کروڑ نشیب میں اشتمال کا کام 40 سال گزرنے کے باوجود بھی مکمل نہ ہو سکا

Layyah

Layyah

لیہ (طارق پہاڑ سے) کروڑ نشیب میں اشتمال کا کام 40 سال گزرنے کے باوجود بھی مکمل نہ ہو سکا۔ 28 سو ایکڑ رقبہ جعلی کلیموں کے ذریعے لوگوں کو منتقل ہوا۔ جس کے معاملات اب تک ریونیو بورڈ میں ممبر ریونیو بورڈ کے زیر سماعت ہیں۔ اشتمال کا کام ختم ہونے کے باوجود عملہ بدستور لوٹ کھسوٹ میں مصروف ہے۔ 1970-71 کے بعد آج تک نئی جمع بندی نہیں بنائی گئی۔تفصیل کے مطابق 11 ہزار 2 سو 48 ایکڑ رقبہ پر مشتمل موضع کروڑ نشیب کے اطراف میں دیگر مواضعات واڑہ، کچی بہار شاہ، سرگانی، لسکانی والا، گشکوری، ٹبی خورد نشیب، کروڑ تھل جنڈی ، ڈپھی اشتمال ہو چکے ہیں۔ لیکن 40 سال گزرنے کے باوجود با اثر لوگوں کی جانب سے رقبہ میں خرد برد اور جعلی انتقالات کی وجہ سے موضع کروڑ نشیب اشتمال نہ ہو سکا ہے۔

یہاں پر درجنوں افراد بوگس زمینوں پر قابض ہیں۔ موجودہ رقبہ 2 سو ایکڑ سے زائد کم ہو چکا ہے۔ یہاں پر بہت سی اراضی محکمہ کی ملی بھگت سے دو دو مرتبہ فروخت ہو چکی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 28 سو ایکڑ رقبہ جعلی کلیموں کے ذریعے لوگوں کو منتقل ہوا۔ جس کے معاملات اب تک ریونیو بورڈ میں ممبر ریونیو بورڈ کے پاس زیر سماعت ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ محکمہ سیاستدانوں کے اشاروں پر اپنی مرضی سے جب چاہے انتقال کھول دیتا ہے۔

جب چاہے بند کر دیتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی سیاستدان یا بااثر شخص کا انتقال پاس کرنا پڑے تو محکمہ عارضی طور پر انتقالات کھول دیتا ہے اور بعد ازاں مقررہ ہدف پورا ہونے پر بند کر دیئے جاتے ہیں۔ دوسری جانب محکمہ کی جانب سے فرد جاری ہونے پر اقرار نامہ کے ذریعے سول کورٹ سے ڈگری حاصل کر کے رقبہ اپنے نام منتقل کروا لیا جاتا ہے۔

اب جبکہ بورڈ آف ریونیو کے نوٹیفکشن کے مطابق موضع کروڑ ، موضع نواں کوٹ اور موضع نوشہرہ کی اشتمال کا کام بند کر دیا گیا ہے۔ موضع کروڑ واپس ہونے کے باوجود عملہ اشتمال بدستور موجود ہے۔ اور سادہ لوح افراد کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہا ہے۔ اگر اعلیٰ سطحی انکوئری عمل میں لائی جائے تو 28 سو کنال جعلی کلیموں کا رقبہ راگزار کروایا جا سکتا ہے۔

اس دوران کروائی گئی بہت سی رجسٹریا اور انتقالات سامنے آسکتے ہیں۔ دوسری جانب اشتمال کیلئے تحصیلدار افتخار احمد ڈھانڈلا کی ڈیوٹی ہے۔ لیکن سیاسی لوگوں کے منظور نظر نائب تحصیلدار بشیر احمد خان کو با اختیار بنا کر کام چلایا جا رہا ہے۔ یہاں پر حالت یہ ہے کہ موضع اشتمال میں ہونے کے باوجود کوئی کاشتکار بنک سے قرضہ نہیں لے سکتا۔