تحریر : سید انور محمود کرکٹ کا کھیل اس کرۂ ارض پر سو سال سے زائد بہاریں دیکھ چکا ہے۔ جو کرکٹ کو واقعی سمجھتا ہے، صرف وہی جانتا ہے کہ کرکٹ ایک ایسا کھیل ہے جو آپ کو ہر ہر لمحے محظوظ کرے گا۔ایک بلے باز کا میدان میں بلا گھماتے ہوئے داخل ہونا، پھر گارڈ لینے اور کھیلنے کے لیے تیار کھڑے ہونے کا اپنا انوکھا انداز، جو بلے بازی کو پسند کرتے ہیں اور اس کی باریکیوں کو سمجھتے ہیں، اُن کے لیے اس پورے عمل کا ایک ایک لمحہ لذت آمیز ہے۔ اس کے بعد جب کھیل کا آغاز ہوتا ہے اور بلے باز اپنی تکنیکی مہارت کا مظاہرہ کرتا ہے، چاہے دفاعی انداز میں کلائی کا استعمال ہو یا جارحانہ انداز سے بلا گھمانا، ہر انداز ایک ناقابل بیان لذت کا احساس دیتا ہے۔دوسری طرف گیند بازی اپنے اندر ایک الگ قسم کی خوبصورتی سموئے ہوئے ہے۔ تیز گیند باز ہو، یا بلے باز کو اپنی انگلیوں کے ذریعے نچانے والا اسپن گیندباز، گیند لے کر ان کا دوڑنے اور گیند پھینکنے کا مرحلہ تو ہیجان خیز ہے ہی لیکن ٹپہ پڑنے کے بعد گیند کس طرح بلے باز کو دھوکا دیتی ہے، یہ سب بھی شائقین کرکٹ کے لیے لذت بے شمار ساماں لیے ہوئے ہیں۔
شرفاء کا کھیل کرکٹ اب سٹہ بازوں اور جواری کھلاڑیوں کی وجہ سے مشکوک کھیل بن گیا ہے۔ دولت کی چمک،میچ کی آمدنی میں سے کھلاڑیوں کے حصے اور میچ کھیلنے کی بڑھتی ہوئی تعداد نے کرکٹ کو ایک تجارت بنا دیا ہے ۔کرکٹ کی اقدار کو زندہ رکھنے والے کمیاب ہیں ۔سابق پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان سلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر 2010ء میں انگلینڈ دورے کے دوران سپاٹ فکسنگ ثابت ہونے پر نہ صرف پابندی کا شکار ہو گئے تھے بلکہ تینوں نے برطانیہ کی جیل میں سزا بھی کاٹی تھی۔جب تین کھلاڑیوں کو سپاٹ فکسنگ میں رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تو، سابق کرکٹرسرفراز نواز کا کہنا تھا کہ “پچھلے کئی سالوں سے کرکٹ ٹیم اور انتظامیہ، اخلاقی ریا کاری کا نمونہ بنی رہی ہے۔” 1994-95ءمیں پاکستانی دورہ کے دوران آسٹریلیا کی ٹیم ایک صفر سے سیریز ہار گئی تو آسٹریلوی کھلاڑیوں شین وارن، ٹم مے اور مارک وا ہ نے الزام لگایا کہ پاکستانی کپتان سلیم ملک نے انہیں ٹیسٹ اور ون ڈے میں بری باوُلنگ کروانے کے لئے رشوت کی پیش کش کی تھی۔
شرفاءکےکھیل کرکٹ میں جواءبازی اور میچ فکسنگ کے الزامات کا جواب جسٹس محمد قیوم جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ میں موجود ہے ۔یہ انکوائری 1999ءمیں پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹو ماجد خان کے خط کی بنیاد پر کروائی گئی تھی ۔ جسٹس قیوم جوڈیشل کمیشن رپورٹ کے مطابق پی سی بی کے سابق چیف ایگزیکٹو ماجد خان ، جاوید برکی ، سابق کپتان عمران خان ،جاوید میاں داد ،سابق کوچ انتخاب عالم ،ہارون الرشید ،راشد لطیف ،عامر سہیل اور عاقب جاوید کا کہنا ہے کہ میچ فکسنگ کی لعنت کرکٹ میں اپنی جگہ بنا چکی ہے ۔اسی قسم کے الزامات آسٹریلوی کھلاڑیوں کے خلاف بھی موجود ہیں۔
Pakistan Cricket Board
پاکستان کرکٹ بورڈ کی کافی کوشیشوں کے بعد انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے بالاخر اسپاٹ فکسنگ کے الزام میں پابندی کے شکار پاکستانی فاسٹ بولر محمد عامر کو ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے کی اجازت دے دی۔ تاہم اُن کے دو ساتھیوں سلمان بٹ اور محمد آصف کو ابھی مزید انتظار کرنا پڑے گا۔ آئی سی سی کا کہناہے کہ اینٹی کرپشن یونٹ کے سربراہ رونی فلینگن نے آئی سی سی اور پاکستان کرکٹ بورڈ کی منظوری کے بعد اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے محمد عامرکو اجازت دے دی ہے کہ وہ ڈومیسٹک مقابلوں میں حصہ لے سکتے ہیں۔ دو ستمبرکو عامرپر لگی پابندی کے خاتمے کے بعد پی سی بی عامر کی ٹیم میں شمولیت کے حوالے سے فیصلہ کرے گی۔ بائیں ہاتھ کے فاسٹ بولرنے گزشتہ ماہ پیٹرنز ٹرافی میں شرکت کر کے 22 وکٹیں حاصل کی تھیں۔ محمد عامر نے ڈومیسٹک ٹی20مقابلے میں راولپنڈی ریمز کی نمائندی کر کے پابندی کے بعد پہلی مرتبہ مسابقتی کرکٹ میں شرکت کی۔ عامر کا کہنا ہے کہ میری توجہ آئندہ سال ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کیلئے قومی ٹیم میں واپسی پر مرکوز ہے۔ لیکن ایک سوال یہ ہے کیا محمد عامر کو پاکستانی کرکٹ ٹیم میں دوبارہ شامل کیا جائےیا نہیں ؟ اس سوال کا جواب ہاں اور نہیں دونوں میں ہے ۔ محمد عامرکو آئی سی سی کی جانب سے ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے کی اجازت دیے جانے پر پاکستان کے سابق کرکٹرز تقسیم دکھائی دیتے ہیں۔
سابق پاکستانی کپتان رمیز راجہ جو آجکل سپورٹس چینلز کے لیے کمنٹری کرتے ہیں انہوں نے کرک انفو ویب سائٹ پر ایک مضمون میں محمد عامر کی واپسی کیلئے کوشش کرنے والی لابی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ عامر کی واپسی کی صورت میں کرکٹ ٹیم ’وائرس‘ یعنی سپاٹ فکسنگ کے خطرات سے ایک بار پھر دوچار ہو سکتی ہے۔ رمیز راجہ نے اپنے کالم میں ذکر کیا کہ کس طرح 1990ء میں سپاٹ فکسنگ میں کرکٹ کو نقصان پہنچانے کے حوالے سے ان کو تجربہ ہوا۔ اس وقت ایک سکینڈل سامنے آیا جس کے نتیجے میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان سلیم ملک پر تاحال پابندی عائد کر دی گئی جبکہ سابق کپتان وسیم اکرم اور پاکستانی کرکٹ ٹیم کے موجودہ کوچ وقار یونس سمیت دیگر چھ نمایاں کھلاڑوں پر جرمانہ عائد کیا گیا۔ رمیز راجہ نے سوال کیا کہ ’کیا ان کھلاڑیوں کو اس ’’وائرس‘‘ کی زد میں لانا چاہیے جنھوں نے سخت محنت کر کے اپنے لیے راستہ بنایا اور اب وہ ایک ایسے شخص کے لیے جگہ چھوڑ دیں جس کا کردار اب بھی مشکوک ہے۔ یہ اُن کارکردگی دکھانے والوں کے ساتھ کتنی ناانصافی ہو گی۔‘
پاکستان کے سابق فاسٹ بولراور متحدہ عرب امارات کے ہیڈ کوچ عاقب جاویدکا کہنا ہے کہ محمد عامر دھوکے باز ہے۔میں اس جیسے کرپٹ شخص سے بات کرنا پسند نہیں کروں گا۔پی سی بی جو چاہے کرے۔میں کسی ایسے کرپٹ شخص کی حمایت نہیں کروں گا۔جس نے ملک کو بیچا اور اب پارسا بن کر پاکستان ٹیم میں واپسی کے لئے پر تول رہا ہے۔عاقب جاوید نے بتایا کہ2010ء میں انگلینڈ کی سیریز میں میں بولنگ کوچ تھا اور نیٹ پر عامر اکثر بڑی بڑی نوبال کراتا تھا ۔ میں نے اُس سے دریافت کیا کہ تم کیا کررہے ہو تو محمد عامر کہتا عاقب بھائی میرا پاوں کنٹرول میں نہیں آرہا ہے۔میں محمد عامرکوبولنگ رن اپ درست کراتا رہا مجھے علم نہیں تھا کہ وہ اسپاٹ فکسنگ کے لئے سارا ڈرامہ رچا رہا ہے۔عاقب جاوید نے کہا کہ محمد عامر کا انجام بہت سارے لوگوں کے لئے نشان عبرت ہے۔انہوں نے کہا کہ جو فاسٹ بولر اپنے بولنگ کوچ کو دھوکے دے اُس سے کیا توقع کی جاسکتی ہے۔
Waseem Akram
سابق کپتان وسیم اکرم کا کہنا ہے کہ عامر کو غلطی کی سزا مل گئی اب اُسے کیریئر دوبارہ شروع کرنے سے نہیں روکنا چاہیے۔ اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بڑے بڑے لوگوں نے بڑے بڑے جرم کیے، سزائیں بھگتیں اور دوبارہ زندگی شروع کی۔ عامر نے آئی سی سی کی ویڈیو میں اپنے کیے کی معافی بھی مانگ لی ہے لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم بحیثیت قوم محمد عامرکو معاف کردیں اور ان کی آنے والی کرکٹ کی حمایت کریں۔ انہوں نے کرکٹ میں واپسی کے لیے درکار آئی سی سی کی تمام شرائط بھی پوری کر دی ہیں۔ سابق ٹیسٹ کرکٹر راشد لطیف کا کہنا ہے کہ ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنا محمد عامر کا حق ہے جسے چھینا نہیں جاسکتا لیکن انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنا پاکستان اور خود محمد عامر کے لیے آسان نہ ہوگا
کیونکہ انہیں ان شائقین اور حریف کھلاڑیوں کے شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا جو انہیں معاف کرنے کےلیے تیار نہیں۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم کیا محمد عامر کو قبول کرلے گی؟ اس سوال پر راشد لطیف کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان کرکٹ بورڈ محمد عامر کو ٹیم میں شامل کرے گا تو کوئی کیسے اعتراض کر سکے گا پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیرمین لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) توقیر ضیا بھی محمد عامر کی واپسی کے شدید مخالف ہیں۔ دلچسپ بات ہے کہ چیئرمین پی سی بی شہریار خان تسلیم کرچکے ہیں کہ موجودہ ٹیم میں محمد عامر کی واپسی پر تحفظات پائے جاتے ہیں۔
اگر آنے والے چند سالوں میں محمد عامر ٹیم میں واپس آتا ہے تو یہ بات لازمی ہے کہ وہ کسی ایک ہونہار گیندباز کی جگہ ہی پر آیگا، لیکن زیادہ افسوسناک بات یہ ہوگی کہ اگر وہ چل پڑا تو ٹھیک اور نہ چل پایا تو یہ سوال اٹھے گا کہ کہیں وہ اپنی پرانی روش پر تو نہیں لوٹ گیا ہے اورایسا ممکن بھی ہوسکتا ہے کہ ایک بار پھر وہ پیسہ لیکر اسپاٹ فکسنگ میں ملوث ہوجائے۔ بہتر ہوگا کہ محمد عامر کو ڈومیسٹک کرکٹ تک ہی محدود رکھا جائے تاکہ باقی کھلاڑی اس ’’وائرس‘‘یعنی سپاٹ فکسنگ کی زد میں نہ آسکیں، پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں لہذا کرکٹ کے جواری محمد عامر کی پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم میں واپسی پاکستان کرکٹ کےلیے نقصان دہ ہوگی۔