ظالموں تم ہار گئے ہو

Peshawar Tragedy

Peshawar Tragedy

تحریر: محمد عبداللہ بھٹی
آج وطن عزیز کا ہر باسی دُکھ درد اور آہوں میں غرق ہو چکا ہے۔ سانحہ پشاور نے اہل وطن کو دلخراش ناقابل ِ برداشت کرب میں مبتلا کر دیا ہے۔ پورا ملک نہیں بلکہ پوری دنیا سکتے کی سی کیفیت سے دو چار ہے۔ بلا شبہ انسانی تاریخ میں دہشت گردی ظلم و بربریت کا یہ سب سے بڑا اور اندوہناک واقعہ ہے جس نے اہلِ وطن کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ پورے ملک میں کہرام برپا ہے 132 معصوم گلاب کے پھولوں کی طرح زندگی کی حرارت سے بھر پور تازہ معصوموں کو پرنسپل اور ٹیچرز سمیت درندگی کے ساتھ گولیوں سے بھون دیا گیا۔

معصوم پھولوں کی لاشوں کو سیڑھیاں بنا کر جنت کی خواہش رکھنے والے یہ درندے، پتھر کے دور کے جانور نما انسان یہ کون لوگ تھے یقین نہیں آتا۔کسی دانا نے کیا خوب کہا ہے کہ اگر آپ زندگی سے بے زار ہو جائیں زندہ رہنے کی خواہش نہ رہے تو آپ کسی معصوم بچے کو مسکراتا ہوا یا کھیلتا ہو دیکھیں ساری اداسی ڈپریشن اور مایوسی ختم ہو جائے گی آپ زندگی کی طرف واپس آجائیں گے۔ آپ ظالم سے ظلم اور پتھر دل والے انسان کو کوئی لوہے کا راڈ دے دیں اور کہیں کہ وہ کسی معصوم بچے کے سر پر مارے تو وہ آپ کی جان کو آجائے گا کہ تم نے یہ سوچا بھی کیوں۔ کوئی بھی نارمل انسان ایسا کرنا تو کیا ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔

لیکن 16 دسمبر کو آرمی پبلک سکول پشاور میں وحشی درندوں نے کس طرح یہ دلخراش اور انسانی تاریخ کی سیاہ ترین حرکت کی یہ انسان تھے ، جانور ، ربوٹس یاعفریت کون لوگ تھے یہ ۔ انسانی ذہن سوچھ کر عاجز آجاتا ہے کہ یہ کون لوگ تھے یہ کسی درد اور رشتے سے واقف نہ تھے انہیں کس ماں نے جنا کون اِ ن کا باپ تھا اِن کو بہن بھائیوں کے درد کا احساس نہ تھا۔ یہ خدا رسول ۖ کو مانتے تھے یا نہیں کیا اِن کا کسی تہذیب ، معاشرے ، مذہب ، اخلاقیات سے کبھی واسطہ نہیں پڑااِن کی پرورش کہاں پر ہوئی یہ کس دھرتی معاشرے یا سیارے سے آئی مخلوق تھی کہ ظلم و بربریت کی تمام حدوں کو کراس کر گئے۔ اخبارات اور ٹی وی سکرینوں پر زخمی پھولوں کی تصاویر دیکھ کر کلیجہ پھٹنے لگتا ہے اور سانسیں سینے سے گھٹنے لگتی ہیں ہم تصاویر نہیں دیکھ پا رہے اور اُنہوں نے زندہ جیتے جاگتے معصوم پھولوں کو گولیوں سے اُدھیڑ کر رکھ دیا ۔ وہ معصوم بچے جن کی آنکھوں میں مستقبل کے سہانے اور روشن خواب تھے جن کے چہروں پر دلنواز مسکراہٹیں اور معصومیت کو نور پھیلا تھا اُن معصوم چہروں کو کس طرح گولیوں سے بھون ڈالا ۔ اِس اَلم ناک اور دلخراش واقعہ نے اہلِ وطن کی طرح میرے دل و دماغ کو بھی شیل کر کے رکھ دیا ہے ۔ کئی بار کچھ لکھنے کی کوشش کی لیکن ذہن ماوف کا ماوف قلم نے ایک لفظ بھی لکھنے سے انکا ر کر دیا ۔ مجھے ساری زندگی کبھی بھی الفاظ کی کمی کا احساس نہیں ہو ا لیکن اِس بار ایک بھی لفظ نہیں دل و دماغ ایک الم ناک سناٹے کا اسیر ہو کر رہ گئے۔ غم ، درد اور بے پناہ دل و دماغ کے بعید ترین گوشوں تک رسائی کر گیا۔تمام ذہنی صلاحیتیں مفلوج ہو کر رہ گئیں۔ کئی دن میں نے کچھ لکھنے کی کوشش کی لیکن ناکامی ہوتی۔

Peshawar Incident

Peshawar Incident

جب بھی لکھنے کی کوشش کرتا تو معصوم پھولوں کے چہرے ، بستے ، جوتے ، لنچ بکس ، کاپیاں ، پنسلیں ، کرسیاں ، کلاس رومز ، روتے بلکتے ماں باپ عزیز اقارب ، سائرن بجاتی ایمبولینس گاڑیاں پاک فوج کے بہادرفوجی ، بچوں کی جان بچاتے ہوئے اور جا بجا جگہوں پر معصوم بچوں کا بکھر اہو خون ۔ میری قوت برداشت جواب دے جاتی شدت غم اور ناقابلِ برداشت کرب سے میری آنکھوں سے اشکوں کا سیلاب بہہ نکلتا کاغذقلم دھرے کے دھرے رہ جاتے اور میں دیر تک اشک ریزی کرتا رہتا جب شدت غم سے طبیعت نڈھال ہو جاتی تو سانسیں سینے میں رکتی ہوئی محسوس ہوتیں تو میں کمرے سے بھاگ کر کھلے آسمان کے نیچے چلا جاتا آسمان کی طرف شکائتی اور ملتجی نظروں سے دیکھتا کہ اے پروردگار تو تو رحمن ، رحیم ، کریم ہے تو تو الرحم الراحمین ہے توُ تو ماں سے زیادہ رحم دل اور شفیق ہے تو یہ اندو ہناک سانحہ کیوں ۔ یہ دوسرا کربلا کیوں برپا ہواپھر دیر تک خالقِ کائنات سے رحم او رمدد کی دعائیں کرتے کرتے رات گذر جاتی زندگی میں پہلی بار ایک عجیب سا خلا اور خالی پن پیدا ہو گیا تھا ۔ ایسا وسیع خالی پن جس کا تا حدِ دور تک کوئی کنا را نہ ہو ۔لیکن ہمیشہ کی طرح رب کائنات نے مدد کی اور گہری تاریکیوں میں امیدکی کرن جاگی میری شروع سے ہی یہ عادت ہے کہ جب بھی کبھی کوئی دکھ تکلیف یا مایوسی مجھے کبھی گھیر لیتی ہے یا جکڑ لیتی ہے اور میں پوری کوشش سے بھی نہ نکل سکوں تو میں جنگلوں میدانوں اور دریائوں کا رخ کرتا ہوں جہاں ہر سو اللہ تعالی کی شان نظر آتی ہے غفور و رحیم کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے۔ بہت سارا وقت فطرت کے ساتھ گزار کر طبیعت کی گرانی اور تکلیف کم ہو جاتی ہے۔

آج بھی میں اپنا درد کم کرنے لیے لاہور کے وسیع و عریض پارک میں لمبی واک کے لیے آیا ہوا تھا تو یہاں دو گھنٹے کی تھکا دینے والی پیدل واک کے بعد میں پارک کے ایسے حصے میں آکر بیٹھ گیا جہاں پر پارک انتظامیہ نے بہت سارے ہرن کھلے چھوڑے ہوئے تھے میں اُن کو ادھر اُدھر دوڑتے ہوئے ایک دوسرے سے پیار کرتے ہوئے دیکھ رہا تھا ۔میں اِس منظر میں اتنازیادہ ڈوب گیا کہ مجھے گردوپیش کی بلکل بھی خبر نہ رہی جب کافی دیر بعد میں ہرنوں کے اِس دل فریب منظرسے نکلا تو میں نے دیکھا کہ ایک نوجوان لڑکا مُجھ سے تھوڑی دور بیٹھا میری طرف دیکھ رہا ہے میں نے سر سری نظر سے اُس کو دیکھا تو اُس نے ہا تھ کے اشارے سے مجھے سلام کیا اُس کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ وہ مُجھ سے ملنا چاہتا ہے تو میں نے اُس کو اشارے سے اپنے پاس بلا لیا وہ بہت ادب و احترام سے میرے پاس آکر بیٹھ گیا ۔ شدید سردی اور کُہر کی وجہ سے اُس نے گرم شال میں خود کو لپیٹا ہوا تھا ۔جب وہ میرے قریب آکر بیٹھ گیا تو میں نے غور سے اُس کے چہرے کو دیکھا تو مجھے لگا میں اِس نوجوان سے شاید پہلے بھی مل چکا ہوں وہ بہت دکھی اور پریشان لگ رہا تھا ۔اس کے چہرے پر دکھ ، درد اور وحشت برس رہی تھی۔ اُس کے چہرے پر وہ رونق نہیں تھی جسے زندگی سے تعبیر کیا جاتا۔اس کی آنکھوں سے لگ رہا تھا کہ وہ کئی دنوں سے رو رو کر تھک گئی ہیں وہ برسوں کا بیما ر لگ رہا تھا۔ جیسے اپنی زندگی کے سب سے بڑے دکھ اور کرب کو جھیل رہا ہو۔ وہ بولنے کی کو شش کر رہا تھا لیکن شدت غم سے اُس بولا نہیں جا رہا تھا جیسے قوت گویائی سلب ہو چکی ہو ۔ میں اُس کو تکلیف میں دیکھ کر پریشان ہو گیاتھا اور اُسے پیار اور شفقت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ میرے حوصلہ دینے پر اُس کی زبان سے الفاظ ٹوٹ ٹوٹ کر ادا ہونا شروع ہو ئے۔ شدت غم سے اُس کے ہونٹ لرز رہے تھے سر آپ نے مجھے پہچانا نہیں میں وہی نوجوان ڈاکٹر ہوں جو MBBSتیسرے سال کو سٹوڈنٹ تھا اور امریکہ کے خلاف جہاد کرنے گھر سے بھاگ گیا تھا۔

میرے گھر والے جب مجھے سمجھا سمجھا کر تھک گئے اور جب میں نے اُن کی ایک بھی بات نہ مانی تو وہ مجھے سمجھانے کے لیے آپ کے پاس لائے تھے میرے ماں باپ کئی بار مجھے آپ کے پاس لائے آپ نے بھی گھنٹوں مجھے سمجھایا لیکن میں نے آپ کی بھی نہ مانی اور ہر بار آپ سے بے ادبی اور گستاخی کرتا لیکن آپ نے ہمیشہ میرے ساتھ شفقت کی۔ سر نہ میں نے آپ کی مانی نہ دوستوں کی نہ گھر والوں کی میں ہمیشہ اپنے موقف پر قائم رہا کی موجودہ دور میں جنگ اِسی طرح ہی لڑنی چاہیے۔ لیکن سر جب سانحہ پشاور ہوا معصوم بے گناہ بچوں اساتذہ کو جس بے رحمی سے مارا گیا۔ جس طرح ماں باپ اور عزیز اقارب سڑکوں پر سکول اور ہسپتالوں کے درمیاں روتے بلکتے دوڑ تے رہے۔ جس بے رحمی سے معصوم پھولوں کو مسلا گیا، معصوم پھولوں کو جس طرح گولیوں سے چھلنی کیا گیا اُن معصوموں کی تڑپتی لاشیں ، چیخیں ، آہیں سسکیاں اور لڑ کھڑاتی آواز میں مدد کے لیے پکارنے میرے دل و دماغ کے زنگ کو دھو دیا مجھے حق دکھا دیا سر یہ اسلام نہیں یہ جہا د نہیں۔ یہ جنگ نہیں یہ ظلم ، درندگی اور وحشت اور تاریخ کا بد نما داغ ہے۔ وہ درد اور دکھ سے بولے جا رہا تھا اُس کی آوازاس قدر رِقت انگیز تھی کہ ایک ایک لفظ سے اُس کا درد جھلک رہا تھا ۔شدتِ غم سے اُس پر نیم بے ہوشی طاری ہوجاتی ‘سر میں نے اُن کو چھوڑ دیا ہے میں واپس آگیا ہوں میں ڈاکٹر بن کر دکھی ، لاچار بے بس مریضوں کی خدمت کرونگا۔ یہی اسلام یہی جہا د ہے۔ وہ تو بہ کی حقیقی لذت سے ہم کنا ر تھا سانحہ پشاور ظالمان کے ظلم و بربریت کے قلعوں میں ایسا گہرہ شگاف ہے جس کی مرمت کبھی نہیں ہوگی، وہ تمام لوگ جو ظالموں تم سے ہمدردی رکھتے تھے وہ بھی اب تمھیں چھوڑ گئے ہیں۔ پشاور میں معصوم بچوں کو مار کر تم جیتے نہیں بلکہ ظالموں تم ہار گئے ہو تم ہار گئے ہو۔

PROF ABDULLAH BHATTI

PROF ABDULLAH BHATTI

تحریر: محمد عبداللہ بھٹی