تحریر : عبدالجبار خان دریشک دنیا کی تیزی سے بڑھتی ہوئی کے سا تھ مسائل میں آضافہ ہوتا جا رہا غربت بے روزگاری بیماریاں تعلیم کی کمی ان کی وجہ سے جرائم میں بھی آضافہ ہو رہا ہے مجرم نے جرم کے نئے نئے انو کھیطر یقے اور روپ بدل لئے ہیں عام آدمی کو کچھ پتہ نہیں چلتا جنلو گوں سے ہماراواسطہ پڑتا ہے جوہمیں راستے میں دوران سفر ملتے رہتے ہیں کیا یہ لو گبھی مجر م ہوسکتے ہیںکیا یہ بھی کسی جر م میں ملو ث ہو ں گے کسی کو ان پر ذرہ برابر بھی شک نہیں گزرتا ہے یہ لو گ نئے نئے روپ بدل کر پو لیس کی نظروں سے اوجھل رہنے کی کو شش کر تے ہیںیہ لوگ اپنے بے روپ کی وجہ سے پو لیس کے سامنے بھی ہوں تو کسی کو ان پر شک نہیں گزرتا یہ لوگ بھی کسی جر م کے مرتکب ہو سکتے ہیں۔
اب حال ہی میں ضلع لیہ کی پو لیس نے جھوگیوں میں رہنے والے خانہ بدوشوں کی بستی پر چھاپہ مار کر 5 لاکھ پچاس ہزار روپے مالیت کی منشیات برآمد کی جس میں ہیروئین ‘ چرس ‘پوست’ اور شراب کی بوتلیں شا مل تھیں پولیس نے کاروائی کرتے ہو اس مکروہ کاروبار میں ملو ث 2خواتین اور 3 مر دوں کوگررفتار کر لیا ملز مان سے غیر ملکی کرنسی بھی برآمد ہو ئی ہے عمو ما ً جھو گیوں میں رہنے والے افراد خانہ بدوش کہلاتے ہیں جنمیں سے زیادہ تر لوگ گزار اوقات کے لئے بھیک مانگتے ہیں بلکہ گھر کے تما م افر ا د بڑوں سے لے کر بچوں تک سب بھیک ہی ما نگتے ہیں یہ لو گ مختلف بازاروں بس اڈاوں اور درگا ہوں پر اکثر بھیک ما نگتے نظر آتے ہیں ایسے بہت کم ہوں گے جو محنت مز دوری کر کے روزی کماکر ہاتھ سے روزی کمانے والوں کی صف میں شامل ہوں گے محنت مزدوری کرنے والوں میں ان کے زیا دہ تر بچے ہو تے ہیں جو چھوٹی مو ٹی اشیا ء غبار ے کھلو نے رومال اور دیگراس طر ح کی چیز یں بس اڈوں اور بازروں میں فر وخت کر تے ہیں یا پھر ان میںسے کچھ مر د اور بڑے لڑکے کو ڑا جمع کر تے ہیں لیکن ان کی اتنی محنت اور جفا کشی کے با وجو د کمر توڑ مہنگا ئی کی وجہ سے ان کی روزی روٹی پوری نہیں ہو پاتیپیٹ پالنے کی خاطر یہ لو گ کسی نہ کسی طر ح جر ائم میں ملو ث ہو جا تے ہیں۔
ان کی ظاہر ی حا لت و کسمپرسی کی وجہ سے کسی کو ان پر شک نہیں گزرتا ہے جھوگیوں میں رہنے والے ان خانہ بدوشوں کے مختلف خاندان ذات پات اور برداریاں ہیں ہر ایک کا دوسرے سے کلچر اور جھوگیوں کی بنا وٹ طور طر یقے الگ الگ ہیں زیا دہ تر یہ لو گ بس ٹر ک اڈوں کے اردگرد خالی پلاٹوں میں اپنی جھوگیاں بنا کر اپنی ایک بستی آباد قا ئم کر لیتے ہیں بس ٹر ک اڈوں کے قریب رہنے والے ان جگہوں پر زیا دہ عرصہ تک قیا م کر تے ہیںان میں سے کچھ ہجرت کر بھی جاتے ہیں تو ان کی جگہ اور آجا تے ہیں لیکن ان کی بستی مستقل قائم رہتی ہے جب تک ان کو ئی اٹھا نہ اکثر پلاٹوں پر قبضے کو بر قرار رکھنے کی غرض سے ان جھوگیوں والوں کو مالکان اپنے پلاٹ میں جگہ دے دیتے ہیں مزید ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو کسی شہر داخلی اور خارجی جگہوں اور بڑے میدانوں میں اپنی جھو گیاں بساتے ہیں یہ لو گ ہفتوں یا پھر مہینہ بھر وہاں رہنے کے بعد وہاں سے نقل مکانی کر جا تے ہیںان جلد نقل مکانی کرنے والوں کی اصل وجہ یہ ہے کہ یہ لو گ اس علاقے میں چھو ٹی مو ٹی چوریاں کر تے ہیں منشیات کے علاوہ جنسی جر ائم جیسے گنوانے کام کرتے ہیں کسی کو ان پر شک نہ ہو یہ جلد ہی اپنا یہ ٹھکانا چھو ڑکر کسی اور جگہ چلے جا تے ہیں ان میں سے جوبس ٹر ک اڈوں کے گرد مستقل آباد رہتے ہیں۔
ان کے بچے اور خواتین بھیک ما نگنے کے علاوہ مسافر کی جیب پر بھی ہاتھ صاف کر تے ہیں کسی مسافر کا سامان اٹھا کر لے جاتے ہیں ساتھ ہی یہ لو گ ان اڈوں میں نشے کے عادی ڈرائیوروں اور دیگر افراد کو منشیا ت کی سپلا ئی بھی کرتے ہیں عا م آدمی کی نظر میں یہ بھکاری ہوتے ہیں پر لگے ہاتھوں غیر قانی کام بھی سر انجا م دے دیتے ہیں بس اڈوں پر پبلک ٹر انسپورٹ کے ذریعے سمگلر منشیات دوسرے علاقوں سے لے آنے کیلئے بھی ان کی معا ونت حاصل کر تے ہیں جبکہ ایک منشیات کی کھیپ کی سپلائی آنے کے بعدان کی جھو گیوں میں منتقل کر دی جا تی ہے ان کی غربت بے بسی دیکھ کر پو لیس کو بھی ان پر شک نہیں گزرتا ہے اب یہ تو ان جھو گیوں میں رہنے والے لوگوں کی صورت حال ہے جو بھکاری کے روپ میں ایسے کا م سرانجام دیتے ہیں لیکن گداگری میںایک طبقہ ایسا بھی سامنے آرہا ہے جو اس آڑمیں جسم فروشی کا کام کررہاہیں اکثر بس ٹر ک اڈوں ہوٹلوں اور بازاروں میں خوش لباس برقع پوش اچھی خاصی صحت مند خواتین بھیک مانگ رہی ہو تی ہیں ظاہر ی حالت سے وہ کسی سفید پوش اور معز ز گھر انے کی خواتین معلو م ہو تی ہیں لیکن وہ ہاتھ پھیلا کر بھیک ما نگ رہی ہو تی ہیں جس کو وہ آڑ کے طور پر استعما ل کر تے ہیں ایسے ہی اچھے خاصے ہٹے کٹے لڑکے خواجہ سراہوں کا روپ دھار کر ایسے ہی شرمناک کا م کرتے ہیں ہمارے ملک میں دن بدن بھکاریوں کی بڑھتی ہوئی تعداد جس کے مختلف روپ اور شکلیں ہیںیہ طبقہ محنت اور کام سے عاری ہے۔
کاہلی اور ہڈدھرمی ان کے جسم سے نکل ہی نہیں رہی پھر فحاشی عریانی منشیات اور جر ائم معاشرے کا چہر ہ اور بگاڑ رہے ہیں ہمارے معاشرے کیاجرم اور مجر م کم تھے ان مجرمانہ بے روپے سے معاشرہ مزید تبا ہی کی طر ف جا ئے گا جس کو کنٹر ول کر نا از حد ضروری ہو گیا ہے گداگری کو کنٹرول کرنا انتظامیہ کی ذمہ داری ہے معاشرہ بھی حق داروں کی پہچان کر کے ان کی مد د کر ئے ہٹے کٹے صحت مند پیشہ وربھکاریوں کی حو صلہ شکنی کر یں معاشرے کے ہر فردکی ذمہ داری ہے کہ اپنے ان ہم وطنوں کو محنت کی ترغیب دیں اگر یہ دل سے توبہ کر کے محنت کر کے روزی کمانا چا ہتے ہیں تو ان کی ضرور مد د کر یں آپ کی مد د اور ترغیب سے کسی کی اصلاح ہو جائے تو اس سے بڑی نیکی اور کیا ہو گی حکو مت دن بدن بڑھتی مہنگا ئی پر قابو پائے غربت کے خاتمے کے لئے مو ثر اقدمات اٹھاتے ہو نئے نئے روز گار کے مو اقعے پیدا کر ئے اور جھوگیوںمیں رہنے والے لوگوں کی ضرور چھان بین کرے ان میں سے کتنے لو گ کے پاس قومی شنا ختی کارڈ ہیں یا نہیں کیا ان میں کو ئی غیر ملکی ‘بڑے مجرم ‘ دہشت گرد تو نہیں ہیں محنت مزدوری کی بجائے بھیک اوربھکاری کے روپ میں جرم اور جنسی جرائم سب پر قا بو پانا ملکی امن و سلا متی کے لئے انتہائی ضروری ہے۔