تحریر : خان فہد خان چندروز پہلے کی بات ہے کہ سماجی رابطے کی ویب سائیٹ فیس بک پر ایک ویڈیو پر نظر پڑی جس میں ایک پولیس اہلکار کے گرد کافی لوگ جمع تھے ۔کچھ خلاف معمول صورت حال معلوم ہو رہی تھی تو میں نے وڈیو پلے کر دی۔اس ویڈیومیں ایک پولیس اہلکار اونچی آواز میں رو تے ہوئے کہہ رہا تھا کہ میں نے ایم فل کیا ہوا ہے بی ایس کر رہا ہوںمحکمہ ایجوکیشن نے میرے چار جگہ تبادلے کیے مجھے مجبور کیا کہ میں استعفی دوں۔ واپس محکمہ پولیس میں چلا گیا لیکن میری سات ماہ سے تنخواہ روکی ہوئی ہے نہ محکمہ تعلیم تنخواہ جاری کر رہا ہے نہ محکمہ پولیس میرا جرم بس یہ ہے کہ میں نے میرٹ کیلئے آواز اٹھائی ہے ۔مزید کچھ اور بھی پولیس والا کہہ رہا تھا جو میرے سمجھ میں نہ آسکی خیر اس وڈیو کو دیکھ کر مجھے رونا آگیا کیونکہ میں نے کبھی کسی پولیس والے کو اس طرح روتے اور اتنا مجبور و لاچار نہیں دیکھا تھا۔میں تو یہ سمجھتا تھا کہ صرف پرائیویٹ اداروں میں ملازمین کو ذلیل و خوارکیا جاتا ہے لیکن یہاں تو سرکاری اداروںمحکمہ ایجوکیشن اور محکمہ پنجاب پولیس نے محمددین جیسے پتا نہیں کتنے ملازمین کا احتصال کیا جارہا ہے اور ان کو فاقوں پر مجبور کیا ہوا ہے۔دو دن ہی گزرے تھے رات کے وقت حسب معمول پھر فیس بک پر وقت برباد کر رہا تھا کہ اسی پولیس والے کی ایک اور ویڈیوپر نظر پڑی جس میںوہی پولیس اہلکار کسی تھانے میں اپنے ہتھیار اور بچوں کے ساتھ کھڑا ہو کر اپنے ساتھ ہونے والی نا انصافیوںکی تفصیل بیان کر رہا تھا۔
اس ویڈیو میں دین محمد نامی پولیس اہلکار کہہ رہا تھاشرم کرو میری تنخواہ کو روکے سات ماہ ہوگئے ہیں اور میرا بجلی کا میٹر بھی واپڈا والے کاٹ کر لے گئے ہیں۔گھر میں راشن نہیں ہے آکیڈمی والوں نے بچوں بھگا دیا ہے،میرے معصوم بچوں کا دودھ بند کر دیا ہے ۔ میرا قصور یہ ہے کہ میں میرٹ پر آواز اٹھائی،یہ میرٹ صرف دھونگ ہے وزیر اعلیٰ صاحب آپ پرائمری ٹیچر کیلئے اپنی درخواست جمع کروائیں آپ پرائمری ٹیچر نہیں لگ سکتے ۔اتنے سخت پالیسی اور میرٹ بنا دیا گیا ہے کہ لوگوں کے بچے ڈگریاں لینے اور این ٹی ایس پاس کرنے کے باوجود بھی بے روزگا ہیں جس سے صرف غریب کے بچے کا احتصال ہو رہا ہے وہ آپ کی پالیسیوں سے تنگ آ کر جرائم پیشہ عنا صر میں شامل ہو رہے ہیں ۔خدا کا خوف کرو میں اکیلا نہیں ہزاروں ایجوکیٹرز کو چھ چھ سات ،سات ماہ سے تنخواہیں نہیں ملی بڑے خادم اعلیٰ بنے پھرتے ہو۔ابھی اتنی ہی ویڈیو دیکھی ہے کہ مجھے ٹینشن لگ گئی اس کی تو شامت آگئی یہ تو گیا کام سے ۔آخر میں بھی اس ملک کا باسی ہوں مجھے بھی پتا چل گیا تھا کہ مغل اعظم کی شان میں گستاخی ہو گئی ہے۔
اس کے علاوہ بھی کچھ سخت الفاظ کا محمد دین (پولیس کانسٹیبل)نے استعمال کیے لیکن اس کی پریشانی درد اور غم کے سامنے یہ الفاظ کچھ بھی نہیں تھے۔اگرکوئی اور ہوتا جس کی سات ماہ کی تنخواہ روکی ہوتی تو شاید اخلاقیات کے حدود بھی بھول جاتا۔ بہر حال اس کی یہ سب باتیں اس کے جذبات نے مجھے کافی پریشان کیا کیونکہ اس کی سب باتوں سے مجھے اتفاق بھی تھا اور اس سے ہمدردی ہو گئی۔پھر ہواوہی جس بات کا ڈر تھا ایک رات ہی گزری ہے اگلی شام چھ بجے کا خبر نامہ سن رہا تھا کہ اچانک ٹیکر چلا کہ بہاول پور کے کانسٹیبل کو آواز اٹھانا مہنگا پڑ گیا ۔تفصیلات میں بتایا گیا کے ڈی ایس پی نے اپنی پارٹی کے ہمراہ محمددین نا می کانسٹیبل کو مسجد میں تشدد کا نشانہ بنایا گیاجس کے بعد اس کو وکٹوریہ ہسپتال منتقل کر دیا ۔خبر سن کر مجھے نہایت افسوس ہوا کہ اتنی جلدی تو محکمہ پولیس قاتلوں ،ڈاکووں،اغواء کاروںاور دہشت گرد وںتک بھی نہیں پہنچتی جتنی جلدی اس بچارے بھوک کے مارے اس ملک کی بے تُکی پالیسیوں سے ہارے نہتے پولیس اہلکار کو مسجد میں دبوچ لیا گیا۔
اس پاک وطن کو چیلنج کرنے،توڑنے کے دعوے کرنے، املاک کو نقصان پہنچانے اور ہم سب کا سکون برباد کرنے والے غداروں اور دہشت گردوںکو تو ٹیبل ٹاک کی دعوت دی جاتی ہے ۔ ان کو قومی دھارے میں لانے اور سنہرے مستقبل کے خواب دیکھائے جاتے ہیں لیکن اس محمد دین جو پیٹ کی آگ ،بچوں مستقبل کے داوں پر لگ جانے اور بادشاہوں کی پالیسیوں کے خلاف چلاتے ہوئے سخت الفاظ بول گیا تھا تو کونسی بجلی گر پڑی تھی ۔اس غریب کانسٹیبل کی فریاد پر کسی نے کان نہیں دھرے اسکی پریشانی اور دکھ کو کسی نے محسوس نہیں کیا کسی نے محمد دین کی دادرسی نہیں بلکہ اس کو کار سرکار میں مداخلت پرمجرم بناآرپی او کی ہدایت پراس کے خلاف مقدمہ درج کر دیا گیا ۔جرم شاید یہ تھا کہ اس نے میرٹ کی بات ؟ جرم یہ تھا اس نے اپنی تنخواہ نہ ملنے کا شکوہ ساری دنیا کہ سامنے بیان کیا؟جرم شاید تھا کہ اس نے وزیر اعلیٰ کو پرائمری ٹیچر کے قابل نہیں سمجھا؟جرم شاید یہ تھا کہ اسکو بھرتیوں کی پالیسی سے اختلاف تھا؟ جرم شاید یہ تھا کہ وہ عام لوگوں کے میرٹ کے نام پر حق تلفی کی بات کر رہاتھا۔۔۔۔؟لیکن بے حد افسوس کی بات ہے کہ پہلے ہی اس کے گھر میں فاقوں اور بھوک کا رقص چل رہا ہے ۔ اب سرکار کی مدیت میںمقدمہ بھی چل پڑا ہے۔
نوکری بھی خطرے میں چلی گئی ۔ایک آدمی کو اپنے حق محنت اور میرٹ کی بات کرنے پر حکومت یا ادارے کی کوتاہی کو سرعام بیان کرنے پر اس کے دکھ کے مداوا کرنے بجائے اس کو تشدد کر کے جواب دیا جا رہا ہے ۔پھر اس غریب سے بہتر تو طالبان اور بلوچستان کے باغی ہیں جنہوں نے حکومت کی رٹ چیلنج کی ہوئی ہے اور فورسز کے خلاف ہتھیار اُٹھائے اور حکمران اور افسران انکوبھائی کہتے ہیں ان کو ٹیبل ٹاک مذاکرات کی دعوت دیتے ہیں اور مذاکرات کیے بھی جاتے ہیںمگر اس کانسٹیبل کو اپنے حق کی بات کرنے پر تشدد کا نشانہ بنا گیا ہے ۔یہ سب کچھ جمہوریت پسند( مغل بادشاہ )حکمرانوں کے حکم پر ہو رہا ہے کہ ایک پولیس اہلکار کو حق مانگنے اور پالیسیوں سے اختلاف پر تشدد اور مقدمے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ہم ایک جمہوری ملک کے دعوے دار ہیں جس میں عوام کو حکمرانوںسے سوال کرنے،انکی قائم کردہ پالیسیوں سے متعلق اختلاف کرنے، نظام،پالیسیوں میں تبدیلی کی بات کرنے اور اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کرنے کا حق حاصل ہے لیکن یہ عجب جمہوریت ہے جہاں جمہور کی آواز کو اُٹھنے سے پہلے ہی دبا دیا جاتاہے۔
اس کانسٹیبل کو ہمارے حکمران نشان عبرت بنانے کی کوشش کریں گے تاکہ کسی اور کی ہمت ہی نہ ہو کہ وہ بادشاہت کے خلاف یا اپنے حق کیلئے آواز اآٹھا سکے ۔لیکن یہ طرز حکمرانی جمہوری کے نام پر دھبہ ہے اوربے حد افسوس کا مقام ہے ان جمہوریت پسند حکمرانوں کیلئے جومیٹروں،اورنج لائن،گرین لائن ،موٹروے، سڑ کیں، اور پل بنا کر عوام کی خدمت کے دعوے کرتے پھرتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس ملک وقوم کے محافظ اورمعمار کو انکی اجرت بھی وقت پر ادا نہیں کی جاتی وہ فاقوں پر مجبور ہیں اپنے حق و انصاف کیلئے سڑکوں پر روتے نظر آتے ہیں۔