حیات جرم نہ ہو، زندگی وبال نہ ہو

Pakistan

Pakistan

تحریر: محمد عتیق الرحمن
قیام پاکستان کے وقت پاکستان دوحصوں میں تقسیم تھا ۔جن کے درمیان 1600 کلومیٹر کافاصلہ تھا اور ان دونوں حصوں کے درمیان ہمارا ازلی دشمن بھارت حائل تھا ۔قیام پاکستان میں جتنا مغربی پاکستان کے پاکستانیوں کا ہاتھ تھا اتنا ہی مشرقی پاکستانیوں کا ہاتھ بھی تھا ۔پاکستان کامقصد اسلام کی تجربہ گاہ بنانا تھا تاکہ اسلام کی تعلیمات کے مطابق مسلمانان برصغیر امن وسکون کے ساتھ زندگی گذار سکیں اور اپنی آنے والی نسلوں کو ایک محفوظ گھر فراہم کرسکیں ۔ہندو بنیا ء برصغیر کا ایک ایسا کردار ہے جس نے برصغیر کو ہمیشہ خاک وخون میں غرق رکھا۔قیام پاکستان کے بعد اس کی توپوں کارخ مشرقی ومغربی پاکستان کی طرف ہوگیا۔موجودہ پاکستان میں اس کی سازشیں اتنی کامیاب نہ ہوسکیں جتنی سازشیں اس کی مشرقی پاکستان(بنگلہ دیش )میں کامیاب ہوئیں۔کاروباری معاملات میں اجارہ داری ہونے کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں میں اپنی ذہنیت کے مالک لوگوں کو داخل کروایاگیا اور ہندو ؤں کو کلیدی عہدے قصداََبھی دئیے گئے۔جس کے بعد خطرناک کھیل شروع کیا گیا جس کا انجام پاکستان کے دولخت ہونے کی صورت میں سامنے آیا۔

1971ء میں پاکستان کا دولخت ہونا اتنا بڑا سانحہ تھا کہ آج تک اس کی درد کی ٹیسیں پاکستانی محسوس کرتے ہیں ۔پاکستانیوں نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ سب بھارتی سازش کے تحت ہوا تھا ۔دل پر پتھر رکھتے ہوئے بنگلہ دیش کو نہ صرف قبول کیا بلکہ اس کی دل جوئی کی خاطر اس کا خیال اپنے بھائیوں کی طرح کیا ۔ویسے دنیا بھرمیں اصول ہے کہ اپنی زمین اوراپنے وطن کی حفاظت کرنے والوں کو عزت واحترام سے نوازا جاتا ہے لیکن بنگلہ دیش میں اس کے بالکل الٹ ہورہاہے ۔بنگلہ دیش کہ جس کی زمین پر کبھی سبز ہلالی پرچم بڑی سج دھج سے لہرایا جاتا تھا ۔جب غداروں کی غداری،اپنوں کی بیوفائی اور دشمنوں کی سازشوں کی وجہ سے پاکستان اور پاک آرمی کے خلاف پروپیگنڈے کوہوادی جارہی تھی اور بنگالیوں کی زمین پربنگالیوں کا ہی خون مکتی باہنی کے کارندے بہارہے تھے ۔تب کے محب وطن لوگوں نے اس آگ کو ٹھنڈا کرنے اور ذہنی خلفشار کودورکرنے کی کوشش کی تو بنگلہ دیش بننے کے بعد ان پر بیہودہ ،گھٹیااوراخلاق سے گرے ہوئے الزامات لگا کر مختلف بہانوں سے تنگ کیاجاتارہااور جیلوں میں ڈال کر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جاتے رہے ۔بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد بھارتی وزیراعظم کے نقش پا ء پر اپنے قدم رکھتے ہوئے اس جانب گامزن ہے جس طرف سوائے رسوائی کے کوئی راستہ نہیں ۔بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی جیسی جماعتوں کے لوگ پاکستان کی محبت کی سزا پچھلے 44 سال سے بھگت رہے ہیں ۔غیرملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق جماعت اسلامی کے امیر مطیع الرحمن نظامی کی سزائے موت کی سزابنگلہ دیشی سپریم کورٹ نے قائم رکھی ہے ۔

JI

JI

واضح رہے کہ 2010ء سے بنگلہ دیش میں دوجنگی ٹریبونل کام کررہے ہیں ۔ان ٹریبونل کا مقصد جنگی جرائم کے مقدمات کی سماعت کرنا ہے لیکن آج تک اس نے سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے 71ء کی سازش میں دشمن کا آلہ کاربننے کی بجائے ملک کی حفاظت کرنے کی کوشش کی تھی ۔ان کے خلاف سماعتیں کرنے کے کوئی اورکام نہیں کیا ۔اب تک یہ ٹریبونل 18افراد کوجنگی جرائم میں مجرم قرار دے چکاہے ۔جن میں سے 4 افرادکو پھانسی دی جاچکی ہے ۔جماعت اسلامی کے سابق امیر نوے سالہ پروفیسرغلام اعظم چند روزقبل ہی جیل میں انتقال کرچکے ہیں ۔جن کو سزائے موت سنائی گئی تھی جو بعد میں نوے سالہ قید میں بدل دی گئی ۔امیر جماعت اسلامی کے امیرمطیع الرحمن نظامی کو جنگی ٹریبونل نے 16مختلف الزامات میں مجرم قراردیتے ہوئے سزائے موت کی سزا دی تھی جسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا ۔لیکن بنگلہ دیشی سپریم کورٹ نے حسینہ واجد کے نمک کو حلال کرتے ہوئے اس فیصلے کو برقرار رکھا اوراب کسی بھی وقت نظامی کو پاکستان سے محبت کی سزا میں پھانسی دے دی جائے گی ۔72سالہ مطیع الرحمن بنگلہ دیش میں 2000ء سے جماعت اسلامی کے امیرہیں ۔2001ء سے 2006ء تک مطیع الرحمن بنگلہ دیش میں وزیر رہ چکے ہیں ۔ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے اس وقت کی رپورٹ کے مطابق مطیع الرحمن کومثالی وزیر اوران کی کاکردگی کوبہترین قرار دیا تھا۔

اندراگاندھی اپنی مجلسوں میں کہا کرتی تھی کہ ’’میری زندگی کا حسین لمحہ وہ تھا جب میں نے پاکستان کو دولخت کیا تھا ‘‘ یہ اسی چانکیہ سوچ کا نتیجہ ہے کہ 1974ء میں پاکستان،بنگلہ دیش اوربھارت کے درمیان ہوئے فیصلے کو پس پشت ڈال کر ان لوگوں کو پھانسیاں دی جارہی ہیں جو اس وقت البدروالشمس کی صورت میں پاکستانی زمین کی حفاظت کررہے تھے ۔نومبر میں دی گئی پھانسیوں کے بعد بنگلہ دیشی عوام نے حکومت مخالف احتجاج کیا تھا جسے ہنگاموں میں بدل کرتشدد کی راہ پر ڈال دیاگیا جس کے نتیجے میں 500 کے قریب افراد ہلاک ہوئے تھے ۔ بدھ کے روز سپریم کورٹ کے سنائے گئے فیصلے کے تناظر میں سیکیورٹی کوہائی الرٹ رکھا گیا ۔مطیع الرحمن نظامی پر البدر محب وطن پاکستانی گروپ میں شمولیت کے ساتھ ساتھ تشدد،قتل ،جنسی زیادتی اور شخصیات کو قتل کرنے کی سازش جیسے الزامات ہیں ۔حالانکہ 74ء میں ہونے والے سہ ملکی معاہدے میں یہ لکھا گیا تھا کہ 71ء والے واقعے کے کرداروں پر مقدمہ درج نہیں کیا جائے گا ۔اس معاہدے پر پاکستان کی طرف سے ذوالفقارعلی بھٹو ،بنگلہ دیش کی طرف سے شیخ مجیب الرحمن اور بھارت کی طرف سے اندرا گاندھی نے دستخط کئے تھے اوراس معاہدے کو بین الاقوامی طور پر بھی تسلیم کیا جاچکا ہے ۔دسمبر 2013ء سے لے کراب تک 3 جماعت اسلامی کے رہنماؤں کو اور ایک ملک کی مرکزی اپوزیشن کے رہنما کو پھانسی دی جاچکی ہے ۔

LA ILAHA ILL-ALLAH

LA ILAHA ILL-ALLAH

ان سب واقعات میں پاکستان خاموش تماشائی نہیں رہ سکتا ۔ان سب کا جرم صرف اور صرف پاکستان سے محبت تھی۔اور آج بھی بنگلہ دیشی عقوبت خانوں میں کئی ایسے لوگ موجود ہیں جن کا جرم ’’لاالہ الااللہ‘‘ کے نام پر بننے والی ریاست سے محبت ہے ۔پاکستانی حکومت کو چاہیئے کہ اس مسئلے کو لے کربنگلہ دیش کے ساتھ بھرپور احتجاج کرنے کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ میں اس مسئلے کو اٹھا ئے ۔اگر پاکستانی حکومت نے اس مسئلے کو دیگر مسائل کی طرح سمجھتے ہوئے چشم پوشی اختیار کی تو کل کو یہ معاملات ہمیں حالات کی سنگینی دکھائیں گے ۔خدا نخواستہ اگر بلوچستان میں بھارتی سازشیں کامیاب ہوجاتیں تو موجودہ بنگلہ دیشی حالات دیکھتے ہوئے قارئین سوچیں وہاں پر ہمارا مقدمہ کون لڑتا ؟کون پاکستان کے حق میں سینے پر گولیاں کھاتا؟کون بھارتی مکتی باہنی تنظیم کے سامنے سینہ سپر ہوکر بھارتی سازشوں کو ناکام بنانے کی کوشش کرتا؟۔یہ سوالات ذرا ذہن میں رکھتے ہوئے موجودہ حکومت کا کردار دیکھیں ۔میں یہاں پاکستانی عوام کی بات نہیں کررہاکیونکہ عوام مذہب کے نام پر اکٹھی ہوتوسکتی ہے لیکن چل نہیں سکتی ۔مذہبی جماعتیں اپنا کرداراداکررہی ہیں لیکن ان کے کردار کو دیکھنے والاکوئی نہیں ۔نومبر میں بنگلہ دیش میں ہونے والی پھانسیوں پر پورے پاکستان میں مذہبی جماعتوں نے بھرپور احتجاج کرنے کے ساتھ ساتھ شہداء پاکستان کے غائبانہ جنازے بھی اداکئے تھے ۔حکومت وقت کو آگے بڑھ کر بنگلہ دیشی حکومت کو متنبہ کرنا ہوگا تاکہ پاکستان کی محبت میں مجرم ٹھہرانے والوں کو باعزت طور پر بری کیا جاسکے ۔یہ پاکستان کا اصولی ومذہبی فرض بھی ہے اور ہماری عوام کی امنگوں کی ترجمانی بھی ۔

Muhammad Atiq ur Rehman

Muhammad Atiq ur Rehman

تحریر: محمد عتیق الرحمن
03216563157