سانحہ ساہیوال پر عوامی ردعمل کے نتیجے میں بننے والی تحقیقاتی جے آئی ٹی پر متاثرہ خاندان نے اظہارِ عدم اعتمادکیاہے ۔ اور سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے داخلہ بھی جوڈیشل کمیشن کے قیام اور معاملہ فوجی عدالت میں بھیجنے کا مطالبہ کرچکی ہے۔ گرفتار سی ڈی اہلکاروں نے گولی چلانے کااعتراف ہی نہیں کیا ۔ سی ٹی ڈی کی جانب سے واقعے کو لپیٹنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ سانحہ ساہیوال پر سی ٹی ڈی متعدد بار مئوقف بدل چکی ہے۔ جائے وقوعہ کودوگھنٹے میں کلیئر کر دیاگیا ۔ نہ کرائم سین محفوظ کیاگیااورنہ فرانزک ٹیم نے فوراً شواہداکھٹے کیے۔ دوہفتے بعد بھی فائرنگ میں استعمال ہونےوالے ہتھیار غائب ہیں ۔ 72گھنٹوں میں جو جےآئی ٹی رپورٹ آناتھی , تاحال منظرنامے سےغائب ہے۔ مدعی لواحقین کاوکیل نامعلوم دھمکیوں کے بعد کیس سے دستبردار ہو چکاہے۔ زیرحراست اہلکاروں کی شناخت پریڈ متعدد بار ملتوی ہوچکی ہے۔
خوفزدہ گواہان دائیں بائیں ہورہےہیں۔ ورثاء چارمرتبہ نوٹس کے باوجود شناخت پریڈ میں شرکت سے انکاری ہیں ۔ ایک ایک کرکےسانحہ ساہیوال کے تمام ثبوت مٹائے جارہےہیں۔ یہ سب کچھ ہونے کےباوجود وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سےجوڈیشل کمیشن بنانے سےانکار یہ ظاہر کرتاہے کہ دال میں کچھ توضرور کالاہے۔ متاثرہ خاندان کو وزیراعلیٰ پنجاب کے دفتر میں بلاکر کیوں گھنٹوں بٹھایا جارہا ہے ؟؟؟ یہ سب کچھ یقیناً پنجاب حکومت پر انگلیاں اٹھنےکےلیے کافی ہے۔
سی ٹی ڈی وزارت داخلہ کےماتحت ہے, تووزیراعظم عمران خان کیوں خاموش ہیں ؟؟؟ کیا حکومت سی ٹی ڈی کی کارستانیوں پرپردہ ڈالنا چاہتی ہے ؟؟؟ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے 14 اہم ملزمان میں شامل سیکریڑی داخلہ پنجاب ریٹائرڈ میجر اعظم سلیمان کو پولیس اصلاحات کے لیے بنائی گئی کمیٹی میں اہم کردار دے دیاگیا۔
اعظم سلمان کو سیکریڑی داخلہ بنانے پر عوامی تحریک نے عمران خان کو احتجاجی مراسلہ بھی ارسال کیا تھا , جس کا یہ نتیجہ نکلا۔ صرف اتنا ہی نہیں سانحہ ماڈل ٹاون کے ایک اور نامزد ملزم کیپٹن ریٹائرڈ عثمان ذکریا کو بھی گریڈ اکیس میں ترقی مل گئ ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاون پر قومی اسمبلی میں حکومتی وزراء کی دھواں دار تقاریر میں کیےگئے دعووں سے عملی صورتحال بالکل مختلف نظر آتی ہے۔
سانحہ ماڈل ٹاون پر بننے والی جے آئی ٹی نے چار برس بعد جائے وقوعہ کادورہ کرکے تمام شواہد کاجائزہ لیا اورکرائم سین مکمل کیا ۔ ادارہ منہاج القرآن کی دیواروں میں دھنسی گولیوں کونکالا اورچشم دید گواہوں کےبیانات قلم بند کیے ۔ دوسری جانب جےآئی ٹی کو کام سےروکنے کےلیے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر ہوچکی ہے ۔ جس کے سبب خود جےآئی ٹی کاکام بھی کھٹائی میں پڑنےکاامکان ہے۔ راناثناءاللہ جےآئی ٹی میں پیش ہونےسے انکار کرچکےہیں اور شہبازشریف کے بھی پیش ہونےکاکوئی امکان نہیں ہے ۔ سپریم کورٹ کےحکم پربنی جےآئی ٹی کو غیرقانونی قرار دے کرپیش نہ ہونا دراصل ایک تاخیری حربہ ہے , جوکہ شہبازشریف اور راناثناء اللہ کےسانحہ ماڈل ٹاون میں کردارکومزیدمشکوک ثابت کرتاہے ۔
دوسری جانب شہبازشریف کے پی اےسی چیئرمین بننےکےبعد اب ایک اورنامزدملزم خواجہ سعدرفیق پبلک اکاونٹس کمیٹی میں پہنچنے والے ہیں ۔ جہاں ایک جانب سانحہ ماڈل ٹاون اور سانحہ ساہیوال کےمتاثرین انصاف کےلیےدربدر پھر رہےہیں ۔ وہاں سابق حکمران خاندان کو آئے روزرعایتیں مل رہی ہیں ۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کو جیل سے ہسپتال منتقل کردیاگیاہے ۔ میڈیکل بنیادوں پر ضمانت کےلیے نواز شریف نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی اپیل کررکھی ہے ۔ کیا نوازشریف کی علاج کے بہانےبیرونِ ملک روانگی کےلیےراہ ہموارہورہی ہے ؟؟؟ پی پی پی رہنما چوہدری منظور ایک مبینہ این آراو کابڑی سنجیدگی سے دعویٰ کرچکےہیں ۔ گویاکرپٹ اشرافیہ کومراعات اورعام آدمی کوانصاف کےلےدھکے , یہ ہمارےفرسودہ نظام کااصل چہرہ ہے۔
Punjab Police
شہباز شریف کے دورحکومت میں پنجاب پولیس , سی ٹی ڈی , ڈولفن فورس اورافسرشاہی میں سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں کی گئیں لہذٰا وھاں سابقہ حکمران جماعت ن لیگ کے بہت سے ہمدرد اور وفادار موجود ہیں ۔ سانحہ ساہیوال میں مبینہ طور پر ن لیگ کے وفادارسی ڈی ڈی افسران کا ہاتھ ہوسکتا ہے۔ اسی طرح پولیس اصلاحات کمیٹی میں میجر ریٹائرڈ اعظم سلیمان کی موجودگی بھی کمیٹی کے کردار پر سوالیہ نشان ہے۔ ایسی مشکوک کمیٹی اصلاحات کےلیے بھلا کیا تجاویز مرتب کرے گی ؟؟؟ بہتر یہ ہے کہ موجودہ پنجاب پولیس , سی ٹی ڈی اور ڈولفن فورس کو ختم کرکے محمکہ پولیس کےلیے ازسرنو میرٹ پر باصلاحیت اور پڑھے لکھے نوجوانوں کو بھرتی کیا جائے اور انہیں پاک فوج سے پیشہ وارانہ تربیت دلوائی جائے تاکہ سابقہ دورِ حکومت کے اثرات کا تدارک ممکن ہوسکے۔ کیونکہ صرف تقرری اورتبادلےکی پالیسی میں ردوبدل کافی نہیں ہے۔