تحریر : پروفیسر رفعت مظہر قوم کے لیے اچھی خبر یہ کہ حکمرانوں نے انتہائی جرأت مندانہ فیصلہ کرتے ہوئے PSL-2کا فائنل لاہور میں منعقد کروانے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے جو دہشت گردوں اور ملک دشمن قوتوں کو کھرا جواب ہے کہ کب دہلا ہے آفاتِ زمانہ سے میرا دِل طوفاں کو جو آنا ہے تو دروازہ کھُلا ہے یہ دہشت گردوں اور بھارت کے لیے کھُلا چیلنج ہے کہ وہ اپنی خباثتوں میں جتنا بھی آگے نکل جائیں ، یہ قوم جھکنے والی نہیں ۔ اقبال نے اِسی قوم کے نوجوانوں کو مخاطب کرکے کہا تھا تجھے اُس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبت میں کُچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاجِ سرِ دارا ہندو لالہ شاید فراموش کر بیٹھا کہ یہ وہی لاہور ہے جس کے جیالے ستمبر 65 کی جنگ میں بھارتی لڑاکا طیاروں کو شہر میں داخل ہوتا دیکھتے تو چھتوں پر چڑھ کر پاکستانی شاہینوں کو بھارتی طیاروں کا شکار کرتے دیکھ کر گلے پھاڑ پھاڑ کر ”بو کاٹا ، بو کاٹا” کے نعرے لگاتے ۔ ایسی قوم کو بھلا کون ڈرا سکتا ہے جس کا مطلوب و مقصود ہی شہادت ہو۔
جب سے PSL کا حتمی فیصلہ ہوا ہے ، پوری پاکستانی قوم 5 مارچ کو قذافی سٹیڈیم میںیہ میچ دیکھنے کے لیے بیقرار ہے ۔ چہرے خوشی سے دمق رہے ہیں اور جوش و جذبہ اپنے عروج پر ہے لیکن حیرت ہے کہ عمران خاں نے اِس PSL فائنل کی مخالفت کرتے ہوئے اِسے پاگل پَن قرار دے دیا جبکہ پوری قوم یہ سمجھتی ہے کہ 5 مارچ انشاء اللہ دہشت گردوں کی شکست کا تاریخی دِن ہو گاکیونکہ اِس دِن لاہور دُنیا کی نگاہوں کا مرکز بن جائے گا اور دہشت گردوں کو یہ پیغام جائے گاکہ اُن کے بم دھماکوں اور خودکُش حملوں سے قوم کے مورال پر بقدرِ اشکِ بلبل بھی اثر نہیں ہوتا اورنہ ہی روز مرہ کے معمولات پر ۔ اِس کے علاوہ یہ دِن بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی کا دن بھی ہو گا ۔ ہمارے سٹیڈیم پھر سے آباد ہو جائیں گے ، بین الاقوامی کرکٹ ٹیمیں یہاں کھیلنے آئیں گی اور عوام کو نہ صرف تفریح میسر ہو گی بلکہ خودکُش حملوں اور بم دھماکوں کے خوف کا اثر بھی زائل ہو جائے گا۔
یہ شاید کپتان کی سیاسی زندگی کا سب سے بڑا یو ٹرن ہے کیونکہ اُنہوں نے 21 فروری کو کہا تھا کہ صرف PSL کا فائنل ہی نہیں ، سارا PSL ہی پاکستان میں ہونا چاہیے جبکہ صرف چھ دِن بعد وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ PSL کا فائنل لاہور میں کروانا پاگل پَن ہے کیونکہ اگر کوئی انہونی ہو گئی تو اگلے 10 برس تک پاکستان میں کرکٹ نہیں ہو گی ۔کپتان صاحب شاید یہ بھول گئے کہ PSL-2 کا فائنل پاکستان میں کروانے کا اعلان تو نجم سیٹھی نے ایک سال قبل اُس وقت ہی کر دیا تھا جب پی ایس ایل وَن کا فائنل دبئی میں کھیلا گیا ۔ پھر پی ایس ایل ٹو کی افتتاحی تقریب میں فائنل لاہور میں کھیلنے کا اعلان کیا گیا جو بھارت کو منظور نہیں تھا کیونکہ وہ دُنیا پر یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ پاکستان پُرامن ملک نہیں ہے۔ اِسی لیے اُس نے اپنی دہشت گرد خفیہ تنظیم ”را” کے ذریعے پاکستان میں پے دَر پے دھماکے کروانا شروع کر دیئے اور ایک موقع ایسا بھی آیا کہ لاہور میں اِس کا انعقاد مشکل نظر آنے لگا۔ پھر میاں نواز شریف نے جرأت مندانہ فیصلہ کرتے ہوئے میچ کے انعقاد کا گرین سگنل دے دیا اور پنجاب حکومت اِس کی تیاریوں میں مصروف ہو گئی۔ اِس سلسلے میں وفاقی وزیرِ داخلہ چودھری نثار علی خاں کا کردار بھی لائقِ تحسین ہے ۔ وہ دہشت گردی کے خوف سے معمولاتِ زندگی کو معطل کر دینے کے شدید مخالف ہیں ۔ اِسی لیے اُنہوں نے وفاقی اور پنجاب حکومتوں کو مسلسل قائل کرنے کی کوشش کی اور بالآخر اپنی کوششوں میں کامیاب بھی ہوئے۔
Imran Khan
اب صورتِ حال یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں سمیت ہرکہ و مہ اِس اعلان کا خیر مقدم کر رہا ہے لیکن کپتان کا مسٔلہ کچھ اور ہے ۔ اُنہوں نے تو ہر حالت میں نوازلیگ کی مخالفت کرنی ہوتی ہے ، جو وہ کر رہے ہیں۔ عمران خاں کے اپنے بیگانے ، سبھی اُن کے اِس بیان کی یا تو مذمت کر رہے ہیں یا پھر اعلانِ لا تعلقی۔ وزیرِ قانون پنجاب رانا ثناء اللہ نے کہا ”پوری قوم پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں کرانے کا خیر مقدم کر رہی ہے جبکہ پاگل خاں ، پاگل پَن کی باتیں کر رہا ہے”۔ اطلاعات و نشریات کی وزیرِمملکت مریم اورنگ زیب نے کہا ” عمران خاں پاکستان کے بال ٹھاکرے بننے کی کوشش نہ کریں۔ اُنہیں میچ کے حق میں بیان دینا چاہیے تھا لیکن اُنہوں نے ایسا کرنے کی بجائے اِس کی مخالفت کر دی حالانکہ اُنہیں کئی بار کہا ہے کہ سوچ سمجھ کر بولا کریں لیکن اُن سے کبھی دانشمندانہ بات کی توقع ہی نہیں کی جا سکتی۔
پیپلزپارٹی کے قمرالزماں کائرہ نے کہا ”پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں منعقد ہونے سے دنیا میں پاکستان کا اچھّا امیج جائے گا ۔ عمران خاں پہلے تو سارا پی ایس ایل ہی پاکستان میں کروانے کی بات کرتے تھے لیکن اب اُنہوں نے یوٹرن لے لیا ہے”۔ قائدِحزبِ اختلاف خورشید شاہ نے بھی اِسے خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ اِس میچ سے دُنیا میں پاکستان کا تاثر بہتر ہو گا ۔ باقی سب تو ایک طرف اپنے لال حویلی والے شیخ رشید نے بھی اِس معاملے میں عمران خاں کا ساتھ چھوڑتے ہوئے یہ کہہ دیا کہ وہ تو لاہور میں میچ دیکھنے ضرور جائیں گے اور اگر اُنہیں ”پاس” نہ ملا تو وہ ٹکٹ خرید کر جائیں گے۔
کپتان نے یہ تو کہہ دیا کہ اگر کوئی انہونی ہو گئی تو دَس سال تک پاکستان میں کرکٹ نہیں ہو گی لیکن ہم کہتے ہیں کہ اگر پاکستان میں میچ کروانے کا حتمی فیصلہ نہ کیا جاتا تو شاید پاکستان میں کرکٹ کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند ہو جاتے اور دنیا یہ سمجھتی کہ ہم سے زیادہ بُزدِل کوئی قوم ہو ہی نہیں سکتی جس نے دہشت گردی کے خوف سے اپنا ہی اعلان واپس لے لیا۔ اگر لاہور میں فائنل کروانے کا اعلان نہ کیا گیا ہوتا تو پھر حالات کو مدِنظر رکھتے ہوئے اِس کے بارے میں سوچا جا سکتا تھا لیکن قدم آگے بڑھا کر پیچھے ہٹانا بزدلی کی انتہا ہے جس کی کپتان صاحب کم ازکم اِس قوم سے توقع نہ کریں کیونکہ قوم کو تو سلطان ٹیپو کا یہ قول اَزبر ہے ”گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دِن کی زندگی بہتر ہے”۔ ویسے ہمیں بھی کپتان صاحب سے یہ توقع نہیں تھی کہ وہ ایسا بُزدلانہ بیان دے کر اپنے ہی ہاتھوں اپنی شخصیت کو یوں مسخ کر لیں گے۔