بحران زدہ علاقوں میں جنسی تشدد کے خلاف عالمی قرارداد منظور

 Antonio Guterres - Amal Clooney

Antonio Guterres – Amal Clooney

نیویارک (جیوڈیسک) اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے جنگی اور بحران زدہ علاقوں میں جنسی تشدد کے خلاف جرمنی کی طرف سے پیش کردہ ایک قرارداد منظور کر لی ہے۔ اس قرارداد میں عالمی برادری سے ایسے تشدد کے خلاف بھرپور اقدامات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

نیویارک میں مقامی وقت کے مطابق منگل تئیس اپریل کی شام منظور کردہ اس قرارداد کا تعلق بحران زدہ اور مسلح تنازعات کے شکار علاقوں میں جنسی تشدد اور جنسی زیادتیوں سے ہے اور عالمی سلامتی کونسل کے ایک اجلاس میں کونسل کے رکن پندرہ میں سے تیرہ ممالک نے اس کی تائید کی۔ سلامتی کونسل کے پانچ مستقل رکن ممالک میں سے دو، روس اور چین نے اس مسودہ قرارداد پر اپنی رائے محفوظ رکھی۔

اس سے قبل کونسل کے ایک اور مستقل رکن ملک امریکا نے یہ دھمکی دے دی تھی کہ وہ اس قرارداد کو ویٹو کر سکتا تھا۔ اس پر ویٹو سے بچنے کے لیے مسودے کے متن میں کچھ ترامیم کر دی گئی تھیں۔ یہ مسودہ قرارداد جرمنی کی طرف سے پیش کیا گیا تھا، جس کا مقصد اس امر کو یقینی بنانا تھا کہ بحران زدہ خطوں میں جنسی تشدد اور ریپ جیسے جرائم کی جلد از جلد اور مؤثر روک تھام کی جائے۔

اس قرارداد کی منظوری پر اقوام متحدہ میں جرمن سفیر کرسٹوف ہوئسگن نے مجموعی طور پر بہت اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امریکی ویٹو سے بچنے کے لیے مسودے میں کچھ ترمیم تو کی گئی تھی اور ’’ہم نے سب کچھ ہی تو حاصل نہیں کیا، مگر بہت کچھ حاصل کر لیا گیا ہے۔‘‘

جرمنی ان دنوں عالمی سلامتی کونسل کا صدر ملک ہے اور اس اجلاس کے لیے وفاقی جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس بھی خاص طور نہ صرف نیو یارک میں تھے بلکہ انہوں نے سکیورٹی کونسل کے اس اجلاس کی صدارت بھی کی۔ ماس نے قرارداد کی اکثریتی رائے سے اور بغیر کسی مخالفت کے منظوری کو ایک ’سنگ میل‘ قرار دیا۔

شروع میں اس قرارداد کی دستاویز میں یہ بھی لکھا گیا تھا کہ ایک ایسا مستقل بین الاقوامی طریقہ کار تشکیل دیا جائے، جس کی مدد سے بحران زدہ علاقوں میں جنسی تشدد اور ریپ جیسے جرائم کے مرتکب مجرموں کا تعاقب کرتے ہوئے انہیں سزائیں دی جا سکیں۔ اس پر نہ صرف امریکا کو اعتراض تھا بلکہ روس اور چین کی طرف سے متن کے اس حصے کی مخالفت کی گئی تھی۔ اس لیے قرارداد کی منظوری کو یقینی بنانے اور ویٹو سے بچنے کے لیے جو مسودہ منظور کیا گیا، اس میں سے یہ مطالبہ نکال دیا گیا تھا۔

انتیس سالہ اوکوالہ اوچنگ چام کو اپنے ملک ایتھوپیا سے جنوبی سوڈان پہنچنے کا خطرناک سفر طے کرنے میں دو سال کا عرصہ لگا۔ چام نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ میرے پاس جنوبی سوڈان جانے کے لیے بس کا کرایہ نہیں تھا اس لیے میں نے پیدل ہی یہ سفر اختیار کیا۔‘‘ رواں برس اپریل میں چام بالآخر جنوبی سوڈان میں قائم گوروم مہاجر کیمپ پہنچا جہاں اس کی بیوی اور تین بچے پہلے سے موجود تھے۔

اس دستاویز میں اس امکان کا ذکر بھی ہے کہ بحرانوں اور مسلح تنازعات کے شکار جن علاقوں میں جنسی تشدد کو بطور ہتھیار استعمال کیا جائے گا، ان خطوں کے خلاف اقوام متحدہ کی طرف سے خصوصی پابندیاں بھی عائد کی جا سکیں گی۔ مزید یہ کہ جن ممالک میں ایسے جرائم کا ارتکاب کیا جائے گا، وہاں کی حکومتوں کو آئندہ ایسے جرائم کا نشانہ بننے والے انسانوں کی مدد اور بحالی کے لیے اب تک کے مقابلے میں زیادہ بہتر اور کافی اقدامات کرنا ہوں گے۔

اس قرارداد کے تناظر سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے مذمت کرتے ہوئے کہا کہ آج کی دنیا میں بہت سے بحران زدہ خطوں میں جنسی تشدد کو ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ گوٹیرش نے کہا، ’’ایسے زیادہ تر جرائم کبھی رپورٹ ہی نہیں ہوتے، نہ ان کی کبھی چھان بین کی جاتی ہے اور ایسے جرائم کے مرتکب مجرموں کو عدالتوں کے سامنے جواب دہ بنانے کا رجحان تو نہ ہونے کے برابر ہے۔‘‘

انٹونیو گوٹیرش نے کہا، ’’دنیا کے تمام ممالک کی حکومتوں کو جنگی اور بحران زدہ علاقوں میں خواتین اور بچیوں کے تحفظ کے لیے زیادہ اقدامات کرنا چاہییں۔ اس لیے کہ بہت سے مسلح گروہ، شدت پسند اور دہشت گرد جس جنسی تشدد کا راستہ اپناتے ہیں، ان میں عورتوں اور لڑکیوں کو جنسی غلام بنا لینا اور ان کی جبری طور پر کرائی جانے والی شادیاں بھی شامل ہیں۔‘‘