تحریر : ایم پی خان اس ضمن میں لوگ کچھ بھی کہیں ، لیکن میں خودکو خوش قسمت سمجھتاہوں کہ میرابہت کم وقت کرکٹ کی وجہ سے( کھیلتے ہوئے یامیچ دیکھتے ہوئے) ضائع ہواہے اوراس وجہ سے میں کبھی کرکٹ میچ پر دیگرلوگوں کی طرح احمقانہ تبصرے نہیں کرتابلکہ خودکو حتیٰ الوسع ماہرانہ تبصروں سے بھی بازرکھتاہوں۔ موجودہ عالمی کپ میں پاکستا نی ٹیم کی کارکردگی خاصی مایوس کن رہی ، جس کی وجہ سے پوری ٹیم خصوصاذمہ دارکھلاڑی خاصی تنقیدکی زدمیں رہیں۔ تہمت ، الزامات اورافتراکے دفترکھلے گئے۔کسی نے بلے بازوں پر دل کی بھڑاس نکالی اورکسی نے بائولروں پر جبکہ کسی نے توقومی ٹیم کے کپتان شاہدآفریدی کو ٹیم کی ہار کاذمہ دارٹہرایا ایسے میں کچھ ایسے روشن خیال اورکھلے ذہن کے لوگ بھی تھے ، جنہوں نے موسمی حالات، بارش اور گراونڈ کی جغرافیائی خدوحال کو پاکستانی کھلاڑیوں کے لئے غیرموزوں قراردیکر پاکستانی کھلاڑیوں کو بری الذمہ قراردیا۔
بہرحال ہرانسان کی اپنی سوچ ہوتی ہے اورجہاں تک میراتعلق ہے تومجھے شاذونادرپاکستانی ٹیم کی جیت پر غیرمعمولی خوشی نصیب ہوئی ہے ۔ اس کایہ مطلب ہرگزنہیں کہ میرے اندرحب وطن کاجذبہ نہیں ہے یامیں پاکستان کے علاوہ کسی اورٹیم کی حمایت میں ہوں، بلکہ میرے اس روئے کی بنیادی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ مجھے ہمیشہ اندازہ ہوتاہے کہ پاکستانی ٹیم فائنل میں بہت مشکل سے پہنچتی ہے اورفائنل جیتنے کا زمانہ حال میںکوئی امکان نہیں ۔بہرحال کھیل میں ہارجیت ہوتی ہے اورمیں اس بحث میں نہیں جاناچاہتاکہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کامعیارکیاہے، انکی کارکردگی اچھی ہے یابری اوراسکی پیچھے کیاعناصرکارفرماہیں۔
ٹیم اس دفعہ ہاری ، توشاید اگلی دفعہ جیتے، لیکن اصل ہارہماری قوم کی ہارہے، جوکردار، طرزعمل ،تشخص اوراخلاق کی ہارہے اوراس کا درست اندازہ مجھے اس وقت ہوا،جب پاکستان اورہندوستان کی ٹیموں کے مابین حالیہ عالمی کپ میں میچ کھیلاجارہاتھا ۔میں ایک دوست کے اصرارپران کے ساتھ میچ دیکھنے گیا۔میچ دیکھنے کے لئے بہت بڑی تعدادمیں بچے، جوان اورعمررسید ہ افرادموجودتھے اوراس قدرشور شرابہ اورہنگامہ برپاہوتھاکہ بڑے چھوٹے کی کوئی تمیزنہ تھی ، جتنے منہ اتنی باتیں ہورہی تھیں میچ شروع ہونے سے پہلے پاکستان کاقومی ترانہ گایاگیااورکسی کوپتہ بھی نہ چلا۔نہ کوئی قومی ترانے کے احترام میں خاموش رہااورنہ کسی نے ادب میں کھڑے ہونے کی زحمت گواراکی۔
Pakistan vs India
اسکے بعد جب ہندوستان کاقومی ترانہ گایاجانے لگا، تویکدم خاموشی چھاگئی ،کیونکہ اسکے لئے ہندوستانی فلم انڈسٹری کاایک معروف اداکارمدعوکیاگیاتھا، جو پاکستانی قوم کاہیروہے۔پاکستانی ترانہ غلط گایاگیا، لیکن یہ پوری قوم کوتب پتہ چلا، جب میچ ختم ہونے کے بعدیااگلے روزسوشل میڈیا پر اس کاچرچاہوا۔یہ بھی گنتی کے چند ان افرادکاکمال ہے، جوسچے محبان وطن ہیں اورجنہوںنے خاصے احترام اور توجہ سے پاکستان کاقومی ترانہ سنا تھااورانہیں اپنے قومی ترانے کاایک ایک لفظ یادتھا۔جس دوران انہوں نے وہی غلطی نوٹ کرلی تھی۔ہم اسی وقت ہار ے تھے ، جب ہندوستان جیسے ملک میں ،ہماراقومی ترانہ غلط گایاگیا اسکے بعددوسری ہارہماری یہ تھی کہ پوری قوم میں سے صرف گنتی کے چندلوگوں نے قومی ترانہ احترامااورخاموشی سے سناتھا کرکٹ ٹیم کی ہارعارضی ہے، ممکن ہے یہ ہماری ٹیم کی روایت نہ بنے اورجلدانکی پوزیشن بہترہوجائے ، لیکن قوم کے کرداراوراخلاق کی ہار ایسی چیز ہے ، جو برسوں یادرکھی جائے گی۔
بلکہ ممکن ہے کہ یہ تاریخ کاحصہ بنے ۔جوقوم اپنے قومی ترانے کااحترام نہیں کرسکتی، وہ اپنے حریف سے میچ جیتنے کے سہانے خواب کیوں دیکھ رہی ہے۔جس نسل کے نوجوان لڑکے اورلڑکیاں ہندوستانی اداکاروں کے فینزہوتے ہیں۔جن کے گھروں میں دن رات ہندوستانی فلمیں اورڈرامے دیکھے جارہے ہیں۔ہمارااٹھنابیٹھنا، چال چلن، رسم ورواج، طورطریقے، اندازگفتارحتیٰ کہ تہذیب اورثقافت بھی ہندوستانی میڈیاکے زیراثرہوتی جارہی ہے۔ہماری روزمرہ زندگی کی عام گفتگومیںبھی ہندوستانی فلموں کے مکالموں سے بھری ہے۔ہماری شادی بیاہ کی تقریبات میں دھڑادھڑہندوستانی موسیقی چلائی جاتی ہے۔ہماری نئی نسل ہندوستانی موسیقی کے دھنوں کے بغیرناچ نہیں سکتی ۔تو پھر ہندوستان کی جیت پر اس قدرماتم کیوں ہورہی ہے۔بے شک پاکستان کی ہار، ہم سب کے لئے المیہ ہے لیکن اس سے بڑاالمیہ ہماری وہی ہارہے، جس کی کوئی تلافی نہیں۔
اگرہم قومی ترانے کے احترام میں کھڑے ہونے کی تکل زحمت نہیں کرسکتے توکم ازکم خاموشی اختیارکرکے، اسے توجہ سے سننے کاحق توبنتاہے اورجب مدمقابل بلکہ حریف ملک کاقومی ترانہ گایاجاتاہے، توٹیلی وژن پر اہل ہندوستان کاقومی جذبہ قابل دیدنی ہوتاہے ، بلکہ ہماری قوم بھی خوب توجہ سے اوراحترام سے انکاترانہ سنتی ہے ۔ تویہ ہماری سب سے بڑی ہارہے ، کیونکہ کھیل میں ہار کی گنجائش ہوسکتی ہے لیکن کردار، تشخص اوراخلاق میں ہارکی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔