گوجرانوالہ (جیوڈیسک) معصوم زینب فرشتہ تھی ، روشن کل کی امید تھی لیکن دولت کی بچاری سنگ دل ٹیچر نے سب کچھ اجاڑ دیا۔ ملزمہ عائشہ اسکول میں بھی زینب کی ٹیچر تھی اور ٹیوش بھی پڑھاتی تھی۔
آٹھ جنوری کو سنگ دل عائشہ نے پاپولر نرسری کے تاجر عنصر مغل کے آنگن کی کلی چار سال کی زینب اور اس کی والدہ کو داخلہ فارم پر کرنے کے بہانے بلایا۔ والدہ کو فارم پر کرنے میں الجھایا اور ملزمہ کے دوست نے زینب کو بے ہوش کر کے اغواء کر لیا۔ پہلے 32 لاکھ روپے تاوان مانگا لیکن بات تین لاکھ پر طے ہو گئی۔
زینب کے والدین رقم لے کر پہنچے تو زینب بے ہوش تھی۔ اسپتال پہنچایا تو ڈاکٹروں نے ابدی نیند کی تصدیق کر دی۔ والدین کی دنیا لٹ گئی رشتے دار دو دن تک احتجاج کرتے رہے۔ مظاہروں میں شدت آنے پر پولیس نے یقین دہانی کرائی کہ ملزمان تک پہنچ جائیں گے۔ دن رات محنت کے بعد پولیس ملزمہ عائشہ تک پہنچ گئی جس نے اعتراف جرم کر لیا۔
پولیس ملزمہ کے ساتھی کو تلاش کر رہی ہے۔ بڑے المیوں اور سانحات کو بھول جانے والے “ہم” اس واقعہ کو بھی چھوٹا سا واقعہ سمجھ کر کل بھول جائیں گے لیکن یہ سوال چھوڑ گیا کہ ہم اپنا دین، فرض اور اخلاقیات سب کچھ بھول چکے ہیں۔ جانے آنے والا کل کون سا نیا سانحہ لے کر آئے۔