چل دیا۔
روز مرہ زندگی میں آپ کا سامنابھی ایسے بہت سارے پاگلوں سے ہوتا ہو گا،جو اچھے خاصے بیٹھے ہوتے ہیںمگر جیسے ہی کسی بزرگ اور خاتون کو دیکھتے ہیں فوراََ اٹھ کر انہیں اپنی جگہ بیٹھا دیتے ہیں،کچھ تو ایسے بھی سر پھرے ہوتے ہیں چلتے چلتے کسی بزرگ کا ہاتھ تھام کر انہیںسڑک پار کرانا شروع کر دیتے ہیں،ایک ایسا پاگل پن شہرِکراچی میں بندہ ناچیز نے بھی کر دیا،ہوا یوںمیں نیاء نیاء کراچی گیا ہوا تھا ، میرے آگے ایک بزرگ کاندھے پہ ٢٠ ۔ ٢٥ کلو کا تھیلہ اٹھائے جا رہے تھے مجھے محسوس ہوا بزرگ کافی مشکل سے چل رہے ہیں،میں نے کہا بابا جی یہ تھیلہ مجھے تھما دیں ، ساتھ چلتے ایک پان کھاتے نوجوان نے کہا نہ بابا جی یہ تھیلہ لے کر گولی ہو جائے گا ،یہ کراچی ہے آپ کا گائوںنہیں،بر حال بابا جی نے مجھ پرکچھ ایسے بھروسہ کیا، تھیلہ مجھے تھما دیا،میں نے تھیلہ لے کر چلنا شروع کر دیا،مجھے ایسے محسوس ہورہا تھا کہ جیسے میں آگے جا رہا ہوں اور کوئی مجھے پیچھے کھینچ رہا ہے،
جب پیچھے مڑ کر دیکھا تو بابا جی نے میرا پچھلا دامن پکڑاہوا ہے، میں نے پوچھا بابا جی یہ کیا کر رہے ہیں ؟بابا جی نے کہا ،یہ شہر ہے بیٹا یہاں تو کھڑے کھڑے بندے غائب ہو جاتے ہیں میرا تھیلہ کیا چیز ہے، اس دور میں ایسی جسارت یا تو کوئی فراڈی کر سکتا ہے یا پھر کوئی پاگل۔میرے مشاہدے میں ایسے پاگل اکثر آتے رہتے ہیں جو اپنے پاگل پن سے باز نہیں آتے،کچھ دن پہلے کی بات ہے ،کالج کے طالبِ علم آپس میں لڑائی کر رہے تھے ،بہت سارے لوگ اپنے موبائل نکالے انکی ویڈیو بنا رہے تھے،پھر اچانک ایک پاگل اس گتھم گتھا میں کود پڑا اور سب کو ڈانٹتے ہوئے لڑائی سے باز کیا،ایک ویڈیو بناتے لڑکے نے کہا اچھا خاصا شغل چل رہا تھا پتا نہیں یہ پاگل کہاں سے کباب میں ہڈی بن کر آ گیا۔
Metro Bus
اسی طرح پچھلے دنوں پولیس اسٹیشن میں بھی ایک پاگل سے واسطہ پڑھ گیا،میرے ایک دوست کا میٹرو بس میںجیب سے پرس اور موبائل نکال لیا گیا،موبائل کچھ خاص مہنگا نہ تھا اور پرس میںرقم بھی تھوڑی ہی تھی مگر مسئلہ قومی شناختی کارڈ کا تھا ،جس وجہ سے ہمیں تھانے کا نظارہ کرنا پڑا،ہم نے تھانے پہنچ کر صاحب تھانہ کو اپنی رودادِ غم سنائی،ان صاحب نے سوال کیا چوری کس جگہ ہوئی؟میں نے کہا جناب ہم راولپنڈی صدر سے اسلام آباد ابن سینا سٹاپ پر جا کر اترے وہاںوہاں چھلی بیچنے والے پر نظر پڑی سردی کافی تھی سوچاچھلی کھا لیتے ہیں،چھلی لے کر پیسے میرے دوست نے دینے چاہئے جب جیب میں ہاتھ ڈالا تو جیب قسمیں اٹھا اٹھا کر کہہ رہی تھی ” میں تو خالی ہوں” پولیس والے نے بھڑبھڑاتے ہوئے کہا ،راولپنڈی اور اسلام آباد میٹرو کے بیچ ٥ تھانے آتے ہیں اور تمیں یہی تھانہ ملا تھا؟جائو اس تھانے میں اپنی بکواس سنائو جس کی حدود میں چوری ہوئی ،پاس ایک اور آدمی بیٹھا تھا یقینا وہ بھی کوئی روداد لے کر آیا تھا،اس نے اس بد شکلے پولیس والے کی بد گفتگو سنی تو اسے پاگل پن کا دورہ پڑھ گیا،غصے سے پولیس والے سے کہا ،عجیب بات کر رہے ہیں آپ،اگر انکو یہ پتا ہوتا کہ چوری کہا ہو رہی ہے تو چوری ہونے ہی نہ دیتے اور رہی پانچ تھانوں کی بات تو آپ کی طرح باقی چار نے بھی یہی جواب دینا ہے کہ کسی اور تھانے سے رجوع کریں،مگر اس پاگل پن کا اس پولیس والے پر کوئی اثر نہ ہوا،اور وہ پاگل آدمی ہمیں اپنے موٹر سائیکل پر بیٹھا کر نیوٹاون تھانہ سے صادق آباد تھانہ لے گیا،وہاں اس نے یہ جھوٹ بول کر ہمارا مقدمہ درج کروایا کہ چوری صادق آباد تھانے کی حدود میں ہی ہوئی ہے،
اگر وہ نہ ہوتا تو یقینا ہمیں یہ چالاکی پتہ نہ تھی،اور شاید ہمیں اسی طرح پانچ تھانوں کا طواف بھی کرنا پڑتا، تھانے اور پولیس کا کلچر اس دن ہم پر کھل کر عیاں ہوا،مجرم جیب پر ہاتھ صاف کرنے کے بعد مزے لے رہا ہوں گا ، اور جنکی چوری ہوئی ہے وہ تھانوں میں ذلیل ہو رہے ہیں،مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ پولیس ہمارے مسائل کو حل کرنے کے لئے نہیں بنائی گئی بلکہ مسائل بڑھانے کے لئے بنائی گئی ہے، ہم اپنے کام سے فارغ ہوئے تو اس پاگل نے بہت زور دیا کہ سامنے ”کوئٹہ چائے پراٹھہ”نامی ڈابے سے چائے پی کر جائیں ،مگر ہم نے یہ کہتے ہوئے معذرت کی کہ آپ کو ہماری وجہ سے پہلے بھی کافی تکلیف کا سامنا کرنا پڑا،وہ چل پڑا اور میںنے اپنے دوست کہا عجیب آدمی ہے، نہ جان ،نہ پہچان اور ہمارے لئے اتنا کچھ کر دیا، میرے دوست نے جواب دیا، ہاں نا کوئی پاگل ہی کسی کے لئے ایسا کرے گا، ورنہ آج کے دور میں ہر کسی کو اپنی اپنی پڑی ہے۔
مجھے اس پاگل پن پر بہت رشک آتا ہے،کیوں کہ کسی بھی مضبوط اور پُر اخلاق معاشرے کا انحصار ایسے ہی پاگل لوگوں پرہوتا ہے جو دوسروں کا احساس کرتے ہوئے پاگل پن میں مبتلاء ہو جاتے ہیں،ہمارے پاگل معاشرے میں ایسے پاگل لوگوں کی کوئی کمی نہیں ،اللہ کرے یہ کمی ہونے بھی نہ پائے،ہم ایسے ہی پاگل لوگ رہیں، ہمارا ایسا ہی پاگل معاشرہ بھی ۔
Sajjad Gul
تحریر: سجاد گل دردِ جہاں dardejahansg@gmail.com Phon# +92-316-2000009