ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے سعودی عرب میں ایک معروف شیعہ عالم نمرالنمر سمیت سینتالیس سزایافتہ مجرموں کو تہ تیغ کرنے کی مذمت سے انکار کردیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ دہشت گردی اور دیگر جرائم میں ملوّث مجرموں کو سزا دینا سعودی مملکت کا داخلی قانونی معاملہ ہے۔
صدر طیب ایردوآن نے بدھ کو ٹیلی ویژن پر ایک نشری تقریر میں کہا ہے کہ ”سعودی عرب میں سرقلم کیا جانا ایک داخلی قانونی معاملہ ہے۔آپ اس فیصلے کی خواہ تائید کریں یا نہ کریں،یہ ایک الگ ایشو ہے”۔سعودی عرب میں گذشتہ ہفتے کے روز دہشت گردی اور بغاوت کے مقدمات میں ملوّث سزایافتہ مجرموں کے سرقلم کیے جانے کے بعد ان کا یہ پہلا ردعمل ہے۔
انھوں نے اپنی تقریر میں اس رائے بھی کو مسترد کردیا ہے کہ سعودی عرب کا نمرالنمر کا سرقلم کرنے کا مقصد اہل تشیع کے ساتھ کشیدگی کو بڑھاوا دینا تھا۔انھوں نے کہا کہ ایران میں سعودی مشن پر حملہ بالکل ناقابل قبول ہے کیونکہ جن افراد کے سرقلم کیے گئے ہیں،ان میں سے صرف تین شیعہ تھے۔
ترک وزیراعظم احمد داؤد اوغلو نے سوموار کو ایک بیان میں سعودی عرب اور ایران پر کشیدگی کم کرنے کے لیے زور دیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ دو اہم مسلم طاقتوں کے درمیان کشیدگی سے پہلے سے بارود کے دھانے پر کھڑے خطے کے مسائل میں اضافہ ہو جائے گا۔واضح رہے کہ ترکی نے 2004ء میں یورپی یونین میں شمولیت کے لیے سزائے موت ختم کردی تھی۔
ترک صدر نے گذشتہ ماہ سعودی عرب کا دورہ کیا تھا اور شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے دوطرفہ تعلقات ،خلیج میں جاری تنازعات اور خاص طور پر شام اور عراق میں جاری بحرانوں کے حل کے حوالے سے تفصیلی بات چیت کی تھی۔
ترکی اور سعودی عرب شامی تنازعے پر یکساں مؤقف رکھتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ شامی صدر بشارالاسد کی رخصتی ہی سے ملک میں گذشتہ پانچ سال سے جاری بحران حل ہوسکتا ہے جبکہ ایران بشارالاسد کا اقتدار بچانے کے لیے ان کی مالی ،عسکری ،سیاسی غرضیکہ ہر طرح سے مدد کررہا ہے۔
اس کا ایک اور اتحادی روس بھی شامی صدر کی حمایت میں پیش پیش ہے اور اس کا شام کے سرحدی علاقے میں لڑاکا طیارے کو گرائے جانے پر ترکی سے تنازعہ چل رہا ہے۔روس ترکی کے خلاف تب سے تندوتیز بیانات جاری کررہا ہے اور ایران بھی اس کا مؤید ہے۔
اب مشرقِ وسطیٰ میں سعودی عرب میں ہفتے کے روز سینتالیس مجرموں کو تہ تیغ کیے جانے کے بعد حالات نے نیا پلٹا کھایا ہے اور ایک دوسرے کے اتحادی اور مخالف ممالک کی نئی صف بندی ہورہی ہے۔سعودی عرب میں جن چوالیس سنیوں کے سرقلم کیے گئے تھے،ان میں القاعدہ کی کئی سرکردہ شخصیات شامل تھیں لیکن ایران کی جانب سے صرف شیعہ عالم کا سرقلم کیے جانے پر سخت احتجاج کیا جارہا ہے۔
مشتعل ایرانی مظاہرین نے اس کے ردعمل میں تہران میں سعودی سفارت خانے اور مشہد میں قونصل خانے کو نذرآتش کردیا تھا۔ایران میں سعودی سفارتی مشنوں پر حملوں کے ردعمل میں سعودی عرب ،بحرین،سوڈان اور جبوتی نے تہران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر لیے ہیں اور کویت نے ایران سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا ہے۔