تحریر: سید انور محمود کرکٹ ورلڈ کپ کے حساب سے بہت سارئے اتفاقات چل رہے ہیں، مثلا 1992ء اور 2015ء کے کپتانوں کی عمریں چالیس سال ہیں، دونوں کا تعلق میانوالی سے ہے اور 1992ء اور 2015ء کے کرکٹ ورلڈکپ کے وقت ملک کے وزیراعظم نواز شریف تھے اور ہیں ، تو اسکو کیا کہا جائے کہ 1992ء اور 2015ء میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کے وقت بھی وزیراعظم نواز شریف ہی تھے اورہیں۔ اب یا تو نواز شریف کی قسمت میں یہ برائی لکھی ہوئی ہے کہ ایم کیو ایم کیخلاف جب بھی کوئی بڑا آپریشن ہو وہی ملک کے وزیراعظم ہوں یا پھر الطاف حسین کی قسمت میں یہ لکھا ہوا ہے کہ جب بھی نواز شریف ملک کے وزیراعظم ہونگے ایم کیو ایم کیخلاف آپریشن ہوگا۔ 1992ء کے آپریشن کے وقت نام نہاد جناع پور کے نقشے برآمد کیے گئے جنکوبعد میں خود جنرلوں نے بوگس قراردئےدیا جبکہ2015ء میں کہا گیا کہ نیٹو کا چوری کیا ہوا اسلحہ برآمد ہوا ہے جسکے متعلق چند ہی گھنٹوں میں امریکی وزارت خارجہ کی طرف سے تردید کردی گئی کہ ایسا ناممکن ہے۔ سارئے اتفاقات کے باوجود ہماری دعا ہے کہ 1992ء میں سابق وزیر اعلی سندھ جام صادق علی کے فوت ہوجانے کا واقعہ دوبارہ نہ ہو اور 2015ء میں سندھ کے وزیراعلی قائم علی شاہ سلامت رہیں، اسطرح ہی 1992ء میں ایم کیوایم کے مرکز سےپھانسی کے مجرم یا درجنوں انسانوں کے قاتل نہیں پکڑئے گئے تھے لیکن2015ء میں بھاری اسلحہ کے ساتھ پھانسی کے مجرم اور رینجرز کے مطابق درجنوں انسانوں کے قاتل بھی پکڑئے گئے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن میں 1992ء اور 2015ء میں بہت فرق ہے۔
آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر موجودہ منصب پر آنے سے پہلے ڈی جی رینجرز کراچی تعینات تھے، آٹھ نومبر2014ء کو جنرل رضوان اختر نے آئی ایس آئی کے سربراہ کی ذمہ داریاں سنبھالی تھیں، آٹھ نومبر2014ء سے آٹھ فروری 2015ء کے درمیان جی ایچ کیو نے کراچی کے حوالے سے دواہم فیصلے کئے ایک تو انہوں نے سیاست اورجرائم کو الگ تناظر میں دیکھا اور دوسرا سیاسی عسکریت پسندی کو بھی الگ درجے میں تقسیم کیا، جنرل رضوان اختر نے ڈی جی رینجرز کی حیثیت سے کہا تھا کہ ’’اگر کراچی میں امن لانا ہے تو سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز ختم کرنا ہوں گے‘‘ کراچی کے بارے میں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے سوموٹونوٹس پرآئی جی سندھ پولیس نے چیف جسٹس آف پاکستان کے روبرو کہاتھا کہ پولیس کے چالیس فیصد اہلکار جن میں ایس ایس پیز، ڈی ایس پیز بھی شامل ہیں ان کی بھرتیاں سیاسی بنیادوں پر ہوئیں، اسی لئے اعلی عہدیداروں کا ایسے بھرتی شدہ افسروں پر کوئی کنٹرول نہیں ہے،اسی طرح سندھ رینجرز نے چیف جسٹس کو بتایا تھا کہ کراچی میں جرائم پیشہ گروہ سیاسی سرپرستی میں کام کررہے ہیں، اسی لئے ایسے گروہوں پر جب بھی ہاتھ ڈالاجاتاہے توایک محشر برپا کردیا جاتا ہے، آنا فاناً شہر بند اور سڑکیں سنسان کردی جاتی ہیں، ان عناصر کو کراچی میں بحالی امن سے کوئی دلچسپی نہیں، ان کی دلچسپی کا محور فقط یہ ہے کہ کراچی میں ان کی بالادستی قائم رہے، کیونکہ اسی وسیلے سے وہ اسلام آباد میں اہمیت پاتے ہیں۔
گذشتہ 30سال سے کراچی خوف کے سائے تلے جی رہا ہے۔ ایم کیو ایم کا وجود کیسے عمل میں آیا اور مہاجروں کے نام پر ایک سیاسی جماعت کیوں بنی اورجو بعد میں مہاجر قومی موومنٹ سے متحدہ قومی موومنٹ بن گئی یہ بڑی لمبی کہانی ہے۔ پاکستان میں کوئی ایک بھی ایسی سیاسی جماعت نہیں ہے جس پر کوئی نہ کوئی الزام نہ ہو، کچھ جماعتوں پر یہ الزام ہے کہ وہ کرپشن میں ملوث ہیں تو کچھ جماعتوں پر یہ الزام ہے کہ وہ دہشت گردوں کی ہمدرد ہیں، کراچی کی 85 فیصد نمایندگی کی دعویدار ایم کیوایم پرتو اُس کی پیدایش کے وقت سے ہی الزامات لگتے رہے ہیں اور آج بھی ایم کیوایم پر ٹارگیٹ کلنگ اور بھتہ خوری کے الزامات سرفہرست ہیں، اس سے کوئی انکار نہیں کہ ایم کیو ایم ایک اسٹریٹ پاور سیاسی جماعت ہےلیکن دو کڑوڑ آبادی والے شہر کراچی میں ایم کیو ایم کی وجہ سے کراچی کے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ کراچی کی 85 فیصد نمایندگی کی دعویدار ایم کیو ایم کی ذمہ داری تھی کہ اس شہر کو مثالی بناتی، اس جماعت کا زیادہ وقت حکومتوں کے اتحادی کے طور پر گذرا ہے لیکن اسکے حامیوں کواس سے فائدہ کی جگہ نقصان پہنچا ہے۔
Pakistan
امریکی محکمہ خارجہ کی کراچی کے حوالے سے2014ء کی رپورٹ نے دو کروڑ کی آبادی والے شہر قائد اور پاکستان کی معاشی سرگرمیوں کے سب سے بڑے مرکز کراچی کو دنیا کے چندخطرناک ترین شہروں میں سے ایک شہر قرار دیا ہے۔ اپنے آپ کو پاکستان کی تیسری بڑی سیاسی پارٹی کہلانے والی جماعت ایم کیو ایم پر بھتہ خوری، ٹارگیٹ کلنگ اور دوسرئے جرائم کے الزامات عام طور پر لگائے جاتے ہیں، اس کے لیڈر الطاف حسین میں نہ تو مستقل مزاجی ہے اور نہ ہی ایک سلجھے ہوئے لیڈر شپ کی علامات۔ یہ الطاف حسین ہی ہیں جو کبھی پاکستان سے علیدگئی کی بات کرتے ہیں تو کبھی پاکستان سے محبت کا یہ عالم ہوتا ہے کہ آرمی چیف کو دہشتگروں سے لڑنے کےلیے اپنے ہزاروں کارکن پیش کیے جاتے ہیں۔ جمہوریت ہوتے ہوئے مارشل لا کی مانگ کرتے ہیں، کراچی میں فوجی آپریشن کا مطالبہ کرتے ہیں اور جب خود آپریشن کی زد میں آتے ہیں تو فوج کے خلاف سخت بیانات کا سلسلہ شروع کردیتے ہیں ۔ تھوڑئے عرصئے پہلے ایم کیوایم رابطہ کمیٹی نے شعبہ شماریات کو ہدایت کی ہے کہ شہر کے عوام کے دکھ درد سے خود کودور رکھنے اور ایم کیوایم کے کارکنان کے بہیمانہ قتل کے واقعات پر خاموشی اختیارکرنے والے تاجروں اورصنعتکاروں کی ایمانداری سے تفصیلات ترتیب دی جائے ۔ بارہ مئی 2013ء کو الطاف حسین نے اپنے سیاسی مخالفین جس میں خاصکرپی ٹی آئی شامل ہے اُس کی ہڈیاں توڑنے اور کراچی کی تین تلوار کو حقیقی تلواروں میں بدل دینے کی دھمکی دی تھی۔ میڈیا تو ایم کیو ایم کے گھر کی لونڈی ہے اسکے باوجود اُسکواکثرنتائج بھگتنے کی دھمکیاں ملتی رہتی ہیں۔ الطاف حسین نے خود ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی پر یہ الزام لگایا کہ رابطہ کمیٹی کے ارکان کراچی کی زمینیں بیچ کر پیسہ کمارہے ہیں۔دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح ایم کیو ایم کا بھی کوئی سیاسی لاحہ عمل نہیں ہے اور کسی بھی طرح کا سیاسی استقلال بھی نہیں ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ یہ ہمیشہ الزامات میں گھری رہتی ہے
اب سے کچھ دن پہلے ہی الیکڑانک میڈیا اور اخبارات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ میں سانحہ بلدیہ فیکٹری از خود نوٹس کیس کے دوران رینجرز نے واقعے میں ملوث ایک ملزم رضوان قریشی کی تفتیشی رپورٹ عدالت میں پیش کردی جس کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بلدیہ ٹائون فیکٹری میں 257 افراد کی ہلاکت کاواقعہ حادثہ نہیں بلکہ قتل تھا۔ رینجرز کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ فیکٹری میں آگ بھتہ کے معاملے پر باقاعدہ منصوبہ بندی سےلگائی گئی جس میں ایک سیاسی جماعت (ایم کیو ایم) ملوث ہے ۔وزیراعظم نواز شریف اس عزم کااظہار کرچکے ہیں کہ کراچی کا امن بحال کیا جائے گا اور بلدیہ ٹائون کے ملزموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا، بلدیہ ٹائون کے سوختہ نصیب 257کارکنوں کی ہلاکتیں یقیناً ہمارے نظام عدل کےلئے بھی آزمائش ہیں اسی ضمن بعض حلقوں کا مطالبہ ہے کہ ملزموں کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلنا چاہیے۔
متحدہ قومی مو وومنٹ کے ہیڈ کوارٹرز نائن زیرو پر رینجرز کے چھاپے کے بعد رینجرز ترجمان کرنل طاہر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں نائن زیرو پر کچھ ٹارگٹ کلرز اور جرائم پیشہ عناصر کی مو جودگی کی اطلاع ملی تھی اس اطلاع پر رینجرز نے چھاپا مارا اور کافی لوگوں کو گرفتار کیا ، گرفتار ہونے والوں میں ایسے لو گ بھی مو جود ہیں جن کو عدالت سے سزائے موت کی سزا مل چکی ہے۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ چھاپے کے دوران ایسا اسلحہ بھی ملا ہے جس کی درآمد پاکستان میں ممنوع ہے۔ ہم تفتیش کر یں گے کہ یہ اسلحہ کس طر ح پاکستان لایا گیا ۔ اور یہ کہاں سے آیا ۔ اس میں میرے ذاتی خیال میں نیٹو کنٹینرز سے چوری شدہ اسلحہ وہ بھی مو جود ہے۔ جس پر سلنسر لگے ہوئے ہیں۔ کرنل طاہر کا کہنا تھا کہ کل دو گھنٹے کی کاروائی تھی اور کسی بھی طر ح کی مزاحمت نہیں کی گئی ہمارے ساتھ تعاون کیا گیا لیکن اسلحہ کا ملنا اور دیگر چیزیں سوالیہ نشان ہےاور اس آپریشن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ۔ بقول رینجرز ترجمان کرنل طاہر کہ اس آپریشن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تو پھر اُنکو معلوم ہونا چاہیے کہ آپریشن کا تعلق خواہ سیاست سے نہ ہو لیکن جس کے خلاف آپریشن ہوا ہے وہ پاکستان کی ایک بڑی سیاسی پارٹی ہے لہذا کرنل طاہر کو اپنے اس ذاتی خیال کو کہ “برآمد شدہ اسلحہ میں نیٹو کنٹینرز سے چوری شدہ اسلحہ بھی شامل ہے” اپنے تک ہی رکھتے تو بہتر تھا، دوسری طرف تحریک انصاف کے رہنماعمران خان اور جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق ایم کیو ایم کے مرکز پر چھاپے کے بعد شاید یہ خیال کررہے ہیں کہ ایم کیو ایم ختم ہوگئی ہے لہذا گرم گرم حلوہ کھانے کی کوشش کررہے ہیں جس سے اُنکو حاصل کچھ نہیں ہوگا۔ نائن زیرو پر چھاپہ کے بعد ایم کیو ایم نے اپنے سخت ردعمل میں رینجرز پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ رینجرز نے نائن زیرو میں سزا یافتہ ملزمان اور بھاری اسلحہ کی موجودگی کی مصدقہ اطلاعات پر چھاپہ مارا تو یہ ایم کیو ایم کے ساتھ کسی قسم کا امتیازی سلوک یا سیاسی انتقامی کارروائی نہیں جیسا کہ ایم کیو ایم کی جانب سے الزام عائد کیا جارہا ہے۔ اگر الطاف حسین کے بقول کراچی میں دہشت گردوں کیلئے کوئی گنجائش نہیں تو انہیں دہشت گردوں کے خاتمے کیلئے حکومت اور سکیورٹی ایجنسیوں کے ہر اقدام کا ساتھ دینا چاہیے ۔اگراس کارروائی میں رینجرز کی جانب سے کوئی غیرقانونی اقدام اٹھایا گیا ہے تو متحدہ کے پاس ان غیر قانونی اقدامات کے خلاف مجاز عدالتوں کے دروازے کھلے ہیں، بس زرا ایک مشکل ہے کہ پاکستان میں انصاف دیر سے ملتا ہے۔ ویسےکرکٹ ورلڈ کپ اور ایم کیو ایم ساتھ ساتھ ہیں 1992ءسے 2015ء تک۔