شہر اقتدار میں دن بھر مختلف تقریبات میں شرکت کے بعد میاں ارشد کی رہائش گاہ پر پہنچا، کچھ وقت کے لیے آرام کی نیت کی اور ٹی وی کا سوئچ آن کیا تاکہ حالات حاضرہ کا جائزہ لیا جاسکے ۔ نجی نیوز چینل پر ساہیوال میں سی ٹی ڈی کی کاروائی کے دوران دہشت گرد قرار دے کر ایک ہی خاندان کے تین افراد سمیت چار افراد کو مقابلہ میں پار کرنے کی خبر چل رہی تھی واقعہ اوکاڑہ ٹول پلازہ سے چند کلومیٹر دور قادر آباد کے قریب پیش آیا تھا جہاں پر سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے ایک گاڑی کو روک کر جس میں 3معصوم بچے ان کی 15سال کی بڑی بہن ،ماں ،باپ اور باپ کا دوست سوار تھے ان پر فائرنگ کردی جس سے چاروں بڑے جان کی بازی ہار گئے،جن کو تبدیلی سرکار کے صوبائی وزیر قانون راجہ بشارت سمیت ہر کوئی اس فیملی کا تعلق،، داعش،،سے جوڑ رہے تھے ہر ٹی وی پر مختلف خبر چل رہی تھی ۔لیکن جہاں پر سوشل میڈیا کی بہت سی خرابیاں ہیں وہاں بہت سارے لوگوں کو انصاف دلانے میں بھی اس کا اہم کردار رہا ہے، سوشل میڈیا کے ذریعے 3معصوم بچوں کی ایک پڑول پمپ پر والدین کے خوب میں لت پت بچوں کی تصویر بھی چل رہی تھی جو کسی بھی اولاد والے کے دل کو ہلا کررکھ دینے کے لیے کافی تھی۔
ساہیوال میں موجود مقامی ساتھیوں سے رابطہ کیا تو کہانی ہی مختلف سننے کوملی انہوں نے بتایا کہ یہ فیملی لاہور سے اپنے عزیز کی شادی پر وہاڑی جارہی تھی کہ سی ٹی ڈی والوں نے روکتے ہی فائرنگ کردی والدین نے چھوٹے بچوں کو کیوں کہ اپنے نیچے چھپالیا تھا اس لیے وہ زندہ بچ گئے پولیس والوں نے بعد میں بچوں کو گاڑی سے نکال کر قریب ہی ایک پٹرول پمپ پر چھوڑ دیا اور خود فرار ہو گئے، سارا واقعہ بے نقاب ہو چکا تھا لیکن اس کے باوجود حکومت اور پولیس ،سی ٹی ڈی کسی صورت اپنی غلطی تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھے۔
معصوم بچے کے خون آلود کپڑے اور ہاتھ میں دودھ والا فیڈر تھاجس نے پوری قوم کو ہلا کررکھ دیا تھا ہر انسان غمگین تھا جیسے یہ بچے اس کے ہی ہوں ۔ وزیر اعظم پاکستان نے ذمہ داران کے خلاف سخت ترین کارروائی کا ٹو یٹ بھی کردیا ،وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار فوری ساہیوال ڈی ایچ کیو ہسپتال پہنچ گئے جہاں انہوں نے سی ٹی ڈی کے اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کرکے ان کو گرفتار کرنے کا حکم دیا ملزمان گرفتار بھی ہو گئے، وزیر اعظم پاکستان بچ جانے والے بچوں سے ملاقات کے لیے ان کے گھر لاہور پہنچے اور بچوں کی مالی امداد کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیم کے اخراجات حکومت کی طرف سے دینے کا اعلان کیا اور خاندان کو مکمل انصاف کی فراہمی کا وعدہ بھی کیا ۔ذمہ داروں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی بھی ان بچوں کے غم کا مداوہ تو نہیں تھا لیکن مکمل انصاف دوسرے لوگوں کے ساتھ ہونے والی ریاستی اداروں کی زیادتی کو روکنے میں تو اہم کردار ادا ضرور کرتا ہے واقعہ کی اعلیٰ سطحی انکوائری تو ہوئی لیکن کسی بڑے آفیسر پر نہ تو مقدمہ درج نہ ہی انکوائری میں ان کو ذمہ دار قرار دیا گیا بلکہ آج تک اس انکوائری کو پبلک ہی نہیں کیا گیا انصاف کے نام پر ووٹ لینے والے عمران خان کے تمام تر وعدے جھوٹے نکلے جس دن ساہیوال واقعہ کا عدالت نے فیصلہ سنایا تھا کہ تمام ملزمان کوعدم ثبوت کی بناء پر باعزت بری کردیا جاتا ہے۔
اس دن وہ ملزمان ہی جیل سے نہیں نکلے بلکہ وہ تحریک انصاف کے انصاف کے وعدوں کا جنازہ تھا جو بڑی دھوم سے نکلا تھا، اس دن ہم جیسے جو تحریک انصاف اور عمران خاں کے ذریعے تبدیلی دیکھ رہے تھے ان کے تمام خواب ہمیشہ کے لیے چکنا چور ہو گئے۔ عمران خان نے آج تک جو بھی وعدے کیے وہ کبھی نہ وفا ہوئے نہ ہوتے نظر آرہے ہیں اس وقت دل کئی روز تک پریشان رہا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ وہ غم بھی مصرفیات کی نذرہو گیا ۔موجودہ حکومت کو ہر شعبہ زندگی میں بری طرح ناکامی کا سامنا ہے ، ریاست مدینہ کے نام پر جو قوم کے ساتھ ہو رہا ہے اس کی ماضی میں کو ئی مثال نہیں ملتی، مشیروں کا لشکر وزیر اعظم پاکستان کو یہ بات نہیں سمجھا سکتا کہ لنگر خانے اور امدای رقم مسائل کا حل نہیں ہے۔
ملک میں انصاف اور قانون کی حکمرانی کا جو حشر ہے اس سے ہر شہری پریشان ہے،سانحہ گجرپورہ موٹر وے پر معصوم بچوں کے سامنے جس طرح خاتون کے ساتھ درندگی ہو ئی ہے اس واقعہ نے سانحہ ساہیوال کی یاد تازہ کردی ہے اگر ساہیوال سانحہ میں معصوم بچوں کے سامنے والدین کو قتل کرنے والوں کو چوک میں لٹکا دیاجاتاتو آج یہ درندگی کسی صورت نہ ہوتی، وہ کتنا تکلیف دہ منظر ہوگا جب معصوم بچوں کے سامنے بے بس ماں کو درندے نوچ رہے ہوں گے ،میر ا ایمان ہے کہ روز قیامت اس کا حساب ان درندوں نے تو دینا ہی ہے لیکن حکمران وقت بھی اس کا حساب دیں گے، مگر حکومت کی ناکامی اور ناانصافی کا حال تو یہ ہے کہ آئی جی پنجاب کی قربانی دے کر حاصل کیا ہوا سی سی پی او اس قدر طاقتور ہے کہ اس کے خلاف ابھی تک وزیر اعلیٰ سمیت کسی نے ایک حرف تک نہیں کہا۔ سابقہ حکومت میں جو کام 10 روپے رشوت دے کر ہو جاتا تھا وہ اس حکومت میں 50روپے کی رشوت میں ہوتا ہے جس پر ارکان اسمبلی بھی چیخ رہے ہیں لیکن کوئی سننے والا ہی نہیں۔
خان صاحب کا کوئی ایسا مشیر نہیں ہے جو ان کو بتائے کہ 22سالہ جدوجہد کے بعد اقتدار کی کرسی پر بیٹھنے والے شخص کو وہ تمام وعدے اور عوامی مسائل جن میں ناانصافی صفحہ اول پر تھی،تبدیلی کا نعرہ لگا کر حکومت میں آئے تھے ۔ خاں صاحب جو بھی کرلیںجب تک شہریوں کو جان ومال کا تحفظ نہیں دیا جائے گا اس وقت تک تمام کام بے معنی ہیں ۔ عوام کو دو وقت کی روٹی اور بلاتفریق انصاف کی ضرورت ہے اگر انصاف اور قانون کی حکمرانی نہ ہوئی تو خان صاحب سانحہ ساہیوال اور گجرپورہ کے لیے ہمیں ہر وقت تیار رہنا ہو گا۔