تحریر ؛ سجاد علی شاکر بحران، مہنگائی ،مسلسل ناانصافی، بے روزگاری ، ناکارہ تعلیمی نظام ،دہشت گردی ، لود شیڈنگ ،سیلابی اوردھرنا سیاست یہ سب ہمارے ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں۔ اگر ہمیں تکلیف دہ غربت اور مسلسل بڑھتے قرضوں سے نجات حاصل کرنی ہے،تو یہ ضروری ہے کہ ہم مضبوط تعلیمی پالیسی اختیار کریں اور یہ تب ہی ممکن ہو سکے گاجب ہم اپنے آئین میں اس طرح ترمیم کریں کے ہمارے پالیسی ساز ادارے اس بات پر مجبور ہو جائیں کہ وہ ملک میں تعلیم کے فروغ کو اپنی اولین ترجیح قرار دیں اس کو عمل میں لائیں۔ملائشیا تیس سال سے اپنے بجٹ کا 30فیصد حصہ تعلیم وتربیت کے اخراجات پورے کرنے میں صرف کر رہا ہے جبکہ ہم ابھی بہت پیچھے ہیں۔ہمارے ہاں خیراتی منصوبوں پرتواربوں خرچ کر دیئے جاتے ہیں مگر افسوس کہ تعلیم جو ترقی کی ضمانت دیتی پر توجہ نہیں دی جاتی۔ہمیں بھی آئینی طریقہ کار کے ذریعہ یہی لائحہ عمل اختیار کرنا چاہئے۔پاکستان کے لئے اپنی موجودہ مشکلات غربت،کرپشن اور ملک میں امن وامان کی خراب صورتحال سے نکلنے کی واحد صورت یہ ہے کہ ہم تعلیم کے فروغ کو نصب ا لعین بنائیں۔ہمارے ملک میں 9کڑور نوجوان ایسے ہیں جن کی عمریں 19سال سے کم ہیں۔ ان میں بے پناہ صلاحیت ہے کہ وہ اپنی محنت اور مشقت سے وطن عزیز کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لا کھڑا کریں۔یہ ایسے قیمتی پتھرجنہیں تراش کر ہیرے بنانے کی ضرورت ہے۔ان پتھروں کوتراشنے کیلئے مظبوط ،شفاف اور یکساں نظام تعلیم مربوط کرنا ہوگاکہتے ہیں کسی دور میں ایک چھوٹے سے جزیرے پر ایک نیک دل بادشاہ حکمرانی کرتا تھا۔
ایک دن بادشاہ نے اپنے وزیراعظم کو بلا کر کچھ رقم دیکر کہا کہ جا کر کوئی عوام کی بھلائی کا کام کرے۔ وزیراعظم نے جا کر ایک چھوٹا سا سکول کھول دیا۔ کچھ عرصہ گزرا تو بادشاہ سلامت نے دوبارہ اپنے وزیراعظم کو بلا کر مزید رقم دی اور مزید بھلائی کا کام کرنے کو کہا۔ وزیراعظم اس دفعہ بھی گیااور ایک نیا سکول کھول دیا۔ وقت گزرتا رہا کہ ملک میں خوشحالی ا?نی شروع ہو گئی۔ خوشحالی دیکھ کر پڑوس کے ایک بڑے بادشاہ نے اس چھوٹے جزیرے پر حملہ کر دیا لیکن جزیرے کے نوجوانوں نے اس دلیری سے مقابلہ کیا کہ بڑے بادشاہ کی بڑی فوج بھاگ کھڑی ہوئی۔ بادشاہ نے خوش ہو کر وزیر اعظم سے اس دلیرانہ مقابلے کی وجہ دریافت کی تو وزیراعظم نے تفصیل بتائی کہ بادشاہ کی عطا کر دہ رقم سے اْس نے جو دو سکول کھولے تھے یہ اْن سکولوں کی تعلیم کا کرشمہ تھاکہ ہمارے نوجوانوں نے اتنی بڑی فوج کو مار بھگایا۔ معزز قارئین یہ چھوٹا سا جزیرہ انگلینڈ تھا اور حملہ ا?ور بادشاہ فرانس کابادشاہ تھا اور یہ دو سکول عظیم برطانوی درسگاہوں ا?کسفورڈ اور کیمبرج کی بنیادیں تھیں۔ پھر تاریخ عالم نے دیکھا کہ ان درسگاہوں کے فارغ التحصیل نوجوانوں نے پوری دنیا پر حکومت کی یہاں تک کہ عظیم برطانیہ کی سلطنت پر کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔”یہ ہے علم کی طاقت” واٹرلو کے میدان میں جب ڈیوک ا?ف ولنگٹن نے اس وقت کے عظیم جنرل نیپولین کو شکست دی تو اس نے برملا کہا کہ اس کامیابی کی بنیاد بٹن اور ہاروکے کھیل کے میدان تھے۔
یاد رہے کہ یہ دونوں برطانیہ کے بہت ہی مشہور پبلک سکول ہیں۔ پوری دنیا میں برطانیہ کی کرشماتی جنگی کامیابیاں برطانیہ کے تعلیمی اداروںکی مرہون منت تھیں۔ ا?ج امریکہ اور برطانیہ کا دوسرا بڑا ذریعہ ا?مدنی ان ممالک کے تعلیمی ادارے ہیں۔معزز قارئین کسی بھی ملک کی طاقت کی بنیاد نہ تو دولت ہوتی ہے نہ معدنی وسائل اور نہ ہی بڑی افرادی قوت۔ ملکی طاقت کی بنیاد علم ہے اور جس ملک کے پاس علم ہوگا وہی ملک اقوام عالم کی حکمرانی کا تاج پہنے گا چاہے حالات جیسے بھی ہوں۔ اسی لئے پیغمبر اسلام? نے حصول علم پر سب سے زیادہ زور دیا تھااور مسلمانوں کی بدقسمتی کہ تمام تر وسائل کے باوجود ہم نے اس فرمان کو پس پشت ڈال دیااور ا?ج نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ ہم افرادی قوت اور مادی وسائل رکھنے کے باوجود پوری دنیا میں دوسروں کے دستِ نگر ہیں۔ اسرائیل کی مثال ہی لے لیں جو اتنا چھوٹا سا ملک ہے کہ عرب ملکر تھوک بھی دیں تو یہ ڈوب جائیگا۔ 70فیصد علاقہ صحرا ہے۔معدنی وسائل سے محروم ہے پورے ملک کی ا?بادی ہمارے ایک شہر لاہور سے بھی کم ہے لیکن پوری مسلم امہ میں ایک طاقت ہے اس لئے کہ وہ تعلیم میں پوری دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے سائنسی اور دفاعی تحقیق میں نمبر 1ہے۔ نتیجتاً ا?ج کوئی مسلمان ملک اسرائیل کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ ا?ج بھارت اور امریکہ اسرائیلی دفاعی سامان کے سب سے بڑے خریدار ہیں۔ اسرائیلیوں نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت فلسطینیوں کو تعلیم اور سائنس میں بالکل ترقی نہیں کرنے دی۔
Palestinian Students
نتیجہ یہ ہے کہ ا?ج فلسطین میں تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے اور نئی فلسطینی نسل تمام تر جذبہ حب الوطنی کے باوجوداسرائیلیوں کے سامنے بے بس ہے۔ غلیلوںاور پتھروں کیساتھ اسرائیلی ٹینکوں پر حملہ ا?ور ہوتی ہے۔ اسرائیلیوں نے بہت کامیابی سے انہیں تعلیم سے محروم کر کے جہالت کے دور میں دھکیل دیا ہے۔حیران کن بات ہے کہ یہی ایجنڈا القاعدہ، طالبان، داعش اور دیگر دہشتگرد تنظیمیں لیکر مسلمان ممالک میں وارد ہوئی ہیں۔ جب سے طالبان کا عمل دخل افغانستان میں بڑھا ہے انہوں نے سب سے پہلا حملہ تعلیم پر کیا۔ لہٰذا افغانستان میں تعلیمی عمل کئی سالوں سے معطل ہے اور ایک مکمل طور پر ان پڑھ نسل پروان چڑھ چکی ہے۔ جو ا?پس کا خون بہانا بہادری سمجھتے ہیں۔ یہی کام نائیجیریا میں بوکو حرام، ایتھو بیا میں الشباب، شام وعراق میں داعش، یمن میں القاعدہ اور فاٹا میں تحریک طالبان کے لوگ کر رہے ہیں۔اس سے یہ اندازہ ضرور ہوتا ہے کہ ان دہشت گرد تنظیموں کی پشت پر کونسی طاقت ہے اور اسکے کیا مقاصد ہیں ؟ مسلمانوں کو جان بوجھ کر کسی خاص منصوبہ کے تحت پتھر کے زمانے میں دھکیلا جا رہا ہے اور ظاہر ہے جب مسلمان پسماندہ ہونگے تو مسلمانوں کے وسائل سے کونسی طاقتیں استفادہ کرینگی۔
مسلمان ممالک کی تیل کی دولت سے کون لوگ عیاشی کر رہے ہیں۔ وہی لوگ جو ان تنظیموں کی پشت پر ہیں۔پاکستان مسلم دنیا میں نسبتاً ایک بہتر تعلیم یافتہ اور ترقی پذیر ملک ہے۔ ایٹمی صلاحیت بھی حاصل کر رکھی ہے۔ پاکستان کو کمزور اور ایٹمی صلاحیت سے محروم کرنے کیلئے اب تک کئی طریقے استعمال ہو چکے ہیںجن کی تفصیل پھر کسی وقت۔پاکستان کی علم سے محرومیت اب دشمن کا نیا حربہ ہے۔ ا?خر سوچنے کی بات ہے کہ تمام دہشتگرد تنظیمیں اسلام ہی کے نام پر کام کرتی ہیں۔ نام بھی اسلامی ہیں۔ اسلامی شریعت کے داعی بھی ہیں۔ علم کے متعلق حضور اکرم کے احکامات سے بھی بخوبی ا?گاہ ہیں تو پھر یہ علم مخالف کیوں ہیں؟ فاٹا میں اب تک یہ لوگ لگ بھگ تین ہزار سکول مکمل طور پر یا جزوی طور پر تباہ کر چکے ہیں۔خیبر ایجنسی کے کچھ علاقوں میںپچھلے پانچ سالوں سے تعلیمی عمل معطل ہے سوچا جا سکتا ہے کہ اس ان پڑھ نسل کا کیا بنے گا؟
ظاہر ہے زندہ رہنے کیلئے تو وہ بھی طالبان ہی بنیں گے۔ علم سب سے زیادہ مئوثر اور طاقت ور ہتھیار ہے اور دہشت گردتنظیمیں اس عمل سے بخوبی واقف ہیں کہ اگر علم پھیلتا رہا توان کی تباہی یقینی ہوگی۔پشاور ا?رمی پبلک سکول پر حملہ صرف سکول پر نہیں بلکہ پاکستان کے مستقبل پر حملہ ہے۔ اس کا مقصد محض فوجی ا?فیسرز کے بچوں کو شہید کرنا نہیں بلکہ پاکستان میں تعلیمی سلسلے کو تباہ کرنا ہے جس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہیں کیونکہ اس دن سے تمام ملک کے تعلیمی ادارے بند ہیں۔ بلوچستان میں پہلے ہی کئی ماہ سے سکول بند ہیںیہی انکا مقصد ہے۔ حکومت اور عوام دونوں ڈرے ہوئے ہیں لہٰذا وہی ہو رہا ہے جو کچھ وہ چاہتے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ حکومت بھی اپنی سوچ میں بالکل واضح نہیں
Sajjad Ali Shakir
تحریر ؛ سجاد علی شاکر sajjadalishakir@gmail.com 03226390480