تحریر: ڈاکٹر ایم اے قیصر دنیا میں تقریباً چار ہزار زبانیں بولی جاتی ہیں، اِن میں اِستعمال کے لحاظ سے اُردو صف اوّل کی زبانوں میں شامل ہے۔ ایک جائزے کے مطابق یہ دنیا کی تیسری بڑی زبان ہے۔ صرف ”انگریزی ” اور ”چینی” کا نمبر اِس سے پہلے آتا ہے۔ اُردو ”پاکستان کی قومی زبان ”ہے جبکہ ”بھارت میں یہ ثانوی زبان ”ہے۔ اِسے یہ نام بقول میرامن دہلوی، شاہ جہاں کے عہد میں ملا۔ کبھی اسے ”زبانِ اُردو” اور کبھی ”اُردوئے معلی” کہا گیا۔ رفتہ رفتہ صرف ”اُردو” کا لفظ زبان کے معنوں میں باقی رہ گیا۔ اس لحاظ سے بھی یہ ایک منفرد درجہ رکھتی ہے کہ اس کا اپنا ایک ذاتی نام ہے جبکہ دیگر زبانیں کسی نسل، قوم، علاقے یا ملک کی نسبت سے پہچانی جاتی ہیں۔ زبان کے طور پر اُردو کا لفظ سبسے پہلے بقول ڈاکٹر محمد اکرام چغتائی 1176ھ/ 1762ء میں مائل دہلوی نے اِستعمال کیا۔
اُردو تہذیب کی پیداوار اور ایک شہری زبان ہے۔ اِسے ”عام بولی” یا” لوک بولی” سے ترقی یافتہ سمجھنا اور اس کے ”مقامی بولنے والے افراد ”کا تعین کرنا بہت مشکل ہے۔ اکثر اُردو بولنے اور استعمال کرنے والوں کی کوئی نہ کوئی اپنی دیسی زبان ضرور ہوتی ہے اگرچہ مردم شماری میں کبھی ”اُردو اِستعمال کرنے والے تمام افراد ”اسے اپنی ”مادری زبان” قرار دیتے رہے اور کبھی وہ صرف ایک خاص طرح کے ”اُردو بولنے والے” قرار پائے۔ اپنی ابتداء کے ساتھ ہی یہ خاص زبان ٹھہری مگر رفتہ رفتہ عوام بھی اس سے متاثر ہوتے گئے اور اس میں نظم و نثر کا عظیم سرمایہ اَدب پیدا ہوتا گیا۔ اُردو کو ابتداء ہی میں مومن، ابراہیم، ذوق ، غالب اور حالی جیسے شعراء ملے۔
اُردو کی جنم کہانی خاصی دلچسپ، پیچیدہ اور مبہم ہے۔ بعض کے نزدیک اُردو ”لشکری زبان” ہے اور کسی لشکر کے اندر پیدا ہوئی۔ بعض ”دہلی کی پیداوار” یا اس کے ارد گرد کی کھڑی بولی،شورسینی پراکرت، اپ بھرنش، پنجابی، لاہوری، ملتانی، سندھی، دکنی یا ہندکو کی ترقی یافتہ شکل قرار دیتے ہیں۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کے نزدیک اُردو زبان مسلمانوں کے زیرِ اثر پروان چڑھی۔ یہ براعظم پاک و ہند کی ”تمام زبانوں کی زبان” یا” لسان الالسنہ”ہے۔ در حقیقت اُردو زبان میں یونانی، پرتگالی، ہسپانوی، ولندیزی، فرانسیسی اور انگریزی سے لے کر عربی، ترکی، سنسکرت، پالی، دراوڑی، سب زبانوں اور بولیوں کی آمیزش ہے اور اس کی ساخت ایسی ہے کہ ہر زبان کے الفاظ کو با سانی اپنے اندر شامل کر لیتی ہے۔ اس لیے اسے ہم اسے ”لسان الارض” کا نام بھی دے سکتے ہیں۔اُردو باقاعدہ زبان کے طور پر شاہ جہاں کے زمانے میں اس وقت وجود میں آئی تھی جب شاہ جہاں نے آگرہ سے دارالحکومت دہلی منتقل کیا تھا۔ اُردو کو دنیا کی بڑی زبانوں کے مقابلے پر رکھا جا سکتاہے۔ قیام پاکستان کے بعد اُردو کو بول چال کے بے شمار مواقع ملے۔ جس کی وجہ سے اس کا ایک ایسا روپ یا رنگ وجود میں آیا، جسے ہم ”اُردو بول چال کا پاکستانی انداز” قرار دے سکتے ہیں۔ آزادی کے بعد سے اُردو نے قومی اور عالمی سطح پر بھی بے حد ترقی کی ہے۔ اُردو کو ”بول چال کے صحیح سانچے ”بھی پاکستان میں میسر آئے اور یہاں اس کا ”جداگانہ اور منفرد کینڈا ”بھی پروان چڑھا جو ”کلاسیکی اُردو” سے ممتاز ہے۔ ”پاکستانی اُردو ”کی اپنی ایک الگ رنگت ہے۔ یہ بول چال، ادبی محضر اور علمی محضروں میں بھی منفرد ہے۔ ”پاکستانی اُردو” کے بڑے ماخذ میں کلاسیکی میں کلاسیکی اور روایتی شعرو ادب، مشاعروں کی روایت، سماجی اور ثقافتی انداز، مقامی الفاظ و معانی، روزمرہ محاورہ، قواعد و انشاء پردازی کے طریقے، صوتیاتی انداز اور انگریزی کے اثرات ہیں۔ ”پاکستانی اُردو ”میں” دخیل انداز” جیسے ”تلاش سے مصدر تلاشنا”، ”معنویاتی تبدیلی” جیسے” اپناپن، پس رو، بندہ وغیرہ”،” ترجمہ کے ذریعے” جیسے ”ماہِ عسل، جز وقتی، جشنِ سیمیں وغیرہ”۔” دوغلے الفاظ کی بھر مار” جیسے ”گنجھل دار ”وغیرہ کی مثالیں۔ ”قواعدی تبدیلی ”جیسے ”میں نے لاہور جاناہے” ، ”ہم جائیں گے” وغیرہ۔ نیز ”اسلوبیاتی انحراف” جیسے ”شب اجالنا”، ”خوابوں کی چاندنی” اور ”پھنے خان” جیسی تراکیب کا وجود میں آنا ”معیار سے انحراف” کی واضح مثالیں ہیں جو عام مستعمل ہیں۔
Dr. M. A. Qaisar
” پاکستانی اُردو” میں جہاں ایک طرف ”انحراف ”موجود ہے وہیں ”ثقیل الفاظ و اصطلاحات کی تشکیل ”بھی ہو رہی ہے اور نئے نئے محاورے بھی وجود میں آ رہے ہیں۔ ”پاکستانی اُردو ”کا یہ نکھار 1965ء کے بعد سامنے آیا جب پاک بھارت جنگ نے اہل وطن کو ”زمین وطن” کی طرف مڑ کر دیکھنے پر مجبور کیا اور ”اہل قلم ”نے ”کلاسیکی انداز ”کو خیر باد کہہ کر ”حب الوطنی کے جوش میں تخلیقات ”پیش کیں۔1971ء میں ”سقوط مشرقی پاکستان ”کے بعد سے انگریزی کے اثرات بڑھنے لگے جو ”انگریزی سے اُردو میں ترجمہ ”سے بھی بڑھ کر ”انگریزی آمیزی”، ”انگریزی افعال کا اُردو میں استعمال” اور ”عربی فارسی سے گریز” کی طرف چلا گیا۔ جمع کے صیغے اور تذکیر و ثانیث کے انداز بدل گئے۔ جس اُردو کو انشاء اللہ خان انشاء اپنی کتاب ”دریائے لطافت” میں ”غیر فصیح ”کہتے تھے، وہی ”کینڈا ”اب ”پاکستانی اُردو” کا معیار ٹھہرا ہے۔
”پاکستانی اُردو” سے پہلے اُردو کی صرف ”اَدبی حیثیت” واضح تھی لیکن اب گفتگو ، بول چال ، ادب ، علم ، صحافت ، فلم ، ڈرامہ ، اشتہارات، معلومات عامہ، فارم درخواستیں، فہرستیں غرضیکہ مختلف سانچے کینڈے اور محضر مباحثے آ چکے ہیں۔ ”اَدبی اُردو ”کے علاوہ ”صحافتی اُردو” اور ”دفتری اُردو” کے محضر بھی عام طور پر استعمال میں آتے رہے ہیں۔ مقامی الفاظ اور محاورے جڑ پکڑ رہے ہیں۔ جبکہ انگریزی کے اثرات بھی ظاہر ہو رہے ہیں۔ معاشرتی مسائل اور حالات کے ساتھ ساتھ نئے محاورے اور نئے الفاظ اور نئے پیرائے جنم لیتے ہیں۔ اور ثقافت کی نئی سمتوں کا تعین کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ ترقی یافتہ قوموں کی زبانیں بھی اسی حساب سے ترقی کرتی ہیں۔ اور اپنے اندر وقت کے نئے تقاضوں کے بیان کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
قرآنِ حکیم نے اسلام و علیکم (سلامتی ہو آپ پر) اور وعلیکم السلام (آپ پر بھی سلامتی ہو) کہہ کر ایک دوسرے سے ملاقات کا آغاز کرنے کی ہدایت کی اور شائستہ گفتگو پر زور دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ”پاکستانی اُردو” میں ”آداب ”، ”تسلیمات” کی جگہ السلام و علیکم کہا جاتا ہے البتہ وعلیکم السلام کہنا شاید معیوب سمجھا جاتا ہے یا ثقافت کا حصہ بن گیا ہے۔ کہ جواباً بھی السلام و علیکم ہی کہا جاتا ہے۔ ”آداب کی تبدیلی ”بھی ”پاکستانی ثقافتی رویوں ”کا اہم مظہر ہے۔ ایسے ہی مظاہر کا مطالعہ ہمیں ”پاکستانی اُردو” کا صحیح تجزیہ کرنے میں مدد دیتا ہے۔
M. A. Qaisar
تحریر: ڈاکٹر ایم اے قیصر فاروق آباد ضلع شیخوپورہ، پنجاب، پاکستان Mob: +92 300 469 5424 Email: aliqaisar_dr2007@hotmail.com