روس (اصل میڈیا ڈیسک) بیلاروس کے صدر الیکسانڈر لوکاشینکو نے اپنے روسی ہم منصب صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ ملاقات میں باہمی تعلقات پر گفتگو کی۔
بیلاروس اور روس کے صدور کے مابین یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے، جب دونوں ممالک ہی مغربی ممالک سے نالاں نظر آتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ہی بیلاروس حکومت نے رائن ایئر کے ایک جہاز کو منسک میں زبردستی اتار کر حکومت کے ناقد ایک صحافی اور اس کی روسی گرل فرینڈ کو گرفتار کر لیا تھا۔
اس گرفتاری پر امریکا اور آسٹریلیا کے علاوہ یورپی یونین کی طرف سے احتجاج بھی کیا جا چکا ہے۔ ہفتے کے دن پولینڈ اور لیتھوانیا میں بھی سینکڑوں افراد نے ہمسایہ ملک بیلاروس میں اپوزیشن کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے مظاہروں کا انعقاد کیا۔
ان مظاہرین کا کہنا تھا کہ منسک حکومت کے اُس منحرف صحافی کو رہا کیا جائے، جسے اس کی گرل فرینڈ کے ساتھ حراست میں لیا گیا ہے۔ اس گرفتاری پر عالمی سطح پر تنقید کی جا رہی ہے جبکہ یورپی یونین نے ہوائی کمپنیوں سے کہا ہے کہ وہ بیلاروس کی فضائی حدود استعمال کرنے سے گریز کریں۔
لوکاشینکو کے دورہ روس کے دوسرے دن پوٹن نے اپنے مہمان کے ساتھ بوٹ ٹرپ کو ابھی انجوائے کیا۔ کریملن کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا کہ جمعے کے دن دونوں رہنماؤں نے سیاسی امور پرتبادلہ خیال کیا جبکہ ہفتے کے دن ہونے والی ملاقات غیر رسمی تھی۔
مشرقی یورپی ریاست بیلاروس کو روس کا اہم اتحادی قرار دیا جاتا ہے۔ ناقدین کے مطابق ماسکو حکومت مغربی ممالک کے خلاف اپنی سیاسی نبرد آزمائی کے لیے بیلاروس کو استعمال کر رہی ہے۔
کریملن کے مطابق صدر لوکا شینکو نے صدر پوٹن سے گفتگو میں منحرف صحافی کی گرفتاری کی روداد اور تازہ ترین صورتحال بھی بتائی۔ حکومتی ترجمان نے صحافیوں کو بتایا کہ ماسکو حکومت اس حوالے سے باخبر ہے اور بلاگر کی روسی گرل فرینڈ صوفیہ ساپیگا کے حوالے سے بھی بے خبر نہیں ہے۔
دریں اثنا ماسکو نے تصدیق کی ہے کہ بیلاروس کو ڈیڑھ بلین ڈالر کے قرض کی دوسری قسط جاری کی جا رہی ہے۔ روسی حکومت نے گزشتہ برس اکتوبر میں پانچ سو ملین ڈالر کی پہلی قسط فراہم کی تھی۔ تازہ معلومات کے بیلاروس کے استحکام کی خاطر اس قرض کی دوسری قسط جون کے اواخر تک منسک کو موصول ہو جائے گی۔