نہ دفعہ نہ سزا

Quran

Quran

تحریر : شاہ بانو میر

کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
خُدا مہربان ہوگا عرشِ بریں پر

یاد کریں
وہ وقت جب تاتاریوں نے بغداد پر حملہ کیا
ھلاکو خان نے جس طرح بغداد جو علم کا گڑھ تھا اس کی عمارتوں کو برباد کیا
خاص طور سے علمی کتب خانے جہاں نادر کتب موجود تھیں
ان کو یوں دریا برد کیا گیا کہ کئی دنوں تک دریاؤں کے پانی سیاہ ہو گئے
جہاں جہاں سے ظالم گزرے کھیت کھلیان جلا دیے قتل عام کیا
نہ کوئی درخت چھوڑا اور نہ کوئی پودا
اس سے پہلے
بیت المقدس پر ہوئی یلغار کو پڑہیں تو بخت نصر نے جس شدت سے حملہ کیا
بنی اسرائیل والوں کی عبادتگاہ ہیکل سلیمانی کو ویراں کر کے رکھ دیا تھا
پورے علاقے کی ہئیت تبدیل کر دی اس قدر بربادی کی کہ
عمارت کے نام پر کوئی چیز دیکھنے کو نہیں ملتی تھی
اینٹ سے اینٹ بجا دی
وہاں سے گزرنے والے حیرت زدہ ہو جاتے کہ کیا کبھی یہاں انسان بھی آباد تھے
وقت گزرا
اللہ کو انسانیت پر رحم آیا تو نبوت کی عمارت کی تکمیل کے لئے
آخری نبی بنی اسرائیل سے نہیں
بلکہ
عرب کے صحرا کو نبوت سے فضیلت عطا کی گئی
یہاں حیوانیت کا راج تھا انسانیت کہیں دور کھو چکی تھی
ایک طرف اہل ثروت حضرات کا اثر و رسوخ تھا
دوسری جانب جاہل بدو عقل سے پیدل اور جرائم کے ماہر
محدود معیشت اور آمدنی کے ناکافی وسائل کی وجہ سے پیٹ کی آگ کوبجھانے کیلئے
جرائم رہزنی قتل ڈکیتی کی وارداتوں سے
زندگی کو قائم کئے ہوئے تھے
سچے رب نے حکمت سے چار مہینے حرمت والے قائم کر دیے تھے
کہ
جن میں سفر کیا جا سکتا تھا یوں
روزگار کے مواقع مل جاتے
اور
انسان زندگی ضروریات پوری کرنے کیلیے سلامتی سے سفر کرتے
ذہنی سفاکیت جاہلیت کی وجہ سے کوئی حد نہیں رکھتی تھی
جس کی لاٹھی اس کی بھینس
بات بات پر لڑائی جو سو سو سال سے زیادہ عرصہ جاری رہتی
انسانی زندگی کی کوئی قدر و قیمت نہ تھی
ایسے میں آپ تشریف لائے درس ہدایت دیا
قرآن سے اللہ کی رہنمائی دی
جاہلوں کو اہل علم بنایا
یوں انسانی جان کی اہمیت کو سمجھا گیا
جانوروں پر رحم سکھایا گیا
ہمدردی نرمی سے معاملات سے طبیعتوں کی سختی کو ختم کر کے
دنیا میں بھلائی ہمدردی کی بنیاد رکھی گئی
دلوں میں موجود استھان ملیا میٹ ہوئے تو بتوں کی ناپاک پرستش ختم ہوئی
ایک وحدہ لا شریک کے برحق کلام نے ہدایت کے لئے انہی دلوں کو چنا
جن پر اللہ کا کرم تھا
سب کو ہدایت دینا اللہ کے لئے کیا مشکل تھا
لیکن
اللہ نے اسلام کے لئے ہدایت کے لئے علم کےنور کے لئے انہیں چنا
جو ہدایت کے متلاشی تھے
یوں کل کے ظالم دن رات اپنے کل پر اپنے رب کے سامنے سجدہ ریز
توبہ کے طلبگار ہوئے
وہ ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والا معاف کرتا گیا
اور
انہیں زندگی میں ہی اپنے گناہوں پر معاف کر کے جنت کی خوش خبری دے دی
جزیرہ عرب نما کا انتظامی ڈھانچہ ظلم سے انصاف پر آیا
انسانیت دم توڑ رہی تھی
از سر نو
زندہ ہوئی
عام معاملات کے اصول قوانین متعین کیے گئے
عبادت میں طہارت پاکیزگی تقویٰ کے بغیر ممکن نہیں
ایسا تقویٰ جو بڑے بڑے کڑیل جوانوں کو جب ان کی حقیقی حیثیت کا ادراک دے گیا
تو ہچکیوں سے اپنے رب کی بڑائی کو مانتے ہوئے
سجدوں سے سر نہیں اٹھاتے تھے
نرمی خوش اخلاقی گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان بنے ٌ
تو دشمن انگشت بدنداں رہ گیا
جب انسان من پسند قوانین کو ترک کر کے اللہ کے نافذ کئے
حق پر پہنچا تو معاشرے میں ایسا انقلاب بپا ہوا
جس کی نظیر آج تک نہیں ملتی
کل کے کمزور چھپ چھپا کے مکہ سے مدینہ کے لیے
ظالموں کے نرغے سے نکلنے والے واپس پلٹے
تو ان کی پرشکوہ واپسی اور ان کی ہیبت ایسی تھی
کہ
نہ تیر چلے نہ تلوار اٹھائی پتا تک نہ ٹوٹا
اور
مکہ فتح ہو گیا
یہ ہے اسلام کی فتح جس پر تاریخ آج تک سوالیہ نشان بنی کھڑی ہے
جنگ ایسی کسی نے اس سے پہلے دیکھی تھی ؟
یہ تو تھا دشمنوں سے جنگ میں رحمت اللعالمین کا معاملہ
آج فضائیں نہ سوگوار ہوئیں
نہ ماتم کناں ہوئیں
نہ بین کہیں کسی نے کئے
اور
نہ کسی نے کسی کو دھاڑیں مار مار کر روتے دیکھ دلاسہ دیا
لاشیں تھیں
مگر
نوحہ کناں نہ تھے
وہ دین جو جنگ میں چرند پرنس جانوروں کو ایذا نہ دے
اس دین کے پیرو کار کل کی طرح ایک بار پھر دین سے دور ہو گئے
مزاج کی وحشت اور سوچ کا تاتاری پن عود آیا
ننھی سی سوختہ جانیں خاموش پوچھ رہی ہیں
اے ابن آدم
کیا تجھے بناتے وقت فرشتوں نے اس خدشے کا اظہار تیرے رب سے نہ کیا تھا ؟
“” تو اس انسان کو بنا رہا ہے
جو زمین میں فساد کرے گا
اور
خون بہائے گا؟ “”
خاموش ننھی سی جانیں جلی ہوئیں انسانیت پر سوالیہ نشان ہیں
کیا قصور تھا ہمارا؟
جی ہاں اتنی جانیں جلا دی گئیں
مگر
کوئی آہ بھی نہیں بھر سکا
ہم انسانیت کے ہر درجے سے ہر روز گرتے چلے جا رہے ہیں
جرم کیا ہوا کہ ان کو جلا کر راکھ کر دیا گیا ؟
وہ اڑان بھرتے ہوئے ہمسائے کے کبوتروں کو پیچھے چھوڑ گئے تھے
جیت گئے تھے
شرط میں ہارنے پر پیسے سے ہاتھ دھونا ان بے زبان کبوتروں کو مہنگا پڑا
آگ لگا کر ان کے ڈربے کو راکھ بنا دیا گیا
اہل محلہ بتاتے ہیں
کہ
ننھی معصوم جانیں آگ میں جلتے ہوئے چیختے رہے
اور
صرف دس منٹ میں یہ شور تھم گیا
زندگی ہار گئی موت جیت گئی
گہرا سکوت ماحول پر طاری ہو گیا
سناٹا سا چھا گیا
عجیب سا سہم جیسے ان کے ساکت بے جان وجود انسانیت سے سوال پوچھ رہے ہوں ؟
کیا رحمت اللعالمین کا اسلام ختم ہوگیا؟
مجرم قتل پر شاداں و فرحاں کہ جیت کا بدلہ لے لیا
نہ مجرموں پر کوئی دفعہ نہ کوئی سزا
لیکن
نجانے کیوں ؟
میں جب جب ان کی سوختہ لاشیں دیکھتی ہوں
کہیں دور سے کوئی سرگوشی سی سنائی دیتی ہے
پہلی بستیاں بھی ظلم اور زیادتی کی وجہ سے صفحہ ہستی سے مٹا دی گئیں
کہیں
وہ بربادی آج کے مظالم کا پھر سے پیش خیمہ تو نہیں؟
آگ سے جل کر سیاہ راکھ ہوئے ان کے معصوم چھوٹے چھوٹے سے نازک وجود
انسانیت سے سوال کر رہے ہیں؟
بے گورو کفن ان کی لاشیں ہر حساس دل کو تڑپا گئی ہیں
شرط ہارنے پر پیسے کا نقصان اس طرح سے پورا کیا گیا
کہ
انسانیت لرز کر رہ گئی
انسانی حیوانیت کا اس سے مکروہ مظاہرہ اور کیا ہوگا؟
مظلوم ایسے کہ جن کے مجرم مریں گے تو ضمیر کی مار پر مریں گے
ورنہ
قتل کر کے بھی آزاد ہیں
کہ ان کے قتل پر انسانیت تو تڑپ اٹھی
مگر
انصاف کے پاس ان کیلئے نہ کوئی دفعہ ہے اور نہ سزا
مگر
پکڑ
کسی مظلوم کمزور پر ظلم کرنے والا ربّ ضرور پکڑے گا
ایسا قرآن مجید فرقان حمید میں پڑھا ہے
ایسا ہی ہو گا
انشاءاللہ

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر