کوڑے کا پھول

Mother

Mother

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

پچیس سالہ جوان جمال ایک سال بعد پھر میرے پاس آیا ہوا تھا میں معمول کی طرح دفتر گیا تو بہت سارے ملاقاتیوں میں اُس کا چہرہ بھی نظر آیا تو میں چونک سا گیا کیونکہ ایک سال پہلے وہ مسلسل پندرہ سولہ دن میرے پاس آکر ایک ہی سوال کرتا جب میں تسلی بخش جوا ب نہ دیتا تو وہ واپس چلا جاتا شروع میں تو بہت مہذب شائستہ لہجے میں گفتگو اور سوال کرتا لیکن چند دن بعد ہی اِس کے لہجے کی نرمی شائستگی کر ختگی میں بدلتی گئی بلکہ بحث و مباحثے میں شامل ہو گئی یہ ہر حال میں اپنے سوال کا جواب جاننا چاہتا تھا میں جب کہتا کہ تمہارے سوال کا جواب میرے پاس نہیں تو یہ بحث کو طول دیتا اور کہتا کوئی اندازہ ہی لگالیں جب میں یہاں بھی انکار کرتا تو ضد کرتا آپ کی روحانیت فقیری کا مجھے تو کوئی فائدہ نہ ہوا میرے دکھ کرب کا مداوا تو کسی کے پاس بھی نہیں ہے میں اپنے روگ کے لیے بے شمار نجومیوں پامسٹوں پراسرار علوم کے ماہرین کے پاس جا کر بہت سارا پیسہ برباد کرنے کے بعد بھی اپنے سوال کا جواب نہیں جان پایا اِسی تلاش بھاگ دوڑ میں کسی نے آپ کا بتایا تو آپ کے پاس آگیا لیکن آپ نے بھی باقی لوگوں کی طرح مجھے مایوس ہی کیا ہے۔

اِس سوال و جواب میں جمال نے مجھے بہت سارے لالچ بھی دئیے کہ میں آپ کو منہ مانگے پیسے دوں گا خدا کے لیے میرے سوال کا جواب ضرور دے دیں جو سوال یہ لے کر میرے پاس آیا تھا وہ بچھو بن کر اِس کی رگوں کو کاٹ رہا تھا شدت کرب سے یہ دن کا چین رات کا آرام کھو چکا تھا اذیت کی انتہا سے بے خوابی کا شکار ہوا کھانا پینا چھوڑ دیا اپنا خیال رکھنا چھوڑ دیا تو بے خوابی اور خوراک کی کمی سے صحت تیزی سے گرنا شروع ہوئی توانائی کی جگہ کمزوری نقاہت نے جسم کو جکڑنا شروع کر دیا تھا لیکن یہ ضدی اور نفسیاتی نیم پاگل سا ہو کر دردر کی ٹھوکریں کھاتا پھر رہا تھا یہ اکیلا تھا اِس کا کوئی بہن بھائی بھی نہیں تھا والد کا نام و نشان نہیں تھا دکھ کرب ناسور بنتا جا رہا تھا نفسیاتی الجھن کا نٹے کی طرح اِس کو چبھ رہی تھی میں با ر بار جب خدا کی نعمتوں شکر و صبر پر لیکچر جھاڑتا تو اِس پر بلکل بھی اثر نہ ہو تا بلکہ دوران گفتگودنیا کے ساتھ ساتھ خدا سے بھی ناراضگی کا اظہار کر نے لگتا کہ خدا نے بھی تو میرے ساتھ بہت بڑی ناانصافی اور ظلم کیا ہے میں تو خدا کی رحمت اور فضل سے محروم ہی رہا ہوں وہ بہت ساری باتیں اِسی کرتا کہ میںیہاں لکھ بھی نہیں سکتا فطری طور پر ذہین شریف انسان تھا مجھے اِس سے ہمدردی لگا ئو سا ہو گیا تھا۔

اِس نے جب بار بار تلخ گفتگو کی تو پھر بھی جب آتا میں خندہ پیشانی پیار سے ملتا یہ اپنا سوال دہراتا میں اچھائی اور نصیحتوں کے لیکچر کا آغاز کر دیتا لیکن کوئی لفظ فقرہ اِس کی تسلی نہ کرتا پھر یہ میرے پاس آنا بند ہو گیا پھر ایک دن میرے پاس آیا اور بولا پروفیسر صاحب آپ کے پاس میرے دکھ کا علاج اور سوال کا جواب آگیا ہے میرے انکار کرنے پر بولا میں نے اِس کا حل نکال لیا ہے سنا ہے علم نجوم پراسرار علوم میں ہندو قوم بہت آگے نکل گئی ہے اب میں نے انٹرنیٹ پر ہندوستانی جو تشیوں سے رابطہ کیا ہے ایک نجومی مجھے بہت پسند آیا ہے میں بھارت تو اُس کے پاس نہیں جا سکتا لیکن وہ ہر ما ہ دو بئی میںا تا ہے اب میں اُس کے پاس دوبئی جا رہا ہوں اُس نے کچھ پیسے لے کر میرے سوال کا جواب دینے کا وعدہ کیا اب میں دوبئی اپنے سوال کا جواب لینے جا رہا ہوں پاکستان کا کوئی بابا بزرگ نجومی درویش تو میرے سوال کا جواب دے نہیں پایا اب مجھے دشمن ملک کے بندوں کے پاس جانا پڑ رہا ہے میںواپس آکر آپ سے ملوں گا اور بتائوں گا کہ میرے سوال کا جواب کیا ہے پھر یہ چلا گیا ایک سال سے زیادہ عرصہ گز ر گیا اِس عرصے میں کئی بار مجھے اِس کی یاد بھی آئی کہ دوبئی میں جا کر کس سے ملا سوال کا جواب ملا کہ نہیں واپس آیا کہ نہیں کہیں نہ کہیں مجھے بھی اِس کے سوال کے جواب کا انتظار تھا۔

آج دیکھا تو یہ خوشگوار صحت مند موڈ میں تھا اِس کی قابل رشک صحت اور خوشی سے مجھے اچھا لگا میں نے اشارہ کیا تو میرے پاس آکر بغل گیر ہو گیا شرمندہ لہجے میں بولاسر میں آپ سے معافی مانگنے آیا ہوں میں بہت بڑی غلط فہمی کا شکار تھا اور مجھے میرے سوال کا جواب بھی مل گیا ہے آپ لوگوں سے مل لیں پھر بات کرتے ہیں کیونکہ مجھے جواب کا انتظار تھا اِس لیے جلدی لوگوں سے مل کر جمال کو بلا لیا بینچ پر بیٹھ کر پو چھا بتائو یار مجھے بہت خوشی ہے کہ تمہیں تمہارے سوال کا جواب مل گیا ہے تو بولا سر آپ تو جانتے ہیں میر ا سوال یہ تھا کہ میرے والدین کون ہیں جس ماں نے مجھے پالا ہے وہ اقرار کر چکی ہے کہ تم میرے بیٹے نہیں ہو لیکن جب میں اُن سے پوچھتا تھا کہ میرے والدین کون ہیں تو انکار کر دیتی تھیں کہ مجھے نہیں پتہ اِس حقیقت کا پتہ مجھے اُس وقت چلا جب والدہ کے پیٹ کا آپریشن ہوا تو ڈاکٹر نے کہا یہ تمہاری کیا لگتی ہیں تو میں نے کہاں ماں تو اُن کے منہ سے نکل گیا یہ تو ماں بننے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتی تمہاری ماں کوئی اور ہے پھر میں نے اپنا اور والدہ کا ٹیسٹ کرایا تو حقیقت سامنے آگئی کہ یہ میری والدہ نہیں میں ماں سے ناراض ہو گیا پھر آپ جیسے لوگوں کے پاس دھکے کھاتا رہا پھر ناراض ہو کر دوبئی نجومی کے پاس چلا گیا اُس نے بھی پیسے لوٹ لیے کچھ نہ بتایا میں ناراض ہو کر گیا تھا اِس لیے نوکری کر لی اور والدہ سے تعلق توڑ لیا۔

چند دن پہلے مجھے کسی بوڑھی عورت کا دوبئی فون آیا کہ تم فرشتہ صفت ماں کو چھوڑ گئے ہو پاکستان آئو میں تم کو بتاتی ہوں تمہاری والدہ کون ہے میں فوری پاکستان آیا اور سرگودھا کے پا س گائوں میںاُس عورت کے ایڈریس پر پہنچ گیا بوڑھی عورت خوشدلی سے ملی اور بولی تم جانتے ہو تمہاری ماں سکول ٹیچر تھی تمہاری پیدائش کے وقت یہاں نوکری کرتی تھی میں یہ راز تم کو کبھی نہ بتاتی لیکن جب تم اُس بیچاری کو چھوڑ گئے تو دکھ ہوا تمہاری ماں اور میںایک ہی سکول میں پڑھاتی تھیں ایک دن صبح سکول کے گرائونڈ میں کوڑے کے ڈھیر پر تم ملے تمہاری ماں تم کو دنیا میں لاکر تمہیں کوڑے کے ڈھیر پر چھوڑ گئی تھی تمہاری ماں کی جوانی میں شادی ہوئی جب ڈاکٹروں نے بتایا کہ تمہاری ماں بانجھ ہے اولاد پیدا نہیں کر سکتی تو خاوند نے طلاق دے دی میرے کہنے پر اِس نے تم کو اپنا لیا کیونکہ گائوں میں لوگوں کو پتہ تھا اِس لیے یہ تبادلہ کرا کر لاہور آگئی پھر تمہاری عزت کے لیے دوبارہ زندگی میں کبھی واپس نہ گئی اب وہ تم کو کیسے بتاتی تمہاری ماں تو کوڑے کا ڈھیر تھا جہاں سے تم کو اٹھایا تھا لیکن اِس بیچاری نے اپنی زندگی کمائی ہر سانس تمہارے نام لگا دی پڑھا کر جوان کیا تم نے یہ صلہ دیا جب وہ تمہارے والدین کو جانتی ہی نہیں تو کیسے تمہارے سوال کا جواب دے وہ بہت روئی میں بھی عرق ندامت میں ڈوب گیا واپس ماں کے قدم چوم کر معافی مانگی آج آپ کے پاس آگیا سر میری ماں بیمار ہے اُن کی شفا کے لیے آیا ہوں تو میں بولا میں تمہاری ماں کا دیدار کر نا چاہتا ہوں پھر میں جمال کے ساتھ گھر گیا جمال نے جاتے ہی گرم پانی ٹب میں ڈال کر ماں کے پائوں دھونے شروع کر دئیے پائوں دھوتے بول رہا تھا ماں میں کوڑے کا ڈھیر تھا تو ماں بولی تم کوڑا نہیں کوڑے کے پھول تھے جس نے میری زندگی مہکا دی میں بھی اٹھ کر ماں کے پائوں دھونے لگا ٹب کے پانی کو آب زم زم سمجھ کر آنکھوں سے لگا یا اور کہاماں جی آپ واقعی خدا کا نور ہیں آپ کے قدموں تلے جنت ہے۔

Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti

Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل: help@noorekhuda.org
فون: 03004352956
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org