جسے کہو کہ بھائی اولاد کم پیدا کرو اس کی تربیت کرنی پڑتی ہے تو جوابا ایک سیدھے سادھے سامنے نظر آنے والے حال احوال کے باوجود ہمارے ہاں جاہلانہ بحث کا آغاز کر دیا جاتا ہے۔ پچیس سال سے میں خود اسی بات پر دلائل دیتے دیتے عاجز آ چکی ہوں لیکن اکثریت کے بھیجے میں اپنی بات نہ اتار سکی۔ برسوں سے لکھ لکھ کر تھک چکی ہوں کہ بنا تعلیم تو شاید انسان ہنر کے زور پر زندگی گزار لے لیکن بنا تربیت کے انسان کا معاشرے میں مقام وہی ہے جو جنگل میں درندوں کا ہوتا ہے ۔ یعنی چیرنا پھاڑنا اور کھا جانا ۔
آج وہی سب کچھ حرف بحرف سچ ثابت ہو رہا ہے ۔ بچوں کی لائنیں تو لگا لیں لیکن نہ انہیں پیٹ بھر روٹی دے سکے نہ ہی کوئی آسائش اور ویسے بھی ہمارے ہاں بچے محبت سے نہیں بلکہ ایک دوسرے پر اپنا غصہ نکالنے کے لیئے پیدا کیئے جاتے ہیں ۔ عورت سمجھتی ہے کہ وہ اپنے مرد کو اس بوجھ کے نیچے دبا رہی ہے اور وہ اس سے بھاگ خر کہیں نہیں جا سکتا اور مرد سمجھتا ہے کہ وہ اولاد کی لائنیں لگا کر اپنی عورت کی مت مار رہا ہے تاکہ اسے کچھ اور سوچنے سمجھنے کی سدھ بدھ ہی نہ رہے اور وہ جو گل چاہے کھلاتا ۔ نتیجتا دونوں ہی اپنے گھر میں آج کی نسل کی صورت جنگلی درندوں کا جھنڈ پروان چڑھا رہے ہیں ۔ ایسے سانپ پال رہے ہیں جو انکو ہی ڈس کر خود کو زندہ رکھنا جانتے ہیں ۔ کیونکہ اسکے سوا وہ خود رو جھاڑ جھنکار اور درندے کسی سے کچھ سیکھ ہی نہیں سکے ۔
والدین کے خون پسینے کے مال پر نظریں گاڑے گھر کے ڈاکو ۔ انکی اپنی اولادیں ۔ والدین کے آپسی جھگڑوں اور جہالتوں نے وہ نفسیاتی مریض اولادیں پیدا کی ہیں ۔ جنہیں نہ تو ڈھنگ کی تعلیم ملی اور نہ ہی باحیا باادب گھر کا ماحول ملا ‘ نہ ہی والدین خصوصا ماں کی جانب سے کوئی بھی تربیت ملی تو ایسے میں ہم نے جو جنگلی جانور اپنے ہی گھروں میں پروان چڑھا لیئے تو اس کا انجام وہی ہونا تھا جو آج گلی گلی دکھائی دے رہا ہے ۔ اولادیں والدین سے ایسے بات کرتی ہیں جیسے کبھی کوئی اپنے ملازم سے بھی بات نہیں کرتا تھا ۔ اور تو اور والدین سے مارپیٹ اور اب تو انکے قتل کی وارداتیں بھی روزمرہ کا معمول بنتی جا رہیں ۔
والدین کے مال پر اولادیں یوں نظریں گاڑے بیٹھی ہیں جیسے ان کو پیدا کرنا ان کے والدین کا حقیقی جرم ہے جس کا تاوان انہیں ہر صورت ادا کرنا ہے ۔ جیسے یہ اولاد نہ ہو بلکہ “نکال دو جو کچھ تمہارے پاس ہے ” کہہ کر لوٹ لینے والے ڈاکو ہوں ۔
ہمارے ہاں بگڑتا اور تباہ ہوتا ہوا سماجی ڈھانچہ شدت سے اس بات کا متقاضی ہے کہ جائیداد کے لیئے وراثت کے قوانین میں فوری اور قابل عمل تبدیلیاں لائی جائیں ۔ ان قوانین کو بہت آسان ، اور قابل عمل ہونا چاہیئے ۔ والدین ساری عمر کی محنت شاقہ کے بعد سر پر ایک چھت یا پیروں کے نیچے زمین بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں ۔ اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر اپنی اولاد پالتے اور جوان کرتے ہیں کہ کل کو وہ ہماری عزت اور گھر بار میں اضافے کا باعث بنیں گے لیکن ان کمزور اور بوسیدہ قوانین کے طفیل گھر گھر یہ ہی جائیداد اور گھر بار اولادوں کی جوانیوں کے بھینٹ چڑھنے لگا ہے ۔ جہاں دیکھیں والدین اپنے ہی گھر کی چھت کے لیئے اپنی ہی کم بخت اولادوں کے ہاتھوں قتل ہو رہے ہیں ۔ کہیں گھروں سے نکالے جا رہے ہیں ۔اپنے ہی والدین کے گھروں پر قبضے کے لیئے کیا بہن اور کیا ہی بھائی، ہر ایک گھات لگائے والدین کی موت کے لیئے منصوبے بنائے بیٹھے ہیں ۔ کہاں کے مسلمان اور کہاں کی اخلاقیات ۔ ہم میں تو اتنی غیرت بھی باقی نہیں بچی کہ اگر ہم شادی کر کے اپنے گھر میں اپنے لیئے جگہ کم سمجھتے ہیں یا ہمیں پردہ اور پرائیویسی کا مسئلہ ہے تو جائیں جا کر کہیں کرائے پر گھر یا کمرہ لیں اور الگ سے اپنی زندگی کا آغاز کریں
لیکن کہاں جناب پھر ہمیں ہمارا “حصہ ” کیسے ملے گا ۔ کون سا حصہ ؟ وہی حصہ جو ہم نے اس ماں کی کوکھ سے پیدا ہو کر اس باپ کے نام سے اپنے نام پیدائشی لمحے میں ہی محفوظ کروا لیا تھا ۔۔۔
کہیں وہ باقی بہن بھائیوں کے قبضے میں نہ چلا جائے ۔ پھر کون سالہا سال عدالتوں میں دیوانی مقدمات میں دیوانہ ہوتا پھرے گا ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ شرعی حصے کو کسی بھی قیمت پر کوئی بھی بہن یا بھائی ضبط نہ کر سکے ۔ اور والدین کسی مخصوص اولاد کو لاڈلا یا لاڈلی بنا کر اس کی جیب بھرنے کے چکر میں باقی اولادوں کو بھی اپنا دشمن نہ بنا بیٹھیں ۔اور ایک ایسا قانون ہونا چاہیئے جس میں اگر اولادیں نافرمان نکلیں یا والدین ان کے خلاف اپنے کونسلر کے پاس یا تھانے میں شکایت درج کروائیں تو اسے پوری سنجیدگی سے لیا جائے ۔ 24 گھنٹے کے اندر اس پر نوٹس لیا جانا چاہیئے اور اس کی انکوائری غیر جانبدار اور نیک نام لوگوں سے کروائی جائے جسے وہ والدین بخوشی قبول کریں اور ایسی اولادوں کو اس گھر سے فورا بیدخل کر دیا جائے اور ان والدین میں سے کسی ایک کی موت بھی مشکوک ہو تو اسی نافرمان اولاد کو سب سے پہلے گرفتار کیا جائے اور ان پر سخت کاروائی کی جائے ۔ تاکہ باقی لوگوں کو عبرت حاصل ہو ۔
شادی شدہ اولاد کو الگ رہنے کا حکم دیا جائے ۔ والدین جسے چاہیں (اپنی اولاد کے سوا بھی) اپنی جائیداد اس کے نام کر سکیں کیونکہ یہ ان کی کمائی ہے یہ ان کا حق ہے کہ وہ اس جائیداد کو کیسے استعمال کریں ۔ اولاد کو اس پر اعتراض کا کوئی حق حاصل نہیں ہونا چاہیئے ۔
صرف یہی ایک طریقہ ہے جس کی وجہ سے اگر اولاد والدین سے کسی فائدے کا لالچ دیکھتی ہے تو اسے اپنے والدین کیساتھ حسن سلواک بھی کرنا ہو گا ۔ تاکہ وہ انکے گھر میں نہیں بلکہ انکی نظر میں رہیں ۔ سکولوں اور مساجد میں بچوں کو ہر روز خاص طور پر حسن اخلاق پر تربیتی سبق دیا جائے ۔
انہیں ذہن نشیں کروایا جائے کہ نیکیاں ہی ہماری آخرت کا توشہ ہیں اور یہ نیکی اسی وقت تک نیکی رہتی ہے جب تک اس میں لالچ کا زہر نہ گھولا جائے۔