خدا پاکستان کی حفاظت کرے”

Liaquat Ali Khan

Liaquat Ali Khan

تحریر: اختر سردار چودھری، کسووال

شہید ملت خان لیاقت علی خان کا 119 واں یوم ولادت آج جوش و خروش سے منایا جائے گا ملک بھر میں ان کی ولادت کے موقع پر کانفرنسز اور سیمینارز کا انعقاد کیا جائے گا جس میں مقررین ان کی ملی ،ملکی اور قومی خدمات کو شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کریں گے ۔شہید ملت خان لیاقت علی خان ملک کے عظیم رہنماء تھے اور آپ کا شمار قائد اعظم کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے ،آپ یکم اکتوبر 1895 کو پیدا ہوئے ،پاکستان کے پہلے وزیراعظم تھے جیتے جی پاکستان کا درد اور مرتے بھی اس کی فکر رکھنے والے یہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان تھے۔ ہندوستان میں تھے تو نواب تھے۔ مگر جب پاکستان آئے تو خالی ہاتھ تھے۔ دوستوں نے مشورہ دیا کہ آپ ابھی ہندوستان میں چھوڑی ہوئی جائیداد پاکستان میں حاصل کر لیں، مگر ان کا جواب تھا۔

جب سب کو ان کا چھوڑا ہواحق مل جائے گا ۔تب میں بھی لے لوں گا۔ آزادی کا سورج طلوع ہوا تو مہاجرین کے قافلے تواتر کے ساتھ پاکستان آ رہے تھے۔ان میں سے اکثر اپنے عزیزوں کی جانوں کی قربانی دے کرجمع پونجی سے محروم ہو کر آرہے تھے۔ بہت سے ایسے تھے جو ہندوستان میں پھنسے ہوئے تھے اور پاکستان آنے کے متمنی تھے مگر بلوائیوں کے ڈر سے سفر کرنے سے کتراتے تھے۔ ایسے میں ہندوستان کے کسی دورافتادہ گائوں سے وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان کو ان کے رشتہ دار کا خط ملا اس میں لکھا تھا:ہم پاکستان آنا چاہتے ہیں مگر یہاں پھنسے ہوئے تھے تم پاکستان کے وزیر اعظم بھی ہو اور ہمارے رشتہ دار بھی، اس لئے اپنے اختیارات استعمال کر تے ہوئے ہمیں جلد از جلد یہاں سے نکلوائو۔

وزیر اعظم پاکستان نے جواب دیا۔پاکستان آنے والا ہر مہاجر میرا رشتہ دار ہے اور ہر کوئی باری سے آئے گا۔ ہم کوششوں میںمصروف ہیں جب تمہاری باری آئے تو تم بھی آجانا۔پاکستان بننے کے بعد نئی نئی مملکت کے لئے بے پناہ مسائل اور دفاع کی تمام تر ذمہ داری قائد ملت لیاقت علی خان کے کندھوں پر آگئی۔ انہوں نے بہت خوش اسلوبی سے ان ذمہ دایوں کو نبھایا۔ انہون نے پاکستان کے دفاع میں بھر پور کردار ادا کیا۔اس سلسلے میںان کا ” مکا” ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔

جولائی 1951 ء میں انہوں نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے فضا میں ہاتھ لہرایا اور کہا: بھائیو! یہ پانچ انگلیاںجب علیحدہ ہوں تو ان کی قوت ختم ہو جاتی ہے۔جب مل کر” مکا “بن جائے تو دشمن کا منہ توڑ سکتا ہے۔ لیاقت علی خان سچے پاکستانی تھے۔جب لندن میں منعقد تینوں گول میز کانفرنسیں ناکام ہو گئیں اور قائد اعظم محمد علی جناح نے ہندوستان کی سیاست سے دلبر داشتہ ہو کر مستقل لندن میں رہنے کا فیصلہ کر لیا۔تو اس وقت ہندوستان کے مسلمانوں کی رہنمائی کے لئے کوئی متحرک اور فعال لیڈر موجود نہیں تھا۔ یہ دور مسلمانوں کے لئے انتہائی کسمپرسی اور بے بسی کا تھا۔ ایسے نازک وقت میں لیاقت علی خان کی قدآور شخصیت سامنے آئی۔ 1933 ء میں وہ قائد اعظم سے ملاقات کرنے لندن گئے۔

انہوں نے دانشمندانہ اور مسحور کن انداز میں دلائل دیئے کہ قائد اعظم دوبارہ مسلمانان ہند کی رہنمائی کے لئے ہندوستان آنے کو تیار ہو گئے۔ یہ لیاقت علی کاپاکستان کی تشکیل کے سلسلے میں ایک زبردست کام تھاکیو نکہ انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کو قائد اعظم دیا اور قائد اعظم نے آخر کار انہیں پاکستان دیا کو ن کہ سکتا تھا قائد اعظم اگر ہندوستان واپسی کا فیصلہ نہ کرتے تو آج ہماری قومی تاریخ کا کیا حال ہوتا؟قائد اعظم نے واپسی پر مسلم لیگ کی تنظیم نوکی اور ان ہی کی ایما ء پر لیاقت علی خان مسلم لیگ کی جنرل سیکرٹری بنے۔

لیاقت علی خان نے اس محنت اور لگن سے کام کیا کہ قائد اعظم نے مسلم لیگ کے کراچی کے اجلاس منعقد ہ 26 دسمبر1943 ء میں یہ ارشاد فرمایا:لیاقت علی خان میرے دست راست ہیں۔جوتحریک پاکستان اور مسلم لیگ کے لیے دن رات کام کرتے ہیں۔ یہ حقیقت شاید چند افراد کو معلوم ہو کہ انہوں نے مسلم لیگ کا کتنا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا ہے۔ان کے متعلق مجھے یہ کہتے ہوئے خو شی محسوس ہو رہی ہے کہ انہیں ہندوستان کے تمام مسلمانوں کا اعتماد حاصل ہے۔ جب مسلمانوں کا مطالبہ آزادی زور پکڑنے لگا۔تو برطانوی حکومت نے 1946 ء کے انتخابات کے بعد ایک عارضی حکومت قائم کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ اسے اقتدار بآسانی منتقل کیا جا سکے۔

مسلم لیگ کیٹکٹ پر کامیابی حاصل کرنے کے بعد لیاقت علی خان کو وزارت خزانہ کا قلمدان سونپاگیا انہوں نے28 فروری 1947 ء کو متحدہ ہندوستان کا وہ بجٹ پیش کیا۔ جو غریبوں کے بجٹ کے نام سے مشہور ہوا۔ اس بجٹ کی خاص بات یہ تھی کہ غریبوں کی اشیاء پر ٹیکس ختم کر کے غیر ضروری اشیاء پر ٹیکس لگائے گئے تھے۔ جن کے نفاد سے ہندو صنعتکاروں اور ساہو کاروں میں کھلبلی مچ گئی۔ مگر غریبوں کا دم بھرنے ولے وزیر خزانہ نے غریبوں کے مفاد کی قیمت پر کسی بھی سمجھوتے سے صاف انکار کر دیا۔ 3 جون 1947 ء کے قیام پاکستان کے اعلان کے بعد 11اگست1947 ء کو پاکستان کا پرچم منظوری کے لیے پیش کیا گیا۔

Pakistan

Pakistan

اس موقع پر ان کے خیالات ان کی حب الوطنی اور جمہوریت پسندی کی روشن دلیل ہیں۔ انہوں نے کہا۔ جناب عالی! کسی قوم کا پرچم محض کپڑے کا ٹکڑا نہیں ہوتا۔وہ ان لوگوں کی آزادی اور مساوات کا ضامن ہوتا ہے۔ جو اس سے وفاداری کا عہد کرتے ہیں۔یہ پرچم شہریوں کے جائز حقوق کی حفاظت اور پاکستان کا دفاع کرے گا۔ 1951 ء ہی میں انہوں نے کہا تھا: میرے پاس نہ دولت ہے اور نہ جائیدار صرف ایک جان ہے جوکہ چار برس سے پاکستان کی لیے وقف ہے میں وعدہ کرتا ہوں کہ اگر پاکستان کی حفاظت کی لیے قوم کو خون بہانا پڑا تو لیاقت علی خان کا خون اس شامل ہو گا۔ ساری دنیا کی تاریخ کو اٹھا کر دیکھ لیجئے ۔جو آدمی اپنے قول کا جتنا پاسدار ہے۔وہ اتنا ہی کامیاب ہے۔ وہ اتنا ہی بڑا ہے۔

یہ کامیابی اور بڑائی لیاقت علی خان کے حصے میں بھی آئی۔انہوں نے جو کہا تھا قدرت نے اسے پورا بھی کردیا ۔ 1951 ء ہی میں اکتوبر کی 16تاریخ کو ان کا خون وطن عزیز کی مٹی میں جذب ہو کر اسے اور بھی قیمتی اور محترم بنا دیا یہ مٹی تو ویسے ہی سونا ہے سنہرے خون نے اس کی چمک دمک اور بڑھا دی۔ راولپنڈی کمپنی باغ میں زبردست چہل پہل تھی۔آج یہاں ایک اہم جلسہ ہونے والا تھا۔ٹھیک چار بجے وزیراعظم جلسہ گاہ میں پہنچے۔لو گوں کی آنکھیں،ہاتھ، منہ اپنے وزیراعظم کے لیے پر جوش تھے۔

حاضرین کی تالیوں اور نعروں کی گونج میں وہ ڈائس پر آئے اور ابھی انہوں نے برادران اسلام کے الفاظ ہی ادا کئے تھے کہ ایک گولی سنسناتی ہوئی آئی مقرر کے سینے پر لگنے والی گولی نے انہیں کچھ اور کہنے نہیں دیا۔وہ گر گئے۔ٹوٹتی ہوئی سانسوں سے سننے والوں نے جو الفاظ سنے وہ یہ تھے۔ خدا پاکستان….. کی…… حفاظت کرے۔(خدا پاکستان کی حفاظت کرے

Muhammad Akhtar Sardar

Muhammad Akhtar Sardar

تحریر: اختر سردار چودھری، کسووال