ظلم و ستم اور ناانصافیوں کی داستان

Justice

Justice

تحریر: شیخ توصیف حسین

کہاوت ہے کہ ایک بادشاہ اپنی فوج کے ہمراہ جنگ کے دوران اپنے دشمن پر فتح حاصل کرنے کے بعد بڑی شان و شو کت کے ساتھ واپس اپنے وطن روانہ ہوا تو واپسی پر ایک جنگل میں ایک پری نما لڑکی اُسے نظر آئی جسے دیکھ کر بادشاہ اُس پر فدا ہو گیا جسے بادشاہ اُسے اپنے ساتھ اپنے وطن لے آیا جہاں پر پہنچ کر بادشاہ نے حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ کہ اس پری نما لڑکی کیلئے شاہی لباس شاہی محل کے ساتھ ساتھ شاہی کھانوں اور لاتعداد کنیزوں کا بند و بست کیا جائے جو ہمہ وقت اس کی خدمت میں کوشاںرہے بادشاہ کے اس حکم نامے کی فل الفور تکمیل کی گئی۔

کچھ دنوں کے بعد بادشاہ اُس پری نما لڑکی کو دیکھنے اُس کے محل میں پہنچا تو بادشاہ کو بڑی حیرت ہو ئی اُس پری نما لڑکی کو دیکھ کر چونکہ وہ پہلے کی نسبت اُسے بہت کمزور و لا غر دکھائی دی جس پر بادشاہ نے پریشانی کے عالم میں فل الفور اپنے وزیر خاص کو بلایا اور اُسے اس سارے واقعہ سے آ گاہ کیا بادشاہ کے اس واقعہ کو سننے کے بعد وزیر خاص نے پری نما لڑکی کے محل میں مختلف جگہوں پر خانے بنوا کر کنیزوں کو حکم دیا کہ صبح دوپہر اور شام کو ان خانوں میں مختلف قسم کی خوراک رکھ دی جائے وزیر خاص کے اس حکم کو سنتے ہی کنیزوں نے اُن خانوں میں صبح دوپہر اور شام کو مختلف قسم کی خوراک رکھنی شروع کر دی۔

جبکہ دوسری جا نب پری نما لڑکی کو جب بھوک لگتی تو وہ ان خانوں کے قریب بھکاریوں جیسی آ واز نکالتے ہو ئے ان خانوں سے خوراک اُٹھاتی اور کھا جا تی یہی سلسلہ کچھ عرصہ تک یوں ہی جا ری رہا کہ ایک دن بادشاہ اُس پری نما لڑکی کو دیکھنے اُس کے محل میں پہنچ گیا جسے دیکھ کر بادشاہ حیران و پریشان ہو کر رہ گیا چونکہ پری نما لڑکی پہلے سے بھی زیادہ اُسے خو بصورت دکھا ئی دی بادشاہ اسی پریشانی اور حیرانی کے عا لم میں اپنے وزیر خاص کے پاس پہنچا اور اُس پری نما لڑکی کی مذید خوبصورتی کے متعلق آ گاہ کیا بادشاہ کی اس بات کو سننے کے بعد وزیر خاص نے بڑے ادب کے ساتھ عرض کرتے ہو ئے کہا کہ بادشاہ سلا مت آپ اس کو فل الفور اُسی جنگل میں چھوڑ دیں یہ اس محل میں رہنے کے قابل نہیں چونکہ اس کا تعلق کسی اعلی خاندان سے نہیں بلکہ بھکاری خاندان سے ہے آپ چاہے اس کو جتنی بھی عزت دے دیں لیکن یہ اپنے غلیظ خون کی وجہ سے اپنے کمینے پن سے باز نہیں آئے گی۔

بالکل یہی کیفیت بلدیہ جھنگ کے آ ڈٹ آ فیسر عمیس ذیشان کی بھی ہے جسے اکثر لوگ جنجوعہ کہتے ہیں اور اکثر ہاشمی وغیرہ وغیرہ بہر حال یہ تو خداوند کریم ہی جا نتا ہے کہ کون بشر ہے میں تو بس یہی جا نتا ہوں کہ ہر انسان کا کر دار ہی اُس کے خون کی عکاسی کرتا ہے بہرحال مذکورہ آ فیسر کے متعلق شنید ہے کہ مذکورہ آ فیسر کے کا لے کرتوت بے مثل و بے مثال ہے جسے کرپشن کا بے تاج بادشاہ بھی کہا جا تا ہے جس کا منہ مو مناں اور کرتوت کافراں جیسے ہے جو ڈریکولا کا روپ دھار کر ملک و قوم کا خون چوس رہا ہے درحقیقت تو یہ ہے کہ مذکورہ آ فیسر نفسا نفسی کا شکار ہو کر حرام و حلال کی تمیز کھو بیٹھا ہے مذکورہ آ فیسر حرام کی کمائی کے حصول کی خا طر ملک و قوم تو کیا انسانیت کی تذلیل کر نا بھی اپنا فرض عین سمجھتا ہے۔

مذکورہ آ فیسر ایک ایسی گھنا ئو نی شخصیت ہے کہ جس کے متعلق شنید ہے کہ مذکورہ آ فیسر نے اپنے دیگر اہلخانہ کے ہمراہ محض اس لیے اپنے والد فیاض جنجو عہ کو تنہائی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا تھا کہ وہ دھجی روڈ واقع جھنگ صدر میں کر یانہ کی چھوٹی سی دوکان چلاتا تھا جس کے نتیجہ میں مذکورہ آ فیسر کا والد فیاض جنجوعہ بالآ خر اپنے اہلخانہ کے اس ظالمانہ رویے کو برداشت نہ کرتے ہو ئے آج سے تقریبا پندرہ سال قبل اپنے خالق حقیقی سے جا ملا خداوند کریم مر حوم کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فر مائے امین ثم امین کیا کسی نے خوب کہا ہے کہ جو شخص اپنے والد کا نہیں بن سکا وہ کسی اور کا کیا بنے گا بہرحال مذکورہ آ فیسر کے کا لے کرتوتوں کی ایک چھوٹی سی مثال آج اپنی دوسری قسط میں اپنے قارئین اور بالخصوص ارباب و بااختیار کی خدمت اقدس میں پیش کر رہا ہوں پہلی قسط میں بندہ نا چیز نے عرض کیا تھا کہ بندہ نا چیز اپنے صحافتی فرائض کی ادا ئیگی میں مصروف عمل تھا کہ اسی دوران بلدیہ جھنگ کے چند ایک اہلکار جن میں چپڑاسی بیلدار اور خاکروب وغیرہ شامل تھے آئے جن کی آ نکھوں میں بے بسی کے آ نسو سر کے بال بکھرے ہو ئے بادلوں کی طرح ہو نٹ خشک پتوں کی طرح قصہ مختصر مذکورہ اہلکار بے بسی و لا چارگی کی تصویر بنے ہو ئے تھے میرے دفتر میں داخل ہو کر کہنے لگے کہ کیا۔

ہم انسان نہیں اور اگر ہم انسان ہیں تو ہمارے ساتھ یہاں کے سیاست دان اور بیو رو کریٹس انسانوں جیسا سلو ک کیوں نہیں کرتے یہ اپنے آپ کو بڑی اعلی مخلوق سمجھتے ہیں جبکہ ہمیں یہ نہایت ہی حقیر سمجھتے ہیں آ خر یہ ہم سے ایسا ظالمانہ سلوک کیوں کرتے ہیں ہم وہ بے بس و لا چار انسان ہیں جن کی ما ہانہ تنخواہیں آ ٹھارہ سے بیس ہزار روپے ہیں جس کے بدلے زمانے بھر کی غلا ظت سڑکوں پارکوں اور محلوں سے اپنے سروں پر اُٹھائے پھرتے ہیں عید ہو یا پھر بکرا عید غمی ہو یا پھر خوشی ہماری چھٹی نہیں ہو تی یہ وہ ناسور ہیں جو ہمارا اوور ٹائم بھی دینے سے اکثر قاصر رہتے ہیں یہ وہ ناسور ہیں جو اپنی تنخواہ ہر یکم کو وصول کر لیتے ہیں جبکہ ہمیں اکثر تنخواہ دوسرے ماہ کی دس پندرہ تاریخ کو ملتی ہیں آپ یقین کریں یا نہ کریں لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہم اپنی خوشی و غمی سود پر رقوم حاصل کر کے کرتے ہیں تعجب خیز بات تو یہ ہے کہ ڈیلی ویجز پر کام کرنے والوں کی تنخواہوں سے میٹ اور سینٹری انسپکٹر بھی ہم سے ماہانہ بھتہ وصول کر نے میں زرہ بھر شر مندگی محسوس نہیں کرتے تھے یہ ظلم و ستم اور ناانصافیوں کو ہم تقریبا دس پندرہ سال تک برداشت کرتے رہے لیکن صبر کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔

بالآ خر ہم سب نے ملکر اس ظالمانہ رویے کے خلاف آ واز اُٹھاتے ہوئے پطرس وغیرہ بنام نے لیبر کورٹ نمبر 4فیصل آ باد میں مذکورہ اہلکاروں کو کنفرمیشن کیلئے پٹیشن دائر جس کا فیصلہ مورخہ 3-4-2019 کو ہوا جس میں تمام اہلکاروں کو کنفرم کر دیا گیا جس کے خلاف مخالفین نے اس کیس کو ٹریبونل میں دائر کر دیا لیکن وہاں سے بھی یہ کیس جو کہ مخالفین دائر کیا تھا مورخہ 10-10-2019کو خارج کر دیا گیا اور لیبر کورٹ نمبر 4کے فیصلے کو بر قرار رکھا قصہ مختصر تمام تر عدالتوں کے فیصلے کے بعد مخالفین جس میں سیاست دان سر فہرست ہیں نے ہائی کورٹ پنجاب سے رجوع کیا لیکن وہاں بھی جیت حق کی ہو ئی جہاں پر تعنیات جسٹس ہائی کورٹ پنجاب محمد قاسم خان نے مذکورہ اہلکاروں کو فل الفور کنفرم کرنے کا حکم جاری کر دیا جس کے نتیجہ میں بلدیہ جھنگ کے ارباب و بااختیار نے مذکورہ اہلکاروں کو کنفرم کر کے اُنھیں ماہانہ تنخواہ دینی شروع کر دی یہ۔

سلسلہ کئی ماہ تک جاری رہا کہ اسی دوران بلدیہ جھنگ کا آ ڈ ٹ آ فیسر عمیس ذیشان نے حسب عادت کنفرم ہو نے والے ملازمین کو یہ کہتے ہوئے دس لاکھ روپے رشوت کا مطا لبہ کر دیا کہ اگر تم نے مطلو بہ رقم فل الفور ادا نہ کی تو میں تمھیں تمھاری سالانہ ترقی ہر گز ہر گز ادا نہیں کروں گا مذکورہ اہلکار لاکھ کو شش کے با وجود مذکورہ آ فیسر کو مطلو بہ رقم دینے سے قاصر رہے جس کے نتیجہ میں مذکورہ اہلکاروں کی سالانہ ترقی دس اور پچیس پر سنٹ ترقی مذکورہ آفیسر روک لی جبکہ پندرہ ماہ سے کنفرم ماہانہ تنخواہ ادا کرنے میں مصروف عمل ہے یہی کافی نہیں مذکورہ آ فیسر نے غریب اور بے بس مذکورہ اہلکاروں کو مطلو بہ رشوت نہ دینے کا مزہ چکھا نے کیلئے ایک رٹ پٹیشن نمبری 55046جناب جسٹس ہائی کورٹ پنجاب علی باقر نجفی کی عدالت میں دائر کی ہے اور وہ بھی سابقہ فائل کے کا غذات میں ہیرا پھیری کر کے یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ سابقہ فائلوں کی مصدقہ نقلیں غریب کنفرم ملازمین کے پاس مو جود ہیں جو آ ئندہ سماعت کے دوران مذکورہ معزز عدالت کے رو برو پیش کر دی جائے گی اُن کی ان باتوں کو سننے کے بعد میں سوچوں کے سمندر میں ڈوب کر یہ سوچ رہا تھا
جاری ہے

Sheikh Tauseef Hussain

Sheikh Tauseef Hussain

تحریر: شیخ توصیف حسین