تحریر: مسز جمشید خاکوانی طائوس الحرمین (اصل نام ذکوان بن کیسان) علمائے تابعین میں رئیس العلماء کے لقب سے مشہور تھے 32 ہجری میں پیدا ہوئے پچاس صحابہ کو انہوں نے دیکھا تھا۔ اپنی عمر میں چالیس حج کیئے مستجاب الدعوات، بے مثل فقیہ و عالم اور پرہیزگار تھے 106 ہجری میں 72 سال کی عمر میں انتقال فرمایا۔ حجاج بن یوسف ثقفی اس زمانہ میں مکہ کا گورنر تھا اس نے بلوا بھیجا آپ ڈرتے ڈرتے گئے حجاج نے خلاف امید اپنی داہنی جانب مسند کے قریب جگہ دی۔ کچھ باتیں ہو رہی تھیں کہ یمن کا ایک شخص آیا حجاج نے اپنے بھائی محمد بن یوسف حاکم یمن کی خیر خریت پوچھی۔یمنی نے کہا جب میں نے اسے چھوڑا ہے وہ ریشمی کپڑے پہنے ہوئے تھا۔حجاج نے کہا میرا مطلب اس کے عادات و اطوار سے ہے۔
یمنی نے کہا وہ ظالم ،ستمگر ،بدکار اور خالق کا گنہگار ہے ۔حجاج نے آنکھیں بدل کر کہا تم کو معلوم ہے وہ میرا حقیقی بھائی ہے اور میرے نزدیک اس کا کیا رتبہ ہے یمنی نے جواب دیا میں اچھی طرح جانتا ہوں پھر زیادہ زبان کھلوانے کی کیا ضرورت ہے ۔حجاج تو خاموش ہو گیا اور زاہد یمنی بغیر اجازت واپس ہو گیا ۔طائوس الحرمین بھی کوئی بہانہ بنا کر اس کے پیچھے پیچھے روانہ ہو گئے دربار سے باہر آکر اس سے کہا آپ کی صحبت سے مستفید ہونا چاہتا ہوں ۔یمنی نے کہا یہ نہیں ہو سکتا جو لوگ بادشاہوں اور حاکموں کے ساتھ مسند پر تکیہ لگا کر بیٹھتے ہوں ان کو بوریا نشینوں کی صحبت سے کیا حاصل حالانکہ تم جانتے ہو کہ تم سے لوگ شرعی مسائل میں رجوع کرتے ہیں اور استغنا پوچھتے ہیں طائوس الحرمین نے کہا سچ ہے لیکن جیسا ہے ہمارا امیر ہے وہ ہم پر حکمران بنایا گیا ہے آپ بھی تو اس کے طلب کرنے پر فوراً چلے آئے یمنی زاہد نے کہا ۔جب تم کو حاکم وقت تک رسائی ہے تو رعایا کی ترجمانی کیوں نہیں کرتے ؟کیوں نہیں حق کی رغبت اور عدل و داد کی طرف توجہ دلاتے ،خدا کی نسبت خدا کے بندے کا خوف تجھ پر زیادہ غالب ہے۔
طائوس الحرمین نے کہا اب توبہ کرتا ہوں اور خدا سے بخشش کی دعا مانگتا ہوں اور التجا کرتا ہوں کہ اب تو اپنی صحبت سے مستفید ہونے کی اجازت دیجیئے یمنی نے کہا خدائے تعالےٰ تم کو حسن عمل کی توفیق دے۔میرا ایک رفیق بہت غیور اور صاف گو ہے لگی لپٹی نہیں رکھتا وہ علم پر عمل کو ترجیع دیتا ہے ڈرتا ہوں تم آگئے تو وہ چلا جائے گا یہ کہہ کر وہ یمنی زاہد جہاں سے آیا تھا وہیں چلا گیا ۔حجاج اپنے محل کے دریچے میں نشست فرما تھا عراق کے بعض سردار بھی حاضر تھے ایک لڑکا جس کے بال اس کی کمر تک لٹک رہے تھے فلک نما عمارت کو غور سے دیکھا ادھر اُدھر نگاہ کی اور با آواز بلند کہا ” کیا اونچی اونچی زمینوں پر نشان بناتے ہو ‘ بے فائدہ اور مضبوط قلعے بناتے ہو ‘اس خیال سے کہ کیا ہمیشہ جیتے رہو گے ۔”حجاج تکیہ لگائے بیٹھا تھا یہ سن کر سیدھا ہو گیااور کہا لڑکے تو مجھے عقلمند اور ذہین معلوم ہوتا ہے ادھر آ وہ آ گے آیا تو اس سے کچھ باتیں کرنے کے بعد کہا ۔کچھ پڑھو لڑکے نے پڑھنا شروع کیا ۔لڑکے نے پڑھنا شروع کیا۔
اعوذباللہ من الشیطن الرجیم اذا جاء نصر اللہ والفتح ور ایت الناس یخروجون من بین اللہ افوا جاً
ترجمہ۔ شیطان رجیم سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں ۔جبکہ خدا کی مدد اور فتح آئی اور تُو دیکھے کہ لوگ خدا کے دین سے فوج در فوج نکلے جا رہے ہیں
حجاج بولا ید خلون پڑھو ۔یعنی داخل ہوتے ہیں ۔۔۔۔لڑکا ۔ بے شک داخل ہی ہوتے تھے مگر تیرے عہد حکومت میں چونکہ لوگ دین سے نکلے جا رہے ہیں اس لیئے میں نے خروج کا صیغہ استعمال کیا ۔حجاج نے کہا تُو جانتا ہے میں کون ہوں ؟لڑکا، ہاں جانتا ہوں میں ثقیف کے شیطان سے مخاطب ہوں ۔حجاج نے کہا تُو دیوانہ ہے اور قابل علاج ہے ۔اچھا امیر ا لمومنین کے بارے میں کیا کہتے ہو؟لڑکا۔ خدا ابو الحسن(حضرت علی کرم اللہ وجہہ) پر رحمت کرے ۔ حجاج ۔میری مراد عبد الملک بن مردان سے ہے ۔ لڑکا۔اس نے تو اتنے گناہ کیئے ہیں کہ جو زمین و آسمان میں سما نہیں سکتے ۔حجاج ۔۔۔ذرا ہم بھی تو سنیں وہ کونسے گناہ ہیں لڑکا۔۔۔ان گناہوں کا ایک نمونہ تو یہ ہے کہ تجھ جیسے ظالم کو حاکم بنایا ۔اور تُو وہ ہے کہ غریب رعایا کا مال مباح اور خون حلال سمجھتا ہے۔۔۔۔
Islam
حجاج نے مصاحبوں کی طرف دیکھا اور کہا اس گستاخ لڑکے کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ سب نے کہا اس کی سزا قتل ہے کیونکہ یہ اطاعت پذیر جماعت سے الگ ہو گیا ہے ۔۔۔۔ یہ سن کر لڑکا بولا اے امیر ! تیرے مصاحبوں سے تو فرعون کے مصاحب اچھے تھے جنھوں نے حضرت موسیٰ اور ان کے بھائی کے متعلق فرعون سے کہا تھا ان کے قتل میں جلدی نہ کرنا چاہیئے ۔یہ کیسے مصاحب ہیں کہ (محض خوشامد کی وجہ ) سے بے سوچے سمجھے میرے قتل کا فتویٰ دے رہے ہیں ؟ حجاج نے یہ سوچ کر کہ اس معصوم لڑکے کے قتل سے ایک شورش عظیم برپا نہ ہو جائے نہ صرف اس کے قتل کا ارادہ ملتوی کر دیا بلکہ اب اسے خوف دلانے کی بجائے نرمی سے کام لینا شروع کیا اور کہا اے لڑکے !تہذیب سے گفتگو کر اور زبان بند رکھ ۔۔۔۔۔جا میں نے تیرے لیئے چار ہزار درہم کا حکم دے دیا ہے اس کو لے کر اپنی ضرورتیں پوری کر لے۔
لڑکا۔۔۔مجھے تیرے درہم و دام کی ضرورت نہیں خدا تیرا منہ سفید اور ٹخنہ اونچا کرے حجاج نے لڑکے سے کہا ۔ہم نے تیری نوخیزی پہ رحم کیا ہے اور تیری ذہانت،ذکاوت اور تیری جرت و جسارت کی وجہ سے تجھ پہ رحم کیا ہے اس کے بعد حجاج نے لڑکے سے اوربھی باتیں کیں ۔اس کے چلے جانے کے بعد اپنے مصاحبین سے کہا خدا کی قسم! میں نے اس سے زیادہ دلیر اور سر بکف کسی کو نہیں پایا اور امید ہے وہ بھی مجھ جیسا کسی کو نہ پائے گا ۔ قارئین! حجاج بن یوسف ایک ظالم کے طور پر تاریخ میں لکھا گیا جس کے شقاوت اور ظلم کے قصے آج بھی مشہور ہیں ۔یقیناً یہ قصے ہمارے موجودہ حکمرانوں نے بھی ضرور پڑھے ہونگے لیکن حیرت ہوتی ہے کہ وہ تاریخ کا رزق بنے ان ظالموں سے بھی دو قدم گے برھ گئے ہیں اور انہیں بالکل یاد نہیں کہ ایک دن انہیں اس عدالت میں پیش ہونا ہے جہاں یہ اربوں روپے کی رشوت نہیں چلے گی نہ انکی حاکمیت کی سفارش کسی کام آئے گی ،ہر دل کی آہ لے کر یہ ظالم کہاں جائیں گے؟میڈیا سے ان کے کارنامے سن سن کر کان پک گئے ہیں اپنی ہر کرپشن پر یہ اب ثبوت مانگتے ہیں ۔کاشف عباسی کے پروگرام میں اسد عمر کا کہنا تھا کہ ہم اب تھک گئے ہیں چودھری فواد نے کہا میاں نواز شریف نے کسی کو نہیں بخشا ،انکا کہنا تھا 80 کی دہائی تک کرپشن کا یہ رواج نہیں تھانواز شریف نے سیٹیں خریدنے کی ابتدا کی ،سپورٹس منسٹری انہوں نے جنرل جیلانی سے خریدی ،چیف منسٹری انہوں نے ضیا الحق سے خریدی،88میں دوبارہ چیف منسٹری اسلم بیگ سے خریدی انہوں نے 90کی دہائی میں پرائم منسٹری جنرل حمید گل سے خریدی ۔فواد چودھری کے مطابق اظہر سہیل نے اپنی کتاب میں جنرل آصف نواز جنجوعہ کا پورا قصہ بیان کیا ہے کہ انکی اصل لڑائی کیا تھی ۔جنرل آصف نواز کو بی ایم ڈبلیو کا تحفہ دیا گیا اس کا جو کی رنگ تھا اس میں لگے ڈائمنڈ کی قیمت بی ایم ڈبلیو کی قیمت سے بھی زیادہ تھی ،جنرل آصف نواز جنجوعہ چیف آف آرمی سٹاف تھے وہ لال بجھوکا ہو گئے یہیں سے کام خراب ہوا۔۔
اتفاق فائونڈری کے اثاثوں میں 1983سے1993تک سولہ سو پر سینٹ اضافہ ہوا ،اس پر پیپلز پارٹی کی حکومت نے فیصلہ کیا ہم اتنے پیسوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے سو انہوں نے گھٹیا کرپشن کی یعنی نوکریاں بیچنا شروع کر دیں کیونکہ ان کے پاس کارپوریٹ بزنس تو تھے نہیں ،نوکریاں بیچنے سے ادارے بیٹھ گئے کیونکہ میرٹ کی بنیاد پیسہ بن گیا ۔ نون لیگ کے ایم این اے محسن شاہنواز کا جواز تھا ۔ہر حکومت میں اپوزیشن پر کیس بنائے جاتے ہیں جو کہ اکثر جھوٹے ہوتے ہیں ،انہوں نے یہ جواز اسد عمر کے اس سوال کے جواب میں گھڑا جب انہوں نے پوچھا دو سال کے عرصے میں نیب میں کتنے کیسز آئے ،حج کرپشن اسکینڈل،رینٹل پاور کیس ،ایفیڈرین کیس ،شوگر ملز اسکینڈل یہ تو بڑے کیسز تھے ان کے خلاف حکومت نے ریفرنس کیوں نہین بھیجے ؟ رئووف کلاسرہ کا کہنا تھا جب ان کا اپنا انٹرسٹ ہوتا ہے ایف آئی اے راتوں رات ایگزیکٹ اور بول والوں کو دھر لیتی ہے لیکن عوام کی جیبوں پر جو ڈاکہ ڈلتا ہے اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا کیونکہ لوٹنے والے خود حکومت میں بیٹھے ہیں ۔وہ سمجھتے ہیں یہ سلسلہ شائد یونہی چلتا رہتا لیکن عمران خان نے عوام کی توجہ اس طرف مبذول کرا دی ہے اور پھر لوٹنے والے بھی آپے سے باہر ہو گئے ہیں لاکھوں سے اربوں تک کے ڈاکے پڑنے لگے ہیں ۔۔۔(رات گئے شرجیل میمن کے گھر حساس اداروں نے چھاپا مار کر دو ارب روپے برامد کر لیئے ہیں شائد چھاپے کی خبر پاکر ہی میمن صاحب دبئی جا بیٹھے اس لیئے گرفتاری سے بچ گئے ،ڈان نیوز نے یہ خبر بریک کی ہے ابھی تفصیلات آنا باقی ہیں )کچھ میڈیا نے عوام کا شعور بیدار کیا ہے اور کچھ ہر دور میں سچ بولنے والے بھی پیدا ہوتے رہتے ہیں جو کلمہ حق اس بے خوفی سے ادا کرتے ہیں کہ ظالم بھی سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔