جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں

Ishaq Dar

Ishaq Dar

تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر
3جون 2016 ملکی تاریخ کا ایک ایسا تاریخ ساز دن جب پارلیمنٹ کے یخ بستہ ائرکنڈیشن حال میں اگلے مالی سال کے لیے ایک بجٹ نامی بم کی نمائش کی گئی جو اپنے ہدف ملک کے غریب مزدور کو کامیابی سے نشانہ بنا سکتا ہے وہ مزدور جو جون جولائی کی جھلسا دینے والی گرمی میں بھی اپنے کام میں مگن رہتا ہے اپنا اور اپنے خاندان کی ذمہ داریوں کی چھتری اوڑھے دن میں بارہ سے اٹھارہ گھنٹے کام میں جتا رہتا ہے مگر اپنے فرائض کی انجام دہی سے ہر حال میں عہدہ براہ ہوتا ہے ۔بار ہا اس کا قلع قمع کرنے کے لیے حکومتی ایوانوں میں بیٹھے سائنسدانوں نے کئی مہلک میزائلوں سے حملے کیے جن میں الیکٹریکسٹی بل میزائل،گیس بل میزائل،بیروزگاری میزائل ،مہنگائی میزائل،اور دیگر بہت سارے حملے قابل ذکر ہیں ۔مگر یہ نصیبوں جلا مزدور انتہائی ناگفتہ بہ حالت کے باوجود زندہ رہا۔

اپنی تمام تر توانائیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ایک نئے عزم اور ہمت سے خود میں جینے کی امنگ کو قائم رکھتا ہے یہ مزدور ادھر ایوان اقتدار میں بیٹھے ہوئے سائنسدان بھی ہمت ہارنے والے نہیں ہیں وہ بھی اپنی مکمل پیشہ وارانہ صلاحیتوں سے کام لیتے ہوئے نت نئے مہلک ہتھیار ایجاد کرتے رہتے ہیں انہوں نے مصمم ارادہ کر رکھا ہے کے ملک سے غریب ،مزدور،اور محنت کش وجودوں کو ختم کر کے دم لیں گے ۔غربت کا خاتمہ کرنا تو ان کے بس کی بات نہیں آخر کار یہ اقتداری سائنسدان اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ غریب کا ہی خاتمہ بالخیر کر دیا جائے نا رہے گا غریب نا رہے گی غربت ۔ کیا احساس ہو گا اس شخص کو کسی کی غربت اور پریشانی کا جو اگر لاہور سے صرف اسلام آباد کا سفر کرے تو خرچہ بیس ہزار سے زائد ہو جائے صرف تین ساڑھے تین گھنٹے کی مسافت کا خرچہ ہے یہ وہ بھی فرد واحد کا اور دوسری طرف ایک وہ شخص ہے جس نے مہینہ بھر کی مسافت طے کرنی ہے اپنے خاندان کے آٹھ یا دس افراد کی معیت میں اس کے لیے اجرت کا جو تعین حکومتی سائنسدانوں نے کیا ہے وہ14000روپے ماہانہ ہیں۔

مقام حیرت ہے کے وہ شخص کس طرح اس چودہ ہزار سے گھر کو چلائے گا جس کا گھر سے اپنی فیکٹری یا مل کا سفر تقریبادس کلومیٹر ہو روزانہ آنے جانے کے کرائے میں جس کے ساٹھ روپے خرچ ہوں آٹا گھی مرچ مصالحے دودھ دہی سبزی دال صابن سر ف و غیرہ پہ خرچہ روزانہ کے حساب سے کسی بھی صورت 450 یا 500سے کم نہیں لگتا اب خدانخواستہ کبھی اس کا گوشت کھانے کو د ل چاہے تو صرف سوچ سکتا ہے کھانے کی اس میں سکت ہی نہیں ہو گی قارئین درج بالا خرچہ مزدور کے صرف کھانے پینے اورکام پر آنے جانے میں اٹھ جائے گا ۔جو کم و بیش 16800 ماہانہ بنتے ہیں اب اس مزدورنے کپڑا بھی پہننا ہے اپنے بچوں کو پڑھانا بھی ہے خوشی غمی پر آنا جانا بھی ہے بجلی گیس پانی کے بل بھی اس نے ادا کرنے ہیں دکھ اور بیماری کا اسے بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کس طرح کرے گا وہ یہ سب کچھ؟۔

Budget

Budget

کیا اعلی حضرت محترم اسحاق ڈار صاحب جو پورے ملک کا بجٹ ترتیب دیتے ہیں کیا چودہ ہزار روپے میں ایک ایسے مزدور کا گھر کا ماہانہ بجٹ ترتیب دے کر دکھا سکتے ہیں جس میں بندئہ مزدور آسودگی سے اپنے ماہانہ اخراجات پورے کر سکے ؟ یہ ابھی اس مزدور کی بات کرنے کی جسارت کی ہے میں نے جس کے پاس رہنے کو چھت اپنی ہے ۔ایسے بہت سارے غریب لوگ بھی بستے ہیں اس پاک دھرتی پر جن کے پاس رہنے کو اپنا گھر تک نہیں وزیر خزانہ موصوف نے کبھی ان کے حالات کو مدنظر رکھ کر بجٹ بنانے کی کوشش کی ہو جو کرایہ داری کی عفریت کا سامنا بھی کر رہے ہیں ؟یہاں اسی پاک سرزمین پر ایسے لوگ بھی آباد ہیں جن کو کئی کئی دن کام ہی نہیں ملتا کبھی ان کو بھی زیر غور رکھا ہو یہاں میں تگڑی حکومت سے معذرت کے ساتھ ایک عرض کرنا چاہوں گا کہ کیا ہی اچھا ہو اگر ان وزراء کو صرف دو ماہ کے لیے ہر آسائش سے محروم کر کے ایسے گھروں میں رہنے کے لیے کہا جائے جو تین سے پانچ مرلے پر مشتمل ہوں۔

جہاں دن میں بارہ گھنٹے بجلی غائب رہے گیس رات نو بجے کے بعد بند ہو جائے اور ان صاحبان سے کہا جائے کہ لو بھائی جان آپ اور آپ کی مکمل فیملی یہ چودہ ہزار روپے ماہانہ میں یہاں ٹھاٹھ سے رہو اور ہاں اس کے عوض آپ کو ایک فیکٹری میں آٹھ سے بارہ گھنٹے ڈیوٹی سر انجام دینی ہو گی بس ۔میں کہتا ہوں دو ماہ تو بڑی دور کی بات ہے صرف دس دنوں میں آٹے دال کا بھائو معلوم ہو جائے گا ۔جب ڈگریاں ہاتھوں میں لیے نوجوان ساراسارا دن مختلف دفاتر کے چکر لگائے گا اور ہر جگہ سے اسے بڑی بے رحمی سے دھتکار دیا جائے گا تو کیا وہ بدلے کی آگ میں نہیں جلے گا ؟آخر کار ہوگا کیا وہ جرائم کی راہ اختیار کر لے گا جو ملک و ملت کا اثاثہ تھا وہ ایک مجرم کے روپ میں لوٹ مار کرتا دکھائی دے گا اسے مجرم بنایا کس نے معاشرتی ناہمواری اور نا انصافی نے کرپشن اور بدعنوانی نے جب حقدار کو حق نہیں ملے گا تو جرم نمو پائے گا خیر یہ ایک الگ بحث ہے فی الحال تو بات ہو رہی تھی چودہ ہزار روپے میں ماہانہ گھر چلانے کی کہ غریب کی کس بھائو بکتی ہے بیچارے کی ۔ یہ حکمران اور امراء جو ہیں ان کو اس صورت حال سے گزارا جائے تو لگ سمجھ جائے ان کو کہ غربت کس چیز کا نام ہے۔

اوپر سے خادم اعلی پنجاب کا فرمان عالیشان ہے کہ ایک متوازن اور غریب دوست بجٹ ہے کیا کہنے سرکار آپ کے اگر یہ غریب دوست ہے تو غریب دشمن کس کو کہتے ہیں آپ کی نظر میں ؟اسلام میں تو ایک مزدور کم سے کم ماہانہ اجرت زمانہء نبوتۖسے لیکر قیامت تک ہر زمانہ میں ایک تولہ سونے کے برابر مقرر کر دی گئی ہے یہ آفاقی سوچ صرف اورصرف اسلام میں ملے گی کیسا بھی دور ہو اگر ماہانہ تنخواہ ایک تولہ سونے کے برابر ہو گی تو ہر مزدور مکمل طور پہ آسودہ زندگی گزار ر سکتا ہے نا تو اس کے گھریلو اخراجات متاثر ہوں گے نا اس کے بچوں کے تعلیمی سلسلے میں کوئی دشواری درپیش ہو گی نا عزیز و اقرباء سے ملتے ہوئے اسے ہتک محسوس ہو گیاور معاشرے میں وہ سر اٹھا کے فخر کے ساتھ زندگی بسر کرے گا ۔مگر عنان اقتدار کے حامل لوگوں سے جب یہ کہا جائے تو بڑی معصومیت سے جواب دیتے ہیں کہ دیکھیں جی ہمارا ملک ایک ترقی پذیر ملک ہے اتنی اجرت ہم دینے کے متحمل نہیں ہیں ۔تو جناب من گزارش یہ ہے کہ جو گرمی کی تپتی دوپہروں میں اور سردی کے ٹھٹھرتے ہوئے موسم کو خاطر میں نا لا کر وطن عزیز کی ترقی کے لیے شب و روز محنت کرتا ہے اسے اجرت دیتے ہوئے ہم ترقی پذیر اور غریب ملک کے باشندے بن جاتے ہیں۔

Parliament

Parliament

اس کے بر عکس جب ممبران پارلیمنٹ کو ڈیڑھ لاکھ ماہانہ سے سرافراز کرتے ہیں تو اس وقت غریب ملک کی ترقی پذیری کا خیال کہاں چلا جاتا ہے ؟حالانکہ جن کو ڈیڑھ لاکھ ماہانہ ملتا ہے وہ سارے کے سارے بہترین کاروباروں کے حامل ہیں بڑے بڑے زمیندار ہیں وڈیرے ہیں ملوں اور فیکٹریوں کے مالکان ہیں اگر یہ لوگ واقعی سچے دل سے ملک و قوم کی خدمت کو اپنا شعار بنا لیں تو ان کو قومی خزانے سے اتنی ہیوی ڈیوٹی تنخواہوں اور مراعات سے رضاکارانہ طور پر دستبردار ہو جانا چاہیے یہ بات بلا تفریق کسی بھی سیاسی وابستگی کے کر رہا ہوں مگر یہ بھی جانتا ہوں اتنی اخلاقی جرائت کا مظاہرہ کرنے کی ہمت کسی میں نہیں ہے اور نا کوئی ممبر پارلیمنٹ ایسا کرے گا ۔یہی وجہ ہے کہ اس پاک دھرتی کے حقیقی فرزندان ماسوائے غریب اور مزدور کے کوئی دکھائی نہیں دیتے ۔باقی یہ مراعات یافتہ طبقہ تو صرف حکمرانی کا ہما اپنے سر پر دیکھنا چاہتا ہے ۔قسم بخدا میں نے ارض پاک پر رہنے والے دولتمندوں سے بڑھ کر کسی کو مفلس نہیں دیکھا اور اس لازوال دھرتی کے غریبوں سے بڑھ کر کسی کو دریا دل نہیں دیکھا۔

آپ آزما کر دیکھ لیں کہ ملکی ترقی کے لیے ایک ٹافی سے لیکر کسی بھی روز مرہ کی چیز تک ٹیکس ادا کرتا ہے تو غریب ،بجلی گیس پانی کے بلز پر ٹیکس دے تو غریب ،اور بڑے لوگ آپ نے بھی اکثر دیکھے ہونگے جو گیس بجلی پانی کے بلوں پر ٹیکس تو درکنار بل ادا کرنا ہی اپنی توہین گردانتے ہیں اور بہت سارے تو ویسے ہی بجلی گیس کے چور ہیں خواہ حکومت میں ہیں یا اپوزیشن میں بہتی گنگا میں سب ہاتھ نہیں دھو رہے بلکہ اشنان فرما رہے ہیں کروڑوں کے قرضے لے کر معاف کروا لیتے ہیں مفلس جو ہوئے بیچارے ۔آئیے اب ملاحظہ فرمائیں غریب کی دریا دلی اور جذبہء قربانی جو بیچارے انہی حاکمین ملت کے لیے کسی بھی قسم کی قربانی دینے سے گریزاں نہیں ہوتے ان سیاستدانوں کے جلسے جلوس ہوں تو یہی غریب اور مزدور طبقہ دن رات ایک کر دیتے ہیں ان کروڑ پتی نہیں بلکہ ارب پتی فقیروں کی ایک اپیل پر یہ اپنی جان دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے پھر جب یہی سرمایہ دار بھکاری ان لوگوں کے دروازے پر جا کر اللہ کے نام پر ووٹ کا سوال ہے بابا کی صدا لگاتا ہے تو وہ پھر اس آس پر کہ کل کو یہ حکمران بن کر ہماری قسمت بدل دے گا اس سوالی کو خالی نہیں لوٹاتے اور جب دوران الیکشن کہیں کوئی مسئلہ بن جائے تہ اپنی جان تک ایسے صاحبان ثروت پر سے وار دیتے ہیں۔

ابھی چند روز پہلے کی بات ہے جب پاناما پیپرز پر ایک شور بپا تھا کہ یکدم وزیر اعظم کے آپریشن کے لیے قوم سے دعا کی اپیل کی گئی تو سارے وطن کے غریب مزدور پانامہ جیسے گھپلے کو بھلا کر نواز شریف کی صحت کے لیے سراپا دعا بن گئی اس سے بڑھ کر دریا دلی اور سخاوت کیا ہو گی ؟ اور جب بجٹ کی باری آئی تو چھری بھی غریب کے حلقوم پر رکھ دی اور بڑے تفاخر سے یہ نعرہء مستانہ بلند کیا گیا کہ غریب دوست بجٹ پیش کیا گیا ہے واہ کیا کہنے سرکاری سرکار کے چلو اب کے ایسا کر دیکھو کہ وزیراعظم سے لے کر مزدور تک حلفیہ طور پر تمام کے تمام لوگ چودہ ہزار روپے ماہانہ سے اپنے اپنے گھروں کا نظم و نسق چلاتے ہیں اور جن کو چودہ ہزار بھی میسر نہیں ان کو بھی اتنی ہی رقم برابری کی سطح پر دے دیتے ہیں باقی ماندہ ملکی خزانے کی امانت سمجھ کر وطن عزیز کو لوٹادیتے ہیں اگر ایسا ہو جائے کہ حاکم سے لے کر رعایا تک سب کے اخراجات برابر ہوں تو اس دیس میں خوشحالی ہی خوشحالی دکھائی دے ۔مگر افسوس ایسا ہونا ممکن نہیں جن کا ہفتے بھر کا کچن کا خرچہ لاکھوں میں ہو وہ بھلا کیونکر ایسا کریں ؟تو جناب یہ اعزاز بھی اس مادر وطن کے غریب اور مزدور بیٹوں کو ہی حاصل ہے کہ وہ ان حکمرانوں کو بھیک بھی دیں گے اور ان کی بھینٹ بھی چڑھیں گے ۔اور غریب زبان خاموشی میں اپنے رب سے یہ التجا بھی کرتے رہیں گے کہ
زندگی جبرمسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
اور مسند اقتدار پہ بیٹھے ہوئے لوگ بھی یہ بات ذہن میں رکھیں کہ اگر کوئی شخص آپ کی زیادتی یا ظلم سہہ کر خاموش ہو گیا ہے تو اس کا معاملہ اللہ پاک کی عدالت میں چلا گیا ہے اور اس خالق کائنات سے بڑھ کر عدل کون کر سکتا ہے اسکی عدالت کو دنیا کی عدالتیں سمجھنے کی کبھی بھول بھی مت کر بیٹھنا جن کو تم ڈ را دھمکا کر یا خرید کر اپنے حق میں فیصلہ کروا لو گے اب بھی وقت ہے انسان کو انسان سمجھو صرف قربانی لینا ہی نہیں قربانی دینا بھی سیکھو۔

MSH Babar

MSH Babar

تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر
Mobil ; 03344954919
Mail ; mhbabar4@gmail.com