تحریر: اینجلہ سیئمون شارپ قومی کرکٹ ٹیم میں سٹار کی تاریخ ماضی کے ایسے حسین گلدستوں سے بھری ہوئی ہے جنہوں نے ناصرف پاکستان بلکہ بین الاقوامی سٹیج پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور انہوں نے ایسی تاریخ رقم کیں جسے صدیوں یاد رکھا جائے گا۔ ان کی محنت کسی بدولت آج قومی ٹیم دنیا کی چند ایسی ٹیموں میں شامل ہے جو ورلڈ رینکنگ میں آتی ہیں۔ ان کی محنت کے مرہون منت پاکستان میں کرکٹ کو شروع سے اب تک فروغ حاصل ہوا۔ ان میں ایک نام ملتان سے تعلق رکھنے والے ڈنکن البرٹ شارپ کا بھی ہے جنہوں نے قومی ٹیسٹ کرکٹ ٹیم کی نمائندگی کرتے ہوئے 1959ء میں اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ ڈنکن البرٹ شارپ ان چار کرسچن قومی کرکٹرز میں سے پہلے کھلاڑی تھے جو قومی کرکٹ ٹیم کی مختلف ادوار میں نمائندگی کر چکے ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر کرکٹرز میں ویلیس متھیاس، انٹیائو ڈی سوزا اور محمد یوسف شامل ہیں ان میں سے محمد یوسف ایسے کرکٹر ہیں جنہوں نے بعد میں اسلام قبول کیا۔ ڈنکن البرٹ شارپ 3 اگست 1937ء میں راولپنڈی کے شہر میں پیدا ہوئے جس کے بعد وہ اپنے خاندان کے ہمراہ ملتان میں رہائش پذیر ہوئے۔ رائٹ ہینڈ بلے باز اور رائٹ آرم آف بریک بائولنگ کرنے والے ڈنکن شارپ 1957-58ء میں پنجاب اے ٹیم کی نمائندگی بھی کر چکے ہیں۔ 1958-59 ء میں پاکستان ریلویز کا بھی حصہ رہے۔ اسی طرح کافی عرصہ تک لاہور کی جانب سے بھی مختلف ایونٹس میں عمدہ پرفارمنس کا مظاہرہ کیا۔
ڈنکن شارپ نے ملتان سے 50 کی دہائی میں اپنے کیئریئر کا باقاعدہ آغاز کیا۔ یہ وہ دور تھا جب پاکستان میں کرکٹ بھی اپنی ابتدائی منزلیں طے کر رہی تھی۔ یوں تو خطہ میں ٹیسٹ کرکٹ کا آغاز پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے قبل ہی ہو چکا تھا لیکن پاکستان نے اپنا پہلا آفیشل میچ عبدالحفیظ کاردار کی کپتانی میں 1952ء میں روائتی حریف بھارت کے خلاف کھیلا۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کو سابق سٹارز کی محنت کی بدولت کرکٹ کے میدان میں تاحال برتری حاصل ہے۔
Cricket Pakistan
یہاں پر قابل ذکر امر یہ ہے کہ قومی کرکٹ ٹیم کی ابتدائی ارتکائی مراحل میں جن جن کھلاڑیوں نے ناصرف بھارت بلکہ انگلینڈ ، آسٹریلیا، ویسٹ انڈیز کی ٹیموں کو ناکوں چنے چبوائے ان کے نام ایک ایسی تاریخ کا حصہ ہیں جو کہ لائق تحسین ہیں۔ ڈنکن البرٹ شاپ وہ کھلاڑی ہیں جنہوں نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین اعجاز بٹ کیساتھ ٹیسٹ ڈیبیو کیا۔ ڈنکن البرٹ شاپ تو ٹیسٹ کرکٹرز بننے میں کامیاب ہو گئے لیکن ان کے خاندان کی تاریخ تعلیم ، صحت سمیت دیگر شعبوں میں خدمات نمایاں ہیں جنہوں نے نا صرف ملک کے دیگر شہروں میں بلکہ ملتان کے دیگر شعبوں میں گرانقدار خدمات انجام دی ہیں۔ ڈنکن البرٹ شارپ کے والد البرٹ شارپ پاکستان ریلویز کے اسسٹنٹ انجینئر تھے جن کا تبادلہ ملک کے مختلف شہروں میں ہوتا رہا۔ ایک عرصہ کے بعد جب ان کا تبادلہ ملتان میں ہوا تو انہوں نے اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ کرکٹ کھیلنا شروع کر دی۔
ڈنکن البرٹ ملتان سے ان 5 ہزار کھلاڑیوں میں سے واحد تھے جن کی سلیکشن ملتان ڈویژن ٹیم میں ہوئی۔ جس کے بعد انہوں نے باقاعدہ اپنے کیئریئر کا آغاز کیا جس کے بعد انہوں نے قومی کرکٹ ٹیم کا حصہ بننے سے قبل بہت سے قومی سطح پر ہونے والے ایونٹس میں سخت محنت کی۔ اپنے کیریئر کے دوران ان کی شادی ملتان کے نامور تعلیمی ادارہ سینٹ میری کانونٹ سکول کی ٹیچر سلمیٰ حنا سے ہوئی۔ جنہوں نے اپنی ساری زندگی فروغ تعلیم میں گزار دی اور انکی وفات سال 2011ء میں ملتان میں ہی ہوئی اور انکی تدفین بھی ملتان ہی میں کی گئی۔ سلمیٰ حنا کی والدہ سینٹ میری کانونٹ سکول کی پرنسپل بھی رہ چکی ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ڈنکن البرٹ شارپ اور تھلما حنا سمیت ان کے خاندان کی خدمات اس خطہ کیلئے نمایاں ہیں۔ انگلینڈ میں شائع ہونے والی کتاب وائٹ ان گرین جس کی تقریب رونمائی حال ہی میں انگلینڈ میں ہوئی۔ جس کے مہمان خصوصی انگلینڈ کے ہائی کمشنر ایبن عباس ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ابن عباس تھلما حنا کے سٹوڈنٹ تھے۔ تھلما حنا نے سیاسی سماجی شخصیات میں شامل مصطفی کھر سمیت بیسیوں افراد کو پڑھایا جو دنیا کے مختلف ممالک میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔
Anjala Simon Sharpe
انگلینڈ میں ہونے والی پاک انگلینڈ کرکٹ سیریز کے دوران انگلینڈ کے ایک اخبار نویس ڈنکن شارپ کو مین آف مارس کا خطاب دے چکے ہیں ان کی پرفارمنس کو انگلینڈ میں ہونے والی سیریز کے دوران کافی سراہا گیا صحافی گیٹرین ہیگ نے ایک سوال میں ان سے کہا کہ تم کہاں سے ہو تو اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ”آئی ایم فرام مارس” میرا تعلق مارس سے ہے۔ اسی طرح لاہور میں ایک اٹلین ہوٹل میں قیام کے دوران جب وہ دیگر کرکٹرز سے گپیں لگا رہے تھے تو وہاں پر موجود افراد نے انہیں ہالی وڈ کے اداکار کیری گرانٹ سمجھ کر آٹو گراف مانگا تو انہوں نے کہا کہ میں کیری گرانٹ نہیں بلکہ ایک کرکٹر ہوں جو پاکستان کی نمائندگی کرتا ہوں۔ جولائی 2016ء میں انگلینڈ میں شائع ہونے والی کتاب وائٹ ان گرین جو کہ انگلینڈ کے ایک سیاستدان پیٹراوبون اور وہاں کے صحافی رچرڈ ہیلر کی مدد سے لکھی گئی ہے۔ اس کتاب کے 13ویں چپڑمیں انہوں نے ڈنکن شارپ کی پاکستانی کرکٹ ٹیم کی خدمات پر انہیں سراہا گیا ہے۔ ان کے مطابق وہ ایک عظیم کرکٹر ہیں جنہوں نے پاکستانی کرکٹ ٹیم کی نمائندگی کرتے ہوئے اسے اس مقام تک پہنچایا جس پر پاکستانی قوم کو آج بھی فخر ہے۔
اپنے ٹیسٹ کیریئر کے دوران ڈنکن البرٹ شارپ ایک سابق آسٹریلوی کرکٹر بیری جرمن اور گیری سولبرز کی کاوشوں اور سپانسر شپ ملنے کے بعد جنوبی آسٹریلین ٹیم کا حصہ بنے جہاں پر انہوں نے ایک عرصہ تک کرکٹ کھیلی جس کے بعد وہ انگلینڈ میں مستقل مقیم ہو گئے ملتان میں مقیم ان کے اکلوتے بیٹے کیون البرٹ شارپ عرصہ دراز سے بطور ہومیو پیتھک ڈاکٹر فرائض انجام دے رہے ہیں۔ کیون البرٹ شارپ بھی اپنے والد کی طرح کرکٹ میں کافی دلچسپی رکھتے ہیں لیکن ڈنکن البرٹ شارپ کی پوتی انجیلا سائمن شارپ جو حال ہی میں اپنی ماسٹرز ڈگری مکمل کر چکی ہیں وہ کرکٹ میں ایک جنون کی حد تک دلچسپی رکھتی ہیں۔ وہ بھی اپنے دادا ڈنکن شارپ کی خصوصی ٹیم کو دینے والی نمایاں خدمات کے اعتراف میں قومی ٹیم کیلئے نیک تمنائیں رکھے ہوئے ہیں۔ اور امید ظاہر کرتی ہیں کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم ماضی کی طرح مستقبل میں بھی قومی جھنڈا بلند کئے رکھے گی۔ ان کے مطابق تمام ممالک کی کرکٹ ٹیموں نے دنیا میں کرکٹ کے فروغ کیلئے نمایاں کردار ادا کیا ہے لیکن کرکٹ کا سنہرا دور انہیں ہمیشہ یاد رہے گا جب کرکٹ سیاست سے پاک ہوا کرتی تھی آج بھی وہ ایسے دور کے واپس آنے کیلئے دعاگو ہیں جب ایک پر امن فضاء میں سیاست اور سٹے بازی سے پاک کرکٹ کھیل جائے گی۔