ہم سب کالم نگاروں کے”سانجھے” محتسب جناب شاہد خورشید بڑی خاصے کی چیز ہیں ۔وہ اتنے ”ویہلے” ہیں کہ ہر روز کالم نگاروں کو اُن کی غلطیوں کی نشاندہی سے مزیّن ”ای میلز” بھیجتے ہیں اور مفادِ عامہ کے لیے یہی ”ای میلز” اڑھائی تین ہزار دیگر لوگوں کو بھی بھیجتے رہتے ہیں ۔ بڑے بڑے نامی گرامی کالم نگاروں کے کالموں میں درج کیے گئے اشعار کی غلطیاں نکالنا اُن کا محبوب مشغلہ ہے اور اب تو ما شاء اللہ وہ ”ہجوں” تک کی غلطیاں بھی نکال باہر کرتے ہیں۔حیرت ہوتی ہے کہ ہمیں تو اپنا لکھا پڑھنے کی فرصت بھی نہیں ہوتی لیکن ”یہ صاحب ” روزانہ سینکڑوں کالم کیسے پڑھ ڈالتے ہیں ۔ویسے ہمیں بھی جب کوئی کام نہیں ہوتا اور ایس ایم ایس کے ذریعے کوئی لطیفہ بھی ہمارے موبائل کی زینت نہیں بنتا تو ہم بھی اُن کی ”ای میلز” سے لطف اندوز ہولیتے ہیں ۔
اپنے انداز ِ تخاطب میں وہ نقاد کم اور ”ماشٹر” جی زیادہ لگتے ہیں ۔کہا جا سکتا ہے کہ وہ بھی کالم نگاروں کے لیے تحریکِ انصاف کی اُس”سونامی” کی مانند ہیںجس نے اوّل ، اوّل تو بڑے بڑوں کے چھَکّے چھُڑا دیئے لیکن جب لوگوں کو احساس ہوا کہ یہ تو خالی خولی”بڑھکیں” ہی ہیں تو پھر” میڈم سونامی” ایسے غائب ہوئی جیسے گدھے کے سَر سے سینگ۔ویسے تو فی الحال خورشید شاہد کی”دست درازیوں” سے کوئی بھی محفوظ نہیں لیکن اب کالم نگار بھی اُن کے ”طریقۂ واردات” کو کچھ کچھ سمجھنے لگے ہیں اِس لیے مُسکرا کر ٹال جاتے ہیں ۔ ایک اور بات کہ وہ ہمیشہ اُردو کالم نگاروں کی غلطیوں کی نشاندہی انگریزی میں کرتے ہیں۔اللہ اللہ اُردو سے اتنی نفرت؟۔ شاہد خورشید صاحب سے جان کی امان پاؤں تو ”ڈرتے ڈرتے” عرض کروںکہ تحریکِ انصاف کے ناقدین آجکل یہ گُنگناتے پھرتے ہیں کہ بہت شور سُنتے تھے پہلو میں دِل کا جو چیرا تو اِک قطرۂ خوں نہ نکلا
واقعی آجکل سونامی کی شوریدہ سری مفقودہے اور وہ شور جو الیکشن سے پہلے تھا اُس کا تو ڈھونڈے سے بھی نشاں نہیں ملتا ۔پہلے تو ہم انتظار میں رہتے تھے کہ دیکھیں اب سونامی کب اور کہاں کا رُخ کرے گی۔ ہم سے بھی کہیں زیادہ الیکٹرانک میڈیا سونامی کے اشتیاق میں مَرا جاتا تھا کیونکہ اُن دنوں تو الیکٹرانک میڈیا کی ”چاندی” ہو گئی تھی لیکن جونہی ”مَر جانے” 2013ء کے الیکشن ہوئے ہماری سونامی بھی ”ٹھُس” ہو گئی ۔حالانکہ ہمیں اُمیدِ واثق تھی کہ الیکشن کے ”دھاندلے” ضرور رنگ لائیں گے اور چِڑیا والے صاحب کے 35 پنکچر وں پر حشر بپا ہو گا ۔لیکن ہوا یوں کہ اپنے بڑے میاں صاحب محترم خاں صاحب کی عیادت کے لیے شوکت خانم کینسر ہسپتال جا پہنچے اور دورانِ عیادت پتہ نہیں کیا کیا عہد و پیماں ہوئے کہ سارا معاملہ ہی ”ٹھَپ” ہو کے رہ گیا۔ ہلکی پھُلکی موسیقی تو پھر بھی جاری رہی لیکن عوامی ”دھوم دھَڑکے” کا کوئی مظاہرہ دیکھنے کا شوق پورا نہ ہو سکا۔اب شاید ہمارے بھولے بھالے خاں صاحب کو کچھ کچھ ادراک ہو گیا ہے
Syed Khursheed Shah
اسی لیے ہلچل مچانے اور محوِ خواب سونامی کو جگانے کے لیے تحریکِ انصاف نے ماہِ مئی میں ریلیاں نکالنے کا پروگرام ترتیب دیا ہے ۔ دروغ بَر گردنِ راوی ”اندر کھاتے” میرے عظیم قائد شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری صاحب سے بھی معاملات ”طے ” پا چکے ہیں لیکن قائدِ حزبِ اختلاف سیّد خورشید شاہ صاحب تا حال ”فرینڈلی اپوزیشن” کے چکر میں ہیں اِس لیے پیپلز پارٹی کا فی الحال باہر نکلنے کا کوئی موڈ نہیں لیکن اِس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کیونکہ ”ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں” کے مصداق اکیلے کپتان صاحب ہی سب کی ”کِلیاں” اُڑانے کے لیے کافی ہیں ۔ہم بھی بڑے زور و شور سے تیاریوں میں مصروف ہیں کیونکہ جہاں ہمارے دو ، دو عظیم لیڈر موجود ہوں ، وہاں ہماری شمولیت تو اظہر من الشمس ہے ،یہ الگ بات ہے کہ ہماری شمولیت جسمانی نہیں ، روحانی ہو گی ۔
ہمارے ”کپتان ”صاحب نے مشترکہ جد و جہد کے لیے لال حویلی والے شیخ رشید احمد کو بھی شرفِ ملاقات بخش دیا ۔شنید ہے کہ ڈالروں کے ریٹس کی کمی کے بارے میں شیخ صاحب کی بڑھکوں اور پھر راہِ فرار اختیار کرنے پر کپتان صاحب نے شیخ صاحب سے کہا کہ ”پہلے تولو ، پھر بولو” تو شیخ صاحب نے بھی تُرکی بہ تُرکی جواب دیا کہ تولنے کے لیے ”ترازو” تو خاں صاحب کے پاس بھی نہیںالبتہ ”ترازو” والی جماعت کے ساتھ الحاق ضرور ہے۔خاں صاحب محض اِس لیے چُپ ہو رہے کہ وہ پہلے ہی تحریکِ انصاف کے اندر پیدا ہونے والے فارورڈ بلاک کے ہاتھوں ”وَخت” میں پڑے ہوئے ہیں اور وہ سونامی جس نے رقیبانِ روسیاہ کو تہس نہس کرنا تھا ، اُس نے اب تحریکِ انصاف کو ہی تہس نہس کرنے کی ٹھان لی ہے۔
اُدھر ہمارے میاں نواز شریف صاحب ہیں کہ اپنی پرانی عادتیں چھوڑنے کو تیار ہی نہیں ۔پیپلز پارٹی کے دَورِ حکومت میں جب کبھی معاملات خراب ہونے لگتے تو میاں صاحب ایک لحظے کی دیر کیے بغیر ایوانِ صدر میں جنابِ آصف زرداری کے پاس جا پہنچتے اور بھڑکتے معاملات کو ”ٹھنڈے ٹھار” کر آتے ۔اب وہ یہی ”ہتھ” ہمارے کپتان صاحب کے ساتھ بھی کر رہے ہیں۔ جب کبھی خاں صاحب کا ”چھَکا” مارنے کا موڈ بنتا ہے تو میاں صاحب کی میٹھی میٹھی باتیں آڑے آ جاتی ہیں ۔ ایک بار تو میاں صاحب اچانک خاں صاحب کے گھر ہی پہنچ گئے ۔وہاں پہنچ کراُنہیں یوں محسوس ہوا جیسے وہ ”جاتی عمرا” پہنچ گئے ہوں ۔در اصل بڑے میاں صاحب کے استقبال کے لیے موجود اکثر چہرے مسلم لیگ نواز ہی کے ”مفرور” تھے اِسی لیے میاں صاحب کو یوں محسوس ہوا جیسے وہ اپنے ہی دفتر پہنچ گئے ہوں۔ویسے اپنے بڑے میاں صاحب ہیں بڑے مقبول۔ اُن کی یہ مقبولیت اپنی پارٹی سے کہیں زیادہ اپوزیشن میں پائی جاتی ہے ۔
پارلیمنٹ کا اجلاس ہو یا سینٹ کا ، میاں صاحب کے دیدار کو ترستی نگاہیں آہ و بکا کرتی اور ”نِیربہاتی” رہتی ہیں ۔اب اِس ”گروہِ عاشقان” نے ”تنگ آمد ، بجنگ آمد” کے مصداق سینٹ کے قواعد میں ترمیم کرکے ایک ایسی قرار داد منظورکر لی ہے جو اپنی نوعیت کے لحاظ سے منفرد لیکن ”رسمِ عاشقی” کے سرا سَر خلاف ہے کیونکہ محبوب کی بات مانی جاتی ہے ، منوائی نہیں جاتی۔قرارداد ایم کیو ایم کے سینیٹر طاہر مشہدی نے پیش کی جسے کثرتِ رائے سے منظور کر لیا گیا ۔قرار داد کا متن یہ تھا کہ وزیرِ اعظم ہفتے میں ایک بار سینٹ اجلاس میں لازماََ آئیں گے ۔اِس قرارداد پر نواز لیگ کے سینیٹر ظفر علی شاہ بہت چیں بچیں ہوئے جس پر طاہر مشہدی نے کہا کہ اُنہیں بائیس دن ہو گئے انتظار کرتے اور اب تو حالت یہ ہو گئی کہ ”ہر اِک آہٹ پہ یہ سمجھا کہ شاید اب وہ آئے ہیں” لیکن میاں صاحب نہیں آئے ۔ظفر علی صاحب نے تَپ کر کہا کہ الطاف حسین بائیس سال سے ملک نہیں آئے لیکن ہم نے تو کوئی ہنگامہ نہیں کیا ۔شاہ صاحب کے اِس ”قلندرانہ نعرے” پر سینٹ میں وہ شورِ قیامت اُٹھا کہ اللہ کی پناہ لیکن شکر ہے کہ نوبت ہاتھا پائی تک نہیں پہنچی ۔ویسے ہمیں یقین ہے کہ وزیرِ اعظم صاحب اب بھی سینٹ میں نہیں آئیں گے کیونکہ محبوب کبھی محب کی مرضی کے تابع نہیں ہوا کرتا۔