اے خالق و مالکِ ارض و سما تیرے لطف و عطا کا کیا کہنا ذرے ذرے سے ملتا ہے پتہ تیرے لطف و عطا کا کیا کہنا اول تو ہے، آخر تو ہے مخفی تو ہے، ظاہر تو ہے تجھ سے خالی نہ کوئی جگہ تیرے لطف و عطا کا کیا کہنا تو ہی مالک ، تو ہی خالق تو ہی مولا، تو ہی رازق ہے تیرا کرم ہر صبح و مسا تیرے لطف و عطا کا کیا کہنا گلشن میں تو، صحرا میں تو پھولوں کو ہے تیری جستجو ہے مدح سرا دریا، صحرا تیرے لطف و عطا کا کیا کہنا بندوں پر ہے احسان تیرا سر آنکھوں پر فرمان تیرا بھیجے مرسل، بھیجے انبیاء تیرے لطف و عطا کا کیا کہنا ہیں نعمتیں تیری حد سے سِوا ہیں رحمتیں تیری ہر ہر جا ہر اِک نعمت ہے بیش بہا تیرے لطف و عطا کا کیا کہنا بخشش کی تجھ سے طلب ہم کو ہے تیری رضا سے مطلب ہم کو سلطان احمد کی ہے یہ دعا تیرے لطف و عطا کا کیا کہنا