تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر مملکت پاکستان کا سب سے اعلی اور مقدس ایوان جسے قومی اسمبلی کے نام سے جانا جاتا ہے کل یہ اسمبلی سکول کی اسمبلی بھی نہیں لگ رہی تھی حالانکہ اس اسمبلی میں چھوٹے چھوٹے نا سمجھ بچے شریک ہوتے ہیں وہ بچے ہو کر اپنی اسمبلی کے تقدس کو پامال کرنے کی ہمت نہیں کرتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس اسمبلی کے باوقار ہونے سے ہمارے سکول کا وقار سلامت ہے مگر افسوس کہ جس اسمبلی نے پوری قوم کے وقار کو دنیا کے سامنے پیش کرنا ہوتا ہے ،جس اسمبلی میں پوری قوم کے چنیدہ لوگ شرکت کے اہل ہوتے ہیں، جس اسمبلی میں ملکی قوانین مرتب ہوتے ہیں، جس اسمبلی میں پوری قوم ایسے لوگوں کا چنائو کر کے منتخب کرتی ہے کہ راہنمایان ملک و ملت ہیں یہ راہبران قوم ہیں اگر قومی وقار کی حامل اسمبلی کے وقار کی دھجیاں اڑائی جائیں اسی مقدس اسمبلی میں ماں ،بہن ،بیٹیوں کی گالیاں دینا فخر سمجھا جائے وہی تمام لوگ ایک دوسرے کا گریبان پکڑ کر اک دوجے کو کھینچ رہے ہوں جن کے بینرز اور اشتہارات پر الیکشن کے وقت یہ لکھا جاتا ہو کہ شرافت کا پیکر ،دیانتدار قیادت ،دھرتی کی خدمت سے سرشار بے باک راہنما تو کیا کل یہ لوگ ان ساری باتوں پہ پورے اترتے ہوئے دکھائی دیئے۔
بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ایسے لوگ جو ملک کے اعلی ترین ایوان کے تقدس کو پامال کریں ان کا پیکر شرافت سے کوسوں دور ،دیانتداری تو اسی وقت ان لوگوں کی مشکوک ہوجاتی ہے جب تمام کے تمام اپنی اپنی ذمہ داریوں کو پس پشت رکھ کر صرف شخصیت پرستی کی نیت سے ایک شخص کی اقتدا میں کھڑی ہو جائے بالخصوص وہ وزراء کے جن کی ذمہ داری ہے کہ اپنی اپنی وزارت کے امور کو نمٹائیں کیونکہ جب وزارت کا قلمدان تھام لیتے ہیں تو وہ ساری قوم کی خدمت پر مامور ہو جاتے ہیں مگر ہمارے ہاں کا باوا آدم ذرا وکھری ٹائپ کا ہے یہ تو آوے کا آوا ہی اپنی صیح سمت سے ہٹا ہوا دکھائی دے رہا ہے سارے معزز ممبران بشمول وزراء جن کے سر پر ایک ہی خبط سوار ہے کہ اگر ہم نواز شریف کے حق میں ایک دن بھی غلطی سے اگر نہ بولے تو ہمیں پارٹی سے بن باس مل جائے گا۔
ایسی ہی کچھ کیفیت پاکستان تحریک انصاف کے ممبران کی بھی ہے اصل میں تمام لوگ ذہنی طور پر پانامہ کے معاملے میں اس قدر بد حواس ہو چکے ہیں کہ مقدس ایوان کا تقدس یکسر فراموش کر بیٹھے ہیں میری ناقص رائے کے مطابق جو جو بھی ایوان کے تقدس کو مجروح کرنے کا باعث بنا ہے ایسے ممبران کی رکنیت ہی ختم کر دینی چاہئے وہ اس قابل ہی نہیں کہ اس مقدس ایوان میں داخل ہو سکے مگر ایسا ہو گا نہیںایسا کرے گا کون ؟کیا سردار ایاز صادق ایسا کرنے کی ہمت کریں گے ؟زیادہ سے زیادہ یہ ہو گا کہ وہ پی ٹی آئی کے ممبران پر اسمبلی میں داخلہ بند کر دیں گے اور اپنے ممبران کو مقدس گائے سمجھتے ہوئے کچھ بھی کہنا گنائہ عظیم شمار کریں گے۔
اس کے علاوہ ہو گا بھی کچھ نہیں آپ دیکھ لیجیئے گا ۔نہ تو محترم معین وٹو کے خلاف کوئی ایکشن ہو گا اور نہ ہی شاہد خاقان صاحب کو کچھ کہا جائے گا حالانکہ چاہئے تو یہ کہ جو چار لوگ اسمبلی کے سیشن میں بد امنی کا باعث بنے انہیں باعزت طریقے سے اسمبلی سے ہی رخصت کر دیا جائے ایسا کرنے سے جناب سپیکر کی غیر جانبداری مشکوک نہیں ہو گی بلکہ ان کے احترام و منزلت میں اضافہ ہو گا ۔اب بات کر لیتے ہیں اس وجہ کی جس سے یہ سارے جھگڑے ظہور پذیر ہو رہے ہیں اور وہ ہے پانامہ لیکس کا معاملہ اسی کی بنیاد پر ہر روز سپریم کورٹ کے باہر بھی سیاسی اکھاڑ ہ سجتا ہے جس میں حکومتی وزراء اپنے فرائض کو بالائے طاق رکھ کر وزیر اعظم کے دفاع میں کمر بستہ ہو کر عمران خان اور اس کی پارٹی کو لتاڑنے میں مشغول دکھائی دے رہے ہوتے ہیں۔
جوش خطابت میں ناجانے کیا کیا کچھ بول جاتے ہیں کبھی کسی کو نظر کا معائینہ کروانے کا مفید مشورہ دیتے ہیں تو کسی کے دانت کمزور سمجھتے ہوئے خود کو لوہے کا چنا کہہ رہے ہوتے ہیں دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کے لوگ بھی پیچھے رہنا اپنی ہتک گردانتے ہوئے میڈیا سے بات کرنے کے بہانے پی ایم ایل (ن) کو کھری کھری سنا نے میں پیش پیش دکھائی دیتے ہیں۔عزت مآب چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس ثاقب نثار صاحب سے اپیل ہے کہ سپریم کورٹ کے احاطے میں اس طرح کی سیاسی مجمع بازی پر سختی سے پابندی عائد کرنے کا حکم نامہ جاری کریں اور جو پھر بھی باز نہ آئے اس پر توہین عدالت کا سخت ترین کیس بنا دیا جائے وہ چاہے حکومتی وزراء ہوں یا پی ٹی آئی کے لوگ یہ حکم سب پر یکساں لاگو ہو دوسری بات یہ کہ دونوں پارٹیاں جب سماعت کے بعد باہر نکلتی ہیں تو اپنی اپنی جیت کا دعوی کرتی ہیں ساری قوم اس پانامہ کے ڈرامہ کی وجہ سے ذہنی مریض بنتی جا رہی ہے لہذا سماعت کو برائے راست دکھایا جائے تا کہ پوری قوم ان سیاسی شعبدہ بازوں کی شعبدہ بازیوں کی بھینٹ نہ چڑھے یہ جو روزانہ کی بنیاد پر سپریم کورٹ کی توہین ہو رہی ہے اور پھر قومی اسمبلی کے وقار اور تقدس کو جس طرح پائوں میں روندا جا رہا ہے کیا محب وطن اس طرح کی حرکتیں کرتے ہیں ؟جو اعلی ترین عدالت اور اعلی ترین ایوان کی بے توقیری کا باعث بنیں۔
Panama Leaks
قارئین کرام جس بات کو لے کر ملک کی دو بڑی پارٹیاں آپس میں دست و گریبان ہو رہی ہیں آیئے ذرا اپنے تئیں اس پانامہ معاملے پر غو ر کرنے کی کوشش کرتے ہیں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ جو پانامہ پیپرز کا معاملہ ہے یہ عمران خان کا گھڑا ہو ا کیس تو ہے نہیں اس کی زد میں دنیا بھر کے لوگ آئے جیسا کہ آئس لینڈ کا وزیر اعظم بھی اس زد میں آیا اس نے فوری طور پر اپنے عہدے کو چھوڑ دیا حالانکہ پانامہ پیپرز کے مطابق آف شور کمپنیاںاس کی بیوی کے نام تھیں اس نے سوچا کہ مجھے اب یہ عہدہ رکھنا کسی صورت بھی گوارا نہیں برطانوی وزیر اعظم کے باپ کی آف شور کمپنیوں کی وجہ سے اسے اپنی پارٹی اور عوام کو جواب دینا پڑا بالکل اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے بھاری بھرکم مینڈیٹ والی اسمبلی کے اراکین و وزراء کو اور مسلم لیگ (ن) کو چاہئے تھا کہ اپنی پارٹی کے سربراہ اور پاک دھرتی کے حاکم وزیر اعظم سے ماں دھرتی کی عزت کو پیش نظر رکھتے ہوئے خود جواب مانگتے کہ جناب آپ اس وطن کی حکومت کی سربراہی پر فائز ہیں یہ جو پانامہ پیپرز میں آپ کا یا آپ کی فیملی کا نام آرہا ہے اس کو کلئیر کریں اور جواب دیں۔
اسی طرح محترم وزیر اعظم صاحب کو بھی چاہئے تھا جس وقت انکا یا انکی اولاد کا نام آیا وہ خود بخود اپنا عہدہ چھوڑ کر اپنی صفائی قوم اور اپنی پارٹی کو پیش کرتے کہ میں دھرتی ماں کا فرزند ہوں اور یہ کیس میری شخصیت کو داغدار کر رہا ہے لہذا جب تک میں اس داغ سے اپنا دامن صاف نہ کر لوں مجھے اس عہدے پر رہنے کا کوئی حق نہیں ان کی پارٹی بر سر اقتدار تھی کسی کو بھی اتنا عرصہ یہ عہدہ تفویض کر کے خود اپنی پاک دامنی ثابت کر کے ہمیشہ کے لئے قوم کے ہیرو بن سکتے تھے مگر انہوں نے ایسا کرنا مناسب نہ سمجھا اگر وہ ایسا کر لیتے یا ان کی پارٹی ہی ان سے جواب مانگ لیتی تو مخالفین اپنی موت آپ مر جاتے کسی مخالف پارٹی کو اپنی سیاست چمکانے کا موقعہ نہ مل پاتا ۔ جب نہ تو ان کی پارٹی نے انکے خلاف کوئی ایکشن لیا اور نہ ہی محترم وزیر اعظم صاحب نے اپنے اخلاقی اور قومی فریضے کو ملحوظ رکھا تب مخالفین کو تو موقع ملنا ہی تھا نا ۔تیسری بات یہ کہ جب سے یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے ایک دن بھی نہ تو وزیر اعظم صاحب نے عدالت میں قدم رنجہ فرمائے اور نہ ہی ان کی اولاد میں سے کسی نے عدالت جانا گوارا کیا ۔یہ بات اپنی جگہ کے انکے وکلاء عدالت میں جا رہے ہیں مگر یہ وزراء کا لائو لشکر اپنی ذمہ داریوں کو ایک طرف رکھ کر اپنے قومی فرائض بھول کر روزانہ عدالت کس چکر میں جا رہے ہیں۔۔
یہ تمام اکابرین ملت اپنے دفاتر میں اتنے تسلسل اور دلجمعی سے کیوں جا کر اپنے ملی فرائض کی انجام دہی کیوں سر انجام نہیں دے رہے قارئین کرام پانامہ پیپرز میں نہ تو طلال چوہدری صاحب نامزد ہیں اور نہ ہی دانیال عزیز صاحب کا نام گونج رہا ہے ،خواجہ آصف اور خواجہ سعد رفیق جیسی شخصیتوں کا بھی پانامہ میں کہیں ذکر خیر نہیں یہ تمام صاحبان وزراء ہیں تو پاکستان کے یہ نمائیندے ہیں تو عوام کے ان حضرات کو مسند وزارت تک رسائی پاکستانی قوم نے دی ہے پھر یہ صرف اور صرف وزیر اعظم کے لئے کیوں سب سے آستینیں چڑھائے آمادئہ جنگ نظر آرہے ہیں عزت مآب وزراء صاحبان میری آپ لوگوں سے فقط اتنی گزارش ہے کہ قابل ترین وکلاء کی ٹیم جب وزیر اعظم اور ان کی فیملی کے دفاع کے لئے موجود ہے تو آپ لوگ انکو احسن طریقے سے کیس کا دفاع کرنے دیں یہ ساری کیبنٹ کا روزانہ سپریم کورٹ جانا میری سمجھ سے تو بالا تر ہے اس طریقے سے تو یہ کیس سلجھائو کی بجائے الجھائو کی طرف جاتا ہوا نظر آرہا ہے اس کیس کی حدت جب دماغوں میں لے کر اسمبلی میں جائیں گے دونوں ذہنی طور پر الجھے ہوئے فریق تو فساد ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں پھر جب آپ دونوں فریقین اسمبلی میں دست و گریبان ہوں گے۔
خواتین ممبران کی اسمبلی میں موجودگی کو آپ لوگ بالائے طاق رکھ کرایک دوسرے کو ماں بہن کی گالیاں دیتے ہوئے ایک دوسرے کو لاتوں اور تھپڑوں میں رکھ لیں گے تو کونسا چہرہ دکھا رہے ہوں گے ہم اپنے مہذب ہونے کا دنیا کو ؟کیااسطرح ہم ملک و قوم کی کوئی خاص خدمت کر رہے ہیں کیا پیغام دے رہے ہیں ہم دنیا کو کہ بیس کروڑ لوگ مل کر جن لوگوں کو چنتے ہیں وہ ایسے ہوتے ہیں دیکھیں صاحبان عقل و خرد اپوزیشن تو شور کرتی ہے مگر حکومت کو کھلے دل اور وسیع النظری کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے مگر ہم اس وقت بیس کروڑ لوگوں کے نہیں بلکہ فرد واحد کے نمائندوں کے روپ میں خود کو پیش کر رہے ہیں۔
کل کے واقعے کے پیش نظر انصاف کا تقاضہ تو یہی ہے کہ بلا تفریق پارٹی جو جو لوگ اسمبلی کی تذلیل کا باعث بنے سپیکر صاحب ان کی رکنیت منسوخ کر کے قومی ہیرو بنیں اور غیر جانبداری کی اعلی ترین تاریخ رقم کریں بصورت دیگر اللہ ہی حافظ ہے کیونکہ یہ ایوان مسلم لیگ (ن) کا ایوان نہیں ،یہ اسمبلی پاکستان تحریک انصاف کی ملکیت نہیں ،اور نہ ہی پاکستان پیپلز پارٹی ،جماعت اسلامی ،اے این پی ،یا دیگر پا رٹیوں کی وراثت ہے یہ ایوان پاکستان کا اعلی ترین ایوان ہے جو بھی اس کی تضحیک یا تذلیل کا باعث بنے وہ خواہ کسی بھی پارٹی کا رکن ذیشان ہو اسے اس مقدس ایوان میں رہنے کا کوئی حق نہیں دیکھتے ہیں کہ جناب سپیکر سردار ایاز صادق صاحب اپنی ذمہ داری بحثیت پاکستانی نبھاتے ہیں یا بحثیت مسلم لیگی ۔ عہدے تو سب کے پاس بڑے بڑے ہیں وزارتیں بھی ہیں ،مشیر بھی ہیں ، سپیکر بھی ہیں ،ممبران نیشنل اسمبلی بھی ہیں سوال یہ ہے کہ اپنا فیصلہ کرنے میں آزاد بھی ہیں کیا اس اعلی ایوان کے تقدس کو مجروح کرنے والوں کے خلاف کوئی ایکشن لینے میں خودمختار بھی ہیں کیا یا صرف اس کی زد میں صرف پی ٹی آئی والے ہی آئیں گے اگر ایسا ہوا تو ساری قوم آپ لوگوں کے بارے میں یہی کہے گی کہ سر پہ ہے تاج آزادی بیڑیاں ہیں پائوں میں۔
Dr M H Babar
تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر Mobile ;03344954919 Mail ;mhbabar4@gmail.com