کرکٹ ٹیم اور سیاست

Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

تحریر : سید علی جیلانی
ایئرپورٹ پر پبلک نے دیکھا کہ ایک شخص کمانڈوز کی سیکیورٹی کے اندر لاؤنج سے لایا جا رہا ہے تو سب یہ سمجھے کہ وزیراعظم نوازشریف یا صدر ممنون حسین یا کوئی گورنر یا وزیر اعلیٰ صاحب تشریف لا رہے ہیں اب جو لوگوں نے بڑھ کر قریب ہو کر دیکھا تو حیرت کی انتہا نہ رہی کہ یہ تو ہمارے کرکٹ ٹیم کے کپتان شاہد آفریدی صاحب ہیں جو سیکیورٹی کے اتنے سخت حصار میں آ رہے ہیں کیونکہ موصوف T20 کا ورلڈ کپ ہار کر واپس آ رہے ہیں اور ڈر ہے کہ پبلک ان کا استقبال ٹماٹروں سے نہ کریں پھر بھی شیم شیم کی آواشیں فضاؤں میں سنائیں دیں اس مرتبہ ہماری کرکٹ ٹیم نے بے انتہا خراب کارکردگی کا مظاہر کیا اور غیر ذمہ دارانہ بیٹنگ وہ تو ہمیں ورثہ میں ملی ہے نہ سمجھا نہ سوچا بس چوکا یا چھکا لگانا ہے اور جلد پویلین میں جانا ہے اس کے بعد قوم سے معافی مانگنے کا سلسلہ شروع ہر جاتا ہے سب سے پہلے وقار یونس نے ہاتھ جوڑ کر قوم سے معافی مانگی اسکے بعد شاہد آفریدی صاحب نے بھی قوم سے معافی مانگ لی لیکن اب تو قوم نے شاہد آفریدی صاحب سے ہاتھ جوڑ کر کیا ہے کہ آپ ہمیں معاف کر دیں اور ٹیم اور کرکٹ کھیلنا چھوڑ دیں لیکن لگتا ہے کہ آفریدی صاحب بھی ہمارے سیاستدانوں کی طرح کسی بھی طرح کرسی چھوڑنے کو تیار نہیں بھارت سے میچ ہو تو بس اک چرچا شروع کر دیتے ہیں کہ ہر حالت میں ہمیں ہی جیتنا ہے اور کھلاڑیوں سپر دباؤ بڑھنا شروع ہو جاتا ہے ۔

کیونکہ ہمارے سیاستدان یا فوجی جرنیل بھارت کے بارے میں جو رویہ رکھتے ہیں اس کا سب کو علم ہے کیونکہ مہم سفارتی محازوں پر اور سیاسی محازوں پر بھارت سے شکست کھانے کے بعد سوچتے ہیں کہ اسکا بدلہ ہم کھیل کے میدان میں لے لیں لیکن احمد شہزاد، شاہد آفریدی، عمر اکمل کی پرفارمنس دیکھتے ہوئے یہ صرف ایک خواب ہی رہے گا سب نے دیکھا کہ نیوزی لینڈ سے میچ شروع ہوا شرجیل نے کھیلنا شروع کیا سب نے کہنا شروع کر دیا کہ ہم جیت گئے بس شرجیل کے آؤٹ ہونے کے بعد کایا پلٹ گئی عمر اکمل، احمد شہزاد اور شعیب ملک ایسا کھیل رہے تھے کہ سب کو اندازہ ہو گیا کہ یہ کوئی گروپ بندی ہے اور یہ جان بوجھ کر میچ پرانا چاہتے ہیں یا انہوں نے پیسے کھائے ہوتے ہیں اس پوری T20 ورلڈ کپ کی کہانی میں قصور وار شاہد آفریدی کو نہیں دے سکتے اور صرف ان کی ٹیم سے باہر نکالنے کا مطالبہ نہیں کر سکتے اور صرف ایک آدمی کو قصوروار نہیں ٹھہرا سکتے کیا ابھی تک ہم نے شاہد آفریدی کا کوئی نعم البدل حاصل کیا پاکستان میں مورثی سیاست ہے ۔

Pakistan

Pakistan

رشتہ دار دوستوں کا حکومت میں غلبہ ہے پوری پاکستان کی سیاست میں لٹیروں، ٹیکس چوروں، زمینداروں، چوہدریوں کا قبضہ ہے اب اگر کوئی یہ سمجھے کہ ایسے ملک میں جہاں یہ چیزیں ہوں تو کیا کرکٹ ٹیم اس چیز سے بچ سکتی ہے کرپشن، بددیانتی، سفارش، سازش اقربا پروری سے کش طرح کرکٹ ٹیم دور رہ سکتی ہے کیونکہ یہ پاکستانی کرکٹ ٹیم ہے اب تو قوم سوچنے پر مجبور ہو گئی ہے کہ جناب شہر یار اور نجم سیٹھی کی موجودگی میں پاکستانی ٹیم وہ مقام حاصل کر سکتی ہے جو کرکٹ ٹیم کو مقام عمران خان، وسیم اکرم، جاوید میاں داد کے زمانے میں حاصل تھا۔ اگر پاکستان کا ایک مقام تھا اسکواش، ہاکی، کرکٹ کے میدان میں لوگوں نے اپنا لوہا منوایا ہے اصل میں جہاں سیاست اور کرپشن آجائے وہاں بیڑا غرق ہونا ہوتا ہے پاکستان کے حکمران جب اقتدار پر آتے ہیں تو سفارشی لوگ بھرتی کئے جاتے ہیں دوستوں کو بھرتی کیا جاتا ہے جن کو اس کھیل کے بارے میں کچھ پتہ نہیں ہوتا اور جب پرویز مشرف نے اپنے دوست نسیم اشرف کو کرکٹ کی ذمہ داری سونپی تو بس کمال ہو گیا اور کرکٹ میں بے انتہا سیاست بازی، کرپشن اور سازشیں شروع ہو گئیں اور کھلاڑی بھی جواری بن گئے اصل میں آج ہم رو رہے ہیں کہ کرکٹ ٹیم کی تباہی کیوں ہو رہی ہے اگر آپ پاکستانی سیاستدانوں پر

نظر ڈالیں وہ جتنی کرپشن کرلیں ملک دولت لوٹ لیں ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہے قانون ان پر لاگو نہیں ہوتا بس غریب ہر حال میں پستا ہے۔ حلال حرام کی تمیز مٹ چکی ہے جبکہ ہمارے سیاستدان نے قوم کو یہ سکھایا ہے کہ کرپشن لوٹ مار کرکے دولت حاصل کرو عیش کرو ملک کا نہ سوچو تو پھر پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں سے ہم کیسے توقعہ کریں گے کہ وہ ملک کے لیے کھیلیں گے وہ تو سوچیں گے کہ دولت بناو چاہے وہ سٹے یا جوئے سے حاصل ہو اچھا گھر اچھی گاڑیاں نوکر چاکر زندگی اچھی گزارو ملک کا نام روشن کرکے ہمیں کیا ملے گا اگر ہمارے ہاں قانون کی سہی حکمرانی ہوتی تو پاکستانی سیاست بھی اچھی ہوتی ملک بھی ترقی کرتا اور کرکٹ ٹیم میں بھی زوال نہ آتا اگر پاکستان میں سفارشی لوگوں کا آنا بند ہوجائے اور اعلی عہدوں پر فائز ہونا بند ہوجائے کرپشن ختم ہوجائے قانون امیر غریب کے لیے ایک ہوجائے تو پاکیستان کا دنیا میں ایک مقام ہوجائے ۔

team

team

اصل میں احتساب ہر آدمی کا ہونا ضروری ہے چاہے وہ سیاستدان ہو یا کرکٹ کے کھلاڑی جس طرح سیاستدان اتنے بوڑہے ہوچکے ہیں لیکن حکومت سے چمٹے رہتے ہیں ان کو بھی چاہیے کہ نیک اور پڑہے لکھے سیاستدانوں کو موقع دیں ان کو آگے لیکر آئیں اسی طرح کرکٹ میں بھی کھلاڑیوں کو چاہتے کہ نئے ٹیلنٹ کھلاڑیوں کے لئے جگہ خالی کریں اگر آپ کی پرفارمس اچھی نہیں ہے تو ایسے کھلاڑی کو موقعہ دینا چاہیے جو اچھی پرفارمس دے رہا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کو چاہیے کہ فوری الیکشن لیں اور دوستوں سفارشیوں کو کرکٹ بورڈ سے فارغ کریں اور ایسے لوگوں کو آگے لائیں جو ایمانداری اور جزبہ سے کام کریں اور جو اس کھیل کو سمجھتے ہوں جنہوں نے خود کرکٹ کھیلی ہو اور t20 ورلڈکپ کے محرکات کا جائزہ لیں جو لوگ کی سازش میں ملوث ہیں ان کء لیے سزا مقرر کریں ابھی بھی ٹائم ہے کہ کرکٹ کی زباں خالی کو سنبھال لیں ورنہ پاکستان میں کرکٹ کا نامو نشان بھی باقی نہیں رہے گا۔