تعصب و جہالت ایک دھندلا آ ئینہ

Kashmiris

Kashmiris

تحریر : پروفیسر محمد حسین چوہان

تحقیق و تنقید اور تجزیے کے بغیر جو دوسروں کے بارے میں رائے قائم کی جائے تعصب کہلاتی ہے،جس کا فیصلہ کرنے سے پہلے ہی فیصلہ کر دیا جاتا ہے ، یعنی جس کو پرکھا نہ گیا ہو اس کے بارے میں رائے نہ قائم کی جائے، جو سراسر غیر منطقی اور غیر استدالی رویے اور رجحان کو پیدا کرتی ہے کیونکہ فیصلہ کرنے یا رائے متعین کرنے سے پہلے کسی چیز کی چھان بین تحقیق و تجربے اور دلائل کی روشنی میں کی جاتی ہے اور پھر اس کے بارے میں رائے قائم کی جاتی ہے جو معقولات اورتجربی و ترکیبی تصدیقات کی روشنی میں اسناد کا درجہ حاصل کرتی ہے ،مگر تعصب پر مبنی سوچ اور رائے کا تعلق ذاتی پسند ونا پسند ،نفع و نقصان، عمومی رائے ، سنی سنائی ،باتوں، فکر ونظر کی ہٹ دھرمی وکلیت پسندی ،ماضی سے وابسطہ روایات ، اساطیر اور لوک کہانیوں سے ہوتا ہے،جو مغائرت، نفرت ،تعصب اور انتشار کو جنم دیتی ہیں۔تعصب انسانی عقل کے آگے پردہ ڈال دیتاہے ۔وہ ہر چیز کو دھندلائی ہوئی نظروں سے دیکھتا ہے،جس سے چیزیں اپنی اصل شکل یں نظر نہیں آتی۔

فطر ی و و جدانی سوچ بھی تعصب کو پیدا کرتی ہے کیونکہ فطری سوچ تحقیق و تجزیے کے مراحل سے گذری نہیں ہوتی،اسی بنا پر چیزوں اور مسائل کی تہہ تک پہنچنے کے لئے مسلسل تحقیق و تجربے کی ضرورت درکار ہوتی ہے۔دیر تک اپنی رائے پر قائم رہنا بھی رجعت قہقری کو جنم دیتا ہے کیونکہ بدلتی دنیا میں بہت کچھ بدل چکا ہوتا ہے اور آدمی کو چاند ایک روٹی کی شکل میں مسلسل دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ عمومی طور پر تعصب پر مبنی رائے مستند علوم و فنوں پر قائم نہیں کی جاتی اس کا تعلق صنفی امتیاز،دوسروں کے عقائد ونظریات، قبائل و برادری،قومیت،رنگ ونسل،سماجی طبقہ وپیشہ،سماجی اقدار،زبان ولباس،جنس وخوبصورتی،مذہب و فرقہ، سیاسی جماعتوں، عمر و معذوری یا ذاتی خصائص کے بارے میں ہوتا ہے جو حقیقت پر مبنی نہیں ہوتی ،جسمیں تعمیم نہیں ہوتی بلکہ کسی خاص واقعہ یا کسی فرد واحد کے عمل کو پوری جماعت یا گروہ پر لاگو کر کے ایک رائے قائم کر لی جاتی ہے۔زبان خلق کو نقارہء خدا سمجھو کو بھی اکثر و بیشتر علمی تصدیق کا درجہ حاصل نہیں ہو سکتا۔تعصب سے قائم کی ہوئی رائے سے نفرت اور انتشار پیدا ہوتا ہے اور انسانوں کے درمیان منفی رویے جنم لیتے ہیں۔جن معاشروں کا نظام تعلیم سائنسی طرز عمل اور طرز فکر پیدا نہیں کرتا وہاں تعصبات سیاہ گھٹاوں کی طرح سماجی افق پر چھائے ہوتے ہیں۔ وہاں اضافی قدریں حقیقی قدروں کی جگہ لے لیتی ہیں۔ترجیحات بدل جاتی ہیں۔حقیقی مسائل کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے اور فروعات زہن ومزاج کا حصہ بن جاتی ہیں،اور یہ سب متعصبانہ سوچ کا نتیجہ ہوتا ہے۔

فلسفہ و نفسیات کے علما کے نزدیک تعصب کسی نہ کسی حد تک انسان کے چھپے ہوئے ذہن کے گوشوں میں موجود رہتا ہے۔اس کو مکمل طور پر نکالا نہیں جا سکتا۔پسند و ناپسند ذاتی انا و فائدہ اور دیگر جذبات کے زیر سایہ پروان چڑھتا ہے،مگر تحلیل نفسی کے ذریعے اس میں اعتدال پیدا کیا جا سکتا ہے ۔ہائیڈیگر اورہنس جارج کے نزدیک تعصب پہلے سے ماضی میں متعین کیے گئے تصورات سے وابسطہ ہوتا ہے۔جس کے پاس ماضی ہے اس کے پاس تعصب ہے،کیونکہ انسان کے فکر ونظر کا قصر ماضی کی بنیادوں پر قائم ہوتا ہے۔کلاسیکل مفکر سائیسرو کہتا ہے۔٫٫تعصب دھوکہ دہی و فریب سے پیدا ہوتا ہے،حقائق کو چھپایا جائے تو نفرت جنم لیتی ہے،،کانٹ تعصب کق قبل تجربی رائے سے موسوم کرتا ہے،جو رائے اور اخلاق سے جڑا ہوتا ہے،جس کو وہ دانشورانہ غلظی قرار دیتا ہے ۔

بعد از تجربی یا تحلیلی قضایا میں یہ ختم ہو جاتا ہے ،،فرانسس بیکن تعصب کو فطری سوچ سے منسوب کرتا ہے،جو جھوٹا آئنہ ہوتا ہے۔تعصب دنیا کی خطر ناک شکل ہوتی ہے،جسمیں ہم پیدا ہوتے ہیں۔اس کے بارے میں انفرادی اور اجتماعی رائے قائم ہو جاتی ہے،جس کے پیچھے ہم آنکھیں بند کر کے پیروی کرنا شروع کر دیتے ہیں۔،،امریکی کہا وت ہے۔٫٫ درخت کی جڑیں اتنی گہری نہیں ہوتی جتنی تعصب کی ہوتی ہیں،،والٹئیر نے کہا تھا٫٫تم تعصب کو دروازے سے باہر نکال دو مگر یہ کھڑکی سے واپس اندر آجائے گا۔،،جارج آرول نے اس حوالے سے کہا تھا٫٫ کہ چار ٹانگوں والے بہتر ہیں بہ نسبت دو ٹانگوں والوں کے،، دوسروں کے بارے میں معاندانہ رویہ تعصب پر مبنی رائے جو عقل و فکر اور منطقی استدلال کے بر عکس ہوں کی آبیاری خاندانی اور گھریلو ماحول میں ہوتی ہے۔

سماجی خاندانی ماحول اس کو جواز فراہم کرتا ہے،جسمیں عام فرد کی سوچ کسی مخصوص گروہ،نسلی گروپ،مذھبی فرقے و پیشے یا سیاسی جماعت کے بارے میں قائم ہوجاتی ہے اور اندر ہی اندر انکے خلاف نفرت و حسد کے جذبات انگڑائیاں لینا شروع کر دیتے ہیں،جن کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔معاندانہ رویوں کیوجہ سے جتنا تناو بڑھتا ہے،تعصب کی جڑیں زہنوں میں اتنی ہی گہری ہونا شروع ہو جاتی ہیں،جن کا تعلق انا پرستی،زاتی بالا دستی اور مفاداتی سیاست سے بھی ہوتا ہے۔

عام فرد کو اپنی شناخت وبقا کو قائم رکھنے کے لئے کسی مخصوص گروہ کیساتھ کھڑا رہنا ضروری ہوجاتا ہے،ورنہ اگر وہ تعصب کا مظاہرہ نہ کرے تو کمیونٹی میں اس کی عزت کم ہو جاتی ہے۔قبائلی معاشروں جہاں برادریوں کی سیاست کی جاتی ہے وہاں جتنا بڑا جاہل ،متعصب اور سماج دشمن رویے کا حامل سیاستدان ہوگا ،اس کی کامیابی کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوں گے، کیونکہ ایسے معاشروں میں علم و آگہی،میرٹ و انصاف کے بر عکس سب سے بڑی سماجی قدر برادری سمجھی جاتی ہے۔جہاں غربت اور پسماندگی ہو گی یقینا وہاں جہالت بھی ہوتی ہے اور جہالت میں تعصب اور وجدان تیزی سے زہنوں میں جگہ بنا لیتے ہیںتعلیم یا فتہ لوگ بھی اسی تعصب کا شکار ہوتے ہیںکیونکہ ان کا مفاد کسی ایک گروہ میں رہنے سے ہوتا ہے۔

غربت وپسماندگی بھی لوگوں کو نامعقول بنا دیتی ہے وہ اپنے مسائل کی حقیقی وجوہ جاننے کے بر عکس اس گروہی تعصب کا شکار ہو جاتے ہیں اور تنگ نظری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔امیر تعلیمیا فتہ طبقہ تعصبات سے آزاد ہو جاتا ہے اس کو اپنے تحفظ اور مفادات سے غرض ہوتی ہے،یہ اپنے تعصب کا مظاہرہ وہاں کرتا ہے جہاں اس کے مفادات ٹکراتے ہوں۔معاشروں میں پرسنلٹی کلیش بھی حسد وتعصب کو جنم دیتی ہے۔فرد کی نا اہلی اور کام چوری بھی اس کے اندر حاسدانہ جذبات کو فروغ دیتی ہے،کیونکہ اس کا معاشرتی رتبہ دوسروں سے کم ہو جاتا ہے۔عمومی طور پر طبقاتی سماج میں امارت اور غربت میں جتنی بڑی خلیج قائم ہوگی،مغائرت ومتعصبانہ جذبات کے شعلے اتنے ہی بلند ہوں گے،مگر یہ تعصب و خلیج سماجی رشتوں کوجلا کر بھسم کر دیتا ہے جب تک محروم طبقہ مراعات یافتہ طبقہ کے خلاف سیاسی شکل میں ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا نہیں ہوتا اور اپنی محرومی کی وجوہات تلاش نہیں کرتا،بالا دست طبقہ انکو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکتا رہے گا۔

اسی بنا پر محروم طبقات کا مراعات یافتہ طبقات کیخلاف معاندانہ رویے کو تعصب کے بر عکس جد وجہد سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔فرقہ پرستی بھی جہالت و تعصب کی ماں ہے۔نا معقولیت،جذباتیت اور انسان دشمنی کو فروغ دیتی ہے۔ترقی و خوشحالی اور امن کو ختم کر کے انتشار اور تخر یب پیدا کرتی ہے۔سٹیرو ٹائپ کردار جنم لیتے ہیں جن کے نزدیک اپنے فرقے کے سوا دوسروں کا وجود نا پاک ہوتا ہے۔ایک فرقے کا فرد دوسرے فرقے سے نہ صرف نفرت کرتا ہے بلکہ اسکو گردن زدنی قرار دیتا ہے۔ان کے ہاں متشدد ،متعصب اور تنگ نظری کے حامل افراد جنم لیتے ہیں،جو انسان دوستی کے جذبات سے عاری ہوتے ہیں۔

سماجی ترقی سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔اسی بنا پر فرقہ ورانہ اور نسل پرستانہ تعصب کسی بھی سماج کے لئے سب سے زیادہ خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔جب کسی بھی سماج کے لوگوں کا تعصب مذہبی اور نسلی تعصب سے بلند ہو جائے تو وہ معاشرہ ترقی کی دوسری منزل میں داخل ہو جاتا ہے وہاں طبقاتی جدو جہد کے امکانات بڑھنا شروع ہو جاتے ہیں۔لوگ اپنے حقیقی مسائل اور انکی وجوہ پر توجہ دینا شروع کر دیتے ہیں۔قبائلی، جاگیرداری اور سرمایہ داری مخلوط نظام میں اسطرح کے نسلی و مذہبی تعصبات کو پروان چڑھنے کے زیادہ مواقع ملتے ہیں۔ جب سیاسی معاشیات کے ذریعے طبقاتی تفریق کم ہو جائے اور صنعتوں کے قیام سے روزگار کے مواقع پہدا ہو جائیں تو نسلی ومذہبی تعصب اپنی موت آپ مر جاتا ہے۔

تعصب اور امتیازی سلوک کی جھلک انسان کے اندر اس طرح راسخ ہوتی ہے کہ وہ گھریلو زندگی سے لے کر شاہ کے دربار تک اس کے مظاہر دیکھنے کو ملتے ہیں،مگر جہاں اس پر عقل وخرد کی روشنی میں قابو پایا جائے،وہاں ماحول خو شگوار رہتا ہے، متعصبانہ رویے کو اخلاق روکتا ہے جبکہ متعصبانہ سلوک کی روک تھام کے لئے قانون کو بھی استعمال کیا جاتا ہے۔دفاتر اور کام کی جگہوں پر امتیازی سلوک کے مظاہر دیکھنے کو ملتے ہیں۔جنسی امتیاز بھی تعصب کے زمرے میں آتا ہے،جیسے کہا جاتا ہے٫٫ جنگ کھیڈ نہیں زنانیاں دی ،جبکہ صنعتی ترقی اور ڈرائون ٹیکنالوجی میں ذرعی عہد کی دانش دم توڑ چکی ہے۔

دوسروں کے لباس وکلچر کے بارے میںایسی رائے جو عقل ومنطق کے خلاف ہو۔زبان وبولی کی بنیاد پر کسی کی شخصیت و کردار پر رائے قائم کرنا،مسلمانوں کو دہشت گرد کہنا،ہٹلر کا کہنا کہ صرف جرمن ہی حکمرانی کے لئے پیدا ہوئے ہیں،بھارت میں مذہبی وسیاسی بنیادوں پر ہندوئں کا مسلمانوں کیساتھ امتیازی سلوک اور کشمیریوں کو حق خود ارادیت سے محروم کرنا،بلکہ ہندوستانی نفسیات میں تعصب پیدائشی معلوم ہوتا ہے، اور ہر شعبہ ہائے حیات کی اساس تعصب و توہم پر ستی پر قائم ہے،جسمیں پورے بر صغیر کو شامل کیا جا سکتا ہے۔ ا ور اسطرح کے مظاہر عالمی میڈیا پر بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔

حالیہ برطانوی عوام کا یورپی یونین سے الگ ہونے کا اکثریتی فیصلہ سرا سر تعصب پر مبنی تھا ، جس نے برطانوی عوام کے مستقبل کو دائو پر لگا دیا ہے ،کیونکہ یہ فیصلہ سنی سنائی باتوں اور پروپیگندے کی وجہ سے دیا گیا۔برطانیہ جنگ عظیم کے بعد پہلی بار تاریخ میں اس طرح کے بحران کا شکار ہوا ہے ، جسے اس کی معیشت تباہی کے دہانے پر چلی جائے گی۔اور ا سے نکلنے کے لئے اس کو کوئی رستہ نظر نہیں آ رہا ہے۔ آجکل سوشل میڈیا اور قومی میڈیا تعصب اور مغائرت کو پھیلانے میں پئش پیش ہے،اس کا مثبت کردار غائب ہو چکا ہے علم وتحقیق کے بر عکس الزام تراشی اور دوسروں کی پگڑیاں اچھالنا میڈیا کا مرغوب مشغلہ ہے۔قومی مسائل کو علم وتحقیق اور فلسفیانہ تناظر میں بیان کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ مذ ہبی و سیاسی انتشار ہی پسماندگی کی بنیادی وجوہات ہیں،جسے حقیقی مسائل پر پردہ پڑجاتا ہے۔ شخصیات کے بر عکس مسائل کو اعداد و شمار کیساتھ بیان کیا جائے،سیاست کے بر عکس علم سیاست کو فروغ دیا جائے۔سیاستدانوں کے ساتھ علمائے سیاست کو اس کار خیر میں شامل کیا جائے،ورنہ مولوی اور سیاستدان نظری انشار و تعصب کا شکار ہیں،جو تعصب ومغائرت پھیلانے کا موجب بنتے ہیں۔انکی بقول غالب حالت یہ ہے۔ہے مجھکو تجھ سے تذکرہء غیر کا گلہ۔

ہر چند بر سبیل شکائیت ہی کیوں نہ ہو ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں تعصب اور معاندانہ رویوں کا اگر خاتمہ نہیں تو کم از کم اس کے اثر و نفوز پر قابو پا سکتے ہیں،صرف اخلاقی تعلیم اس کے لئے کا فی نہیں ہے،جب تک طبقاتی تفریق یعنی امارت اور غربت کی خلیج میں نمایاں کمی واقع نہیں ہوتی،مغائرت وتعصب کے شعلے بلند ہوتے رہیں گے۔سیاسی معاشیات معاشی و سماجی تحرک میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔متمول طبقہ ہمیشہ خیر سگالی کے جذبات کا مالک ہوتا ہے مگر دوسری طرف مغائرت پھیلانے کا بھی یہ زمہ دار ہوتا ہے۔اشرافیہ بڑی چالاکی سے اس فضا میں جی رہے ہوتے ہیں۔متوسط طبقے میں اضافہ پرولتاریوں کی شدت جذبات کو ٹھنڈاکر دیتا ہے،کیونکہ وہاں قانون کی حکمرانی اور روزگار کی دستیابی کے زیادہ مواقع پیدا ہو جاتے ہیں۔علم و تحقیق،تجربے و مشاہدے کی علمی فضا میں متعصبانہ جذبات رویے اور سوچ کی کالی گھٹاوں سے مطلع صاف ہو جاتا ہے۔

جب من گھڑت رائے علم ومنطق کی کسوٹی پر پوری نہیں اترتی تو اس کا اختیار کرنا بے معنی ہو جاتا ہے۔انفرادی و اجتماعی طور پر محروم گروہوں وطبقات سے نشست وبرخاست کر نے اور انکے مسائل سننے سے تعصب ونفرت کی آگ بجھ جاتی ہے۔ سماجی تعلق اور رشتے قائم کرنے سے سماجی ترقی کا سفر تیز ہو جاتا ہے۔ صبر وبرداشت اور معاف کرنے سے امن و آشتی کی خوشگوار فضا پیدا ہوتی ہے۔تعاون اور صلہ رحمی قربت اور اپنائیت پیدا کرتی ہے۔احساس زمہ داری اور ضبط نفس متعین آزادی کی حدوں کو پھلانگنے نہیں دیتا۔جب سب کو بخوبی علم ہے بندروں اور انسانوں میں معمولی فرق کے سوا کچھ نہیں ، تو باہمی تعصب کسی فطری امر، ماحول جغرا فیہ،توارث کی وجہ سے نہیں اس کی جڑیں بھی بلواسطہ اور بلا واسطہ طاقت اور وسائل کی نا منصفانہ تقسیم سے جڑی ہوئی ہیں جو معاشرے میں مختلف مظاہر کی شکل میں نمودار ہوتا ہے۔تعصب کو دین اسلام میں بھی انتہائی مذ موم قرار دیا گیا ہے۔

حدیث مبارکہ ہے جس نے تعصب کیا وہ ہم میں سے نہیں۔،،ایک دفعہ بلال حبشی خانہ معبہ کی چھت پر چڑھے تو ابو انصاری نے کہا اے حبشن کے بیٹے تو رسول ا للہ نے ابو انصاری کو مخاطب کر کے فرمایا تم میں ابھی جہالت باقی ہے۔آپ صلعم کا ارشاد ہے کہ تمام انسان فطرت پر پیدا ہوتے ہیں مگر ماں باپ اس کو یہودی یا عیسائی بنا دیتے ہیں۔ آپ صلعم نے راستے میں کفار کے بچے کو کندھے پر اٹھا لیا تو صحابی نے کہا یہ تو کفار کا بچہ ہے ،آپ صلعم نے ارشاد فرمایا ،تمام بچے فطرت پر پیدا ہوتے ہیں،اس سے مترشح ہوا کہ انسان اور موجودات کا وجود ایک ہی ہے اور انسان کی شخصیت ماحول سے پروان چڑھتی ہے۔جیسا ماحول ہوتا ہے ایسا ہی فرد تیار ہوتا ہے۔اسلام میں تحقیق کے بغیر رائے قائم کرنے اور اس کو پھیلانے سے منع کیا گیا ہے۔دنیا کے تمام فلاسفہ اس بات پر متفق ہیں کہ سب کا وجود ایک ہے،مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ آدم کی تخلیق مٹی سے ہوئی،جدید سائنس نے نسلی وموروثی اثرات کویک قلم مسترد کر دیا،بلکہ انسان جو کچھ ہے ماحول کا پروردہ ہے،تو انسانوں میں باہمی تعصب ومغائرت مفاد اور لالچ کے سوا کہیں اور نظر نہیں آتی،اور اس میں سراسر ہلاکت ہے۔

Professor Mohammad Hussain Chohan

Professor Mohammad Hussain Chohan

تحریر : پروفیسر محمد حسین چوہان