اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی نے کم عمر بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والوں کو جنسی صلاحیت سے محروم کرنے کی سزا کا قانون منظور کیا ہے۔ اس بل میں جرم ثابت ہونے پر دیگر سخت سزائیں بھی رکھی گئیں ہیں۔
پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی نے یہ بل متفقہ طور پر بدھ کو منظور کیا تھا، جس پر انسانی حقوق کے کارکنان اور سول سوسائٹی نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ دوسری جانب سیاسی جماعتیں اورحکومت اس قانون کا بھر پور دفاع کر رہی ہیں۔
اس بل کے محرک بننے والے وزیر برائے ڈیزاسٹر مینیجمنٹ احمد رضا قادری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”میں انسانی حقوق کی تنظیموں کا احتجاج مسترد کرتا ہوں کیونکہ وہ تو سزائے موت سمیت کئی دوسرے قوانین پر بھی اعتراضات کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا عمل ایک سنگین جرم ہے، جس کی سزا سخت ہونی چاہیے تاکہ اس کی روک تھام کی جا سکے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ جنسی صلاحیت سے محروم کرنے کے صرف سرجن مجاز ہوں گے، ”اور اگر سرجن یہ سمجھتے ہیں کہ سرجری کی صورت میں مجرم کی جان جا سکتی ہے تو پھر کیمیائی طریقے سے مجرم کو اس صلاحیت سے محروم کیا جائے گا۔ یہ سزا کم عمر کے ساتھ زنا بالجبر یا غیر فطری عمل دونوں صورت میں دی جائے گی۔ جو اس جرم کے ارتکاب کی صرف کوشش کرے گا، اس کے لیے دس برس کی قید ہے اور مالی جرمانہ بھی ہے۔‘‘
اس بل کی حمایت دوسری سیاسی جماعتوں نے بھی کی ہے۔ کشمیر کے سابق وزیر اعظم اور مسلم کانفرنس کے سربراہ سردار عتیق کا کہنا ہے کہ اگر اس قانون کا غلط استعمال ہوا تو پھر ترمیم کی جا سکتی ہے، ”قانون کا بنیادی مقصد خوف پیدا کرنا ہوتا ہے تا کہ مجرم سنگین جرائم کا ارتکاب نہ کریں۔ بہت کم کیسز میں ایسا ہوتا ہے کہ سزا قانون کے مطابق ہی دی جائے بلکہ سخت قانون کا مطلب سماج دشمن عناصر کو جرم کے ارتکاب سے روکنا ہوتا ہے اور میرے خیال میں یہ قانون ان جرائم کے سدباب میں معاون ثابت ہوگا۔‘‘
انسانی حقوق کی تنظیمیں اس قانون کو قرون وسطی کی باقیات سے تعبیر کرتی ہیں۔ انسانی حقوق کی معروف کارکن فرزانہ باری کا کہنا ہے کہ مہذب معاشروں میں اس طرح کے قوانین نہیں بنائے جاتے، ”بچوں سے زیادتی ایک سنگین جرم ہے لیکن اس کے خاتمے کے لئے اس جرم کی جڑ کو ختم کیا جائے۔ مثال کے طور پر زیادہ تر بچے کام کی جگہوں پر جنسی درندگی کا شکار ہوتے ہیں۔ جبری مشقت غیر قانونی ہے، حکومت اس قانون پر عمل کرے اور جو بچے کام کرتے ہیں، ان کے گھر والوں کو وظیفہ دے اور بچوں کو اسکول بھیجے۔ ایسا کرنے سے بہت بڑے پیمانے پر ان کے خلاف جرائم کم ہو سکتے ہیں۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ قانون میں ترمیم ہونی چاہیے لیکن اس طرح کے ‘وحشت ناک قوانین‘ کا نفاذ نہیں ہونا چاہیے، ”ایسے مجرموں کو عمر قید کی سزا ہونی چاہیے اور یہ عمر قید چودہ برس نہیں بلکہ تا دم موت ہونی چاہیے۔ ایسے مجرموں کو جیل میں کام کرنے پر مجبور کرنا چاہیے تاکہ وہ ریاست پر بوجھ نہ بنیں۔‘‘
آزاد کشمیرکی بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر ذوالفقار احمد راجہ کا کہنا ہے کہ خطے میں سائبر قوانین کا پہلے ہی غلط استعمال ہو رہا ہے اور کرپٹ پولیس کی موجودگی میں اس قانون کا بھی غلط استعمال ہوگا، ”ہم اس قانون کی مذمت کرتے ہیں۔ یہاں لوگوں کی آپس میں لڑائیاں ہیں اور لوگ آپس کی دشمنیاں نکالنے کے لیے اس قانون کا غلط استعمال کریں گے۔ یہ قانون بنیادی انسانی حقوق اور فطرت کے خلاف ہے، جس کی تمام لوگوں کو مخالفت کرنی چاہیے۔‘‘