تحریر : روہیل اکبر پچھلے چند روز سے سانحہ پہ سانحہ ہو رہا ہے کوئٹہ، پارا چنار اور عید سے ایک روز قبل احمد پور شرقیہ میں تیل اکٹھا کرتے ہوئے 2 سو سے زائد افراد پل بھر میں لقمہ اجل بن گئے اور اب مری کے قریب چیئر لفٹ گرنے سے تقریبا 12 افراد ہلاک ہوگئے اور پھر اسی دن سرگودھا میں جمشید دستی نے اپنے اوپر ہونے والے مظالم کی ایک نئی کہانی بیان کردی ۔احمد پور شرقیہ میں جب بے گناہ لوگ آگ میں جل رہے تھے توانہیں طبی امداد دینے والا کوئی بھی ادارہ وہاں نہیں تھا اور تو اور زخمیوں کو رہڑھیوں پر ڈال کر لے جایا جارہا تھا لوگ جلے ہوئے جسموں کے ساتھ چیخ وپکار کررہے تھے اور قریب قریب کہیں انکا علاج موجود نہیں تھا۔
سب سے حیرت ناک بات یہ تھی کہ جلے ہوئے مریضوں کا جہاں علاج کیا جاتا ہے وہ برن سینٹر پورے پنجاب میں صرف دو مقامات پر کام کررہے ہیں ایک نشتر ہسپتال ملتان میں اور دوسرا کھاریاں میں جو پاک فوج کے زیرکنٹرول ہے اس کے علاوہ کسی جگہ یہ برن سینٹر موجود نہیں ہے اور اس سے بھی بڑھ کر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ حکومت پنجاب نے لاہور کے دو ہسپتالوں میں برن سینٹر بنایا تھا ایک میو ہسپتال اور دوسرا جناح ہسپتال میں یہ دونوں ہی غیر فعال ہے میوہسپتال والا برن سینٹر تو عرصہ دراز سے بند پڑا ہے اور جناح ہسپتال والا آپریشنل ہی نہیں ہوسکا ۔میو ہسپتال کے برن سینٹر کے حوالہ سے معلوم ہوا ہے کہ وہاں پر ایک انتہائی خطرناک وائرس موجود ہے جو اب تک کئی انسانی زندگیاں نگل چکا ہے یہ ایسا وائرس ہے جو کسی صورت مرتا نہیں ہے انٹرنیشنل قوانین کے مطابق جہاں ایسا وائرس پیدا ہوجائے پھر ایسے برن سنٹر کو جلا دیا جاتا ہے اور وہاں پر کوئی عمارت دوبارہ تعمیر نہیں کی جاسکتی مگر ہماری انتظامیہ اس خطرناک وائرس کی موجودگی سے واقف ہونے کے باوجود کوئی کاروائی نہیں کر رہی حالانکہ میو ہسپتال کے اسی برن سینٹر میں موجود مونکی پاکس وائرس سے تین سٹاف نرسیں بھی ہلاک ہوچکی ہیں۔
پنجاب حکومت کی محکمہ صحت کے حوالہ سے سہولیات انتہائی مایوس کن ہے جنوبی پنجاب کے دور دراز علاقوں میں برائے نام صحت کی سہولیات میسر ہے وہاں کے لوگ کسی بھی حادثے یا ایمرجنسی کی صورت میں ملتان یا پھر لاہور کا رخ کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ مریضوں کے زیادہ رش کی وجہ سے ڈاکٹر بھی ان پر توجہ کم ہی دیتے ہیں بڑے ہسپتالوں کی ایمرجنسی اور وارڈز کی حالت زار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں ایک بیڈ پر تین اور چار مریض لیٹے ہوتے ہیں اور ان میں سے اکثر مریض بہتر علاج نہ ہونے کے باعث زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں ۔عید سے قبل حادثات کا سلسلہ شروع ہوا تو مختلف سیاسی وفاداریاں رکھنے والے لوگوں کی طرف سے ایک ایسا شور بلند ہونا شروع ہوا جو اب تک رکنے کا نام نہیں لے رہاخاص طور پر جب احمد پور شرقیہ میں تیل کو آگ لگنے والا واقعہ رونما ہوا تو سوشل میڈیا پر یہ کہا جانے لگا کہ وہ لوگ تیل چوری کررہے تھے اس لیے وہ جل گئے کسی نے غربت کو ذمہ دار ٹھہرایا تو کسی نے حکمرانوں کو اسکا ذمہ دار کہا ابھی یہ واقعہ رونما ہوا ہی تھا کہ ایک اور شہر میں لوگ ایک کولڈ ڈرنکس کی گاڑی سے بوتلیں اٹھاتے ہوئے نظر آئے اور پھر کراچی میں ایک تیل کا ٹرالر ایکسیڈنٹ کی وجہ سے بند ہوا تو وہاں پر بھی لوگوں نے تیل اکٹھا کرنا شروع کردیا اس میں قصور صرف جہالت کا جو ہم نے اپنے اوپر طاری کررکھی ہے اور اسی جہالت کی بدولت ہم پستی کی دلدل میں ڈوبے ہوئے ہیں ہم نے اپنے سے زیادہ جاہلوں کو اپنے اوپر حاوی کررکھا ہے جوہم سے زیادہ لوٹ مار میں مصروف ہیں ہم کسی جگہ تیل گرا ہوا اکٹھا کرنا شروع کردیتے ہیں تو کسی جگہ سے الٹنے والے ٹرک کا سامان چرانا شروع کردیتے ہیں جسکا جتنا ظرف ہوتا ہے وہ اتنا ہی دوسرے کے مال پر ہاتھ صاف کرجاتا ہے ہمارے دیہات میں رات کے وقت دوسروں کے گنے، کنو ،امرود اور دیگر پھل چرانا معمول ہے بعض لوگ تو ایک دوسرے کی گائیں اور بھینسیں بھی چرا لے جاتے ہیں۔
لاکھوں اور کروڑوں روپے لگا کرالیکشن جیتنے والے ہماری محبت میں اتنا خرچہ نہیں کرتے بلکہ وہ ہم سے کئی گنا زیادہ مال اکٹھا کرنے کے لیے اتنی بھاری سرمایہ کاری کرتے ہیں ہم بھی انہیں ووٹ دیتے ہیں جو ہمارے لیے بریانی کی دیگیں پکائے ،چائے پلائے ، کھابے کھلائے ا ورفی ووٹ پانچ ہزار یا اس بھی زائد ادا کرے اتنا خرچہ کرنے والا امیدوار کروڑوں روپے پارٹی فنڈ کے نام پر دیکرجن سے پارٹی ٹکٹ لیتے ہیں وہ سب سے بڑے ڈاکو ہوتے ہیں جو ملکی دولت لوٹ کر کبھی سوئس بنکوں میں کھاتے کھولتے ہیں تو کبھی آف شور کمپنیوں کے زریعے پیسے باہر بھجواتے ہیں پاکستان میں ہر فرد ہر ملازم لوٹ مار میں مصروف ہے سوائے چند لوگوں کے جو اللہ کے خوف سے ڈرے ہوئے ہیں جن کو یقین ہے کہ ایک دن یوم حساب ہوگا اور وہاں پر ایک ایک گناہ اور ہربرے کام حساب کتاب ہوگایہاں پر سب سے چھوٹے درجے کا تاجر ایک رہڑی والا ہے اس سے بھی جب آپ فروٹ خریدیں تو وہ گاہک کو ہاتھ نہیں لگانے دیگا اگر گاہک اپنی مرضی کریگا تو وہ رہڑی والا اسے فروٹ نہیں دیگا اور اس کی بے عزتی کردیگا گھر میں آکر فروٹ کا تھیلا کھولیں تو اس میں سے خراب اور گلے سڑے لازمی نکلیں گے اسی طرح آپ بڑے سے بڑے تاجر اور صنعت کار کا جائزہ لے لیں وہ بھی کسی نہ کسی چوری میں ملوث پایا جائیگارہ گئی ہمارے سرکاری اداروں کی بات تو وہاں کا خانہ ہی خراب ہوچکا ہے رشوت اور سفارش کے کلچر نے تباہی پھیلارکھی ہے تھانے بکے ہوئے ہیں۔
چھوٹے چور جیلوں میں اور بڑے اقتدار کے ایوانوں میں ہیں جب تک بحیثیت قوم ہم اپنا قبلہ درست نہیں کرتے اس وقت تک یہاں کوئی بہتری نہیں آسکتی اور اس تبدیلی کا آغاز سب سے پہلے ہمیں اپنے اندر سے کرنا ہوگا ہم اپنے اردگرد بسنے والے ایسے افراد کو اپنا ووٹ دیں جو صاحب ایمان ہو،خوف خدا رکھنے والا ہو،ایماندار ہو ،محب وطن ہو،لوٹ مار میں ملوث نہ رہا ہو،تھانہ کچہری کی سیاست میں الجھا کرلوگوں سے پیسے بٹورنے والا نہ ہو ،آپ اسے جانتے ہوں اور وہ آپ کو بھی جانتا ہو مجھے پوری امید ہے کہ ایسے افراد ہم میں موجود نہیں ہیں مگر پھر بھی کسی نہ کسی میں ایسی چند ایک خصوصیات شائد موجود ہو اس لیے بڑے ڈاکووں کی بجائے چھوٹے چوروں کو موقعہ دیاجائے تو شائد کچھ بہتری پیداہوجائے ورنہ ہمارے حالات میں بہتری کوئی کوئی گنجائش نہیں اب تو ہم صرف گری ہوئی چیزوں کو اکٹھا کرتے ہیں اور آنے والے دور میں ہم ایک دوسرے سے چھیننے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرینگے کیونکہ ہمیں علم ہوگا کہ یہاں پر سب ہمارے جیسے ہی ہیں جیلوں میں وہی بند ہونگے جن کے پاس دینے کو کچھ نہیں ہوگا ایسے وقت سے ڈرنا چاہیے اور ہمیں اپنے جذبات اور احساسات کی قربانی دیتے ہوئے ملک کے استحکام اور ہجوم سے قوم بننے تک قیام پاکستان جیسی ہمت ،جرات اور طاقت کی ضرورت ہے اللہ تعالی ہمیں بھی ترقی یافتہ قوموں میں شامل فرمائے (آمین)۔