تحریر: شیخ توصیف حسین کہاوت ہے کہ ایک زمیندار نے ایک نہایت ہی خوبصورت اور تندرست گھوڑا خریدا جس کی دیکھ بھال کیلئے زمیندار نے ایک ملازم رکھا کچھ دنوں کے بعد زمیندار نے اپنے گھوڑے کو دیکھا تو گھوڑا اُسے کچھ کمزور دکھائی دیا جس پر اُس زمیندار نے سوچا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ میرا ملازم گھوڑے کی خوراک میں ہیرا پھیری کر رہا ہو لہذا یہی سوچ کر زمیندار نے مذید گھوڑے کی دیکھ بھال کیلئے ایک اور ملازم رکھ لیا قصہ مختصر گھوڑا دن بدن کمزور ہوتا گیا جبکہ دوسری جانب زمیندار نے گھوڑے کی دیکھ بھال کیلئے ملازموں کی ایک فوج رکھ لی بالآ خر ایک دن گھوڑا کمزوری کی تاب نہ لاتے ہوئے مر گیا جس پر زمیندار نے تمام ملازموں کو بلا کر کہا کہ جو ملازم مجھے گھوڑے کی موت کے متعلق صہیح آ گاہی دے گا میں اُسے مالا مال کر دوں گا یہ سننے کے بعد پہلا ملازم اُٹھا اور کہنے لگا کہ جب آپ نے مجھے گھوڑے کی دیکھ بھال کیلئے رکھا تو میں گھوڑے کی خوراک میں بیس روپے کی ہیرا پھیری کرتا تھا جب آپ نے دوسرا ملازم رکھا ہم ملکر گھوڑے کی خوراک میں چالیس روپے کی ہیرا پھیری کر نے لگے قصہ مختصر آپ جتنے ملازم رکھتے گئے ہم اُسی طرح حسب عادت گھوڑے کی خوراک میں ہیرا پھیری کرتے گئے جس کے نتیجہ میں گھوڑا بھوک سے نڈ ھال ہو کر کمزور ہوتا گیا اور بالآ خر کمزوری کی تاب نہ لاتے ہوئے مر گیا۔
بالکل یہی کیفیت وطن عزیز کے لاتعداد مفاد پرست سیاست دانوں اور اُن کے منظور نظر اعلی افسران و دیگر عملہ کی ہے جو ملکر لوٹ مار ظلم و ستم اور ناانصافیوں کی تاریخ رقم کر کے عدل وانصاف اور بالخصوص انسانیت کی تذلیل کرنے میں مصروف عمل ہیں جس کے نتیجہ میں غریب مظلوم افراد عدل و انصاف کے حصول کی خا طر در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں جبکہ وطن عزیز بھکاری ملکوں کی صف میں آ کھڑا ہوا ہے یہاں تعجب خیز بات تو یہ ہے کہ یہ مفاد پرست سیاست دان خواہ ایک دوسرے کے کتنے بھی سیاسی حریف کیوں نہ ہوں اپنے کالے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کیلئے ایک دوسرے کو ہر قسم کا تحفظ فراہم کرتے ہیں جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں کوئی بھی مفاد پرست سیاست دان خواہ وہ اربوں روپوں کے غبن میں ملوث ہو یا پھر کروڑوں روپوں کے غبن میں ہمیشہ سزا سے بچ جاتا ہے کبھی بیماری کا ڈرا مہ کر کے اور کبھی اعلی افسران کے ضمیر خرید کر بعد ازاں ان مفاد پرست سیاست دانوں کا یہ کہنا ہے کہ اس ملک میں اربوں روپے کمائی جائو اور لاکھوں روپے خرچ کر کے اپنی جان بچائی جائو تو آج میں انھیں اس بات سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ جو اقتدار اور حرام کی کمائی گئی دولت کے نشہ میں دھت ہو کر یہ بھول گئے ہیں کہ اوپر بھی ایک طاقت ہے جو پوری کائنات کا خالق و مالک ہے جو صرف ایک حکم عدولی پر سجدہ نہ کرنے کے پاداش میں اپنے آپ کو فرشتوں کا استاد کہنے والے کو شیطان کا لقب دے سکتا ہے جس پر لعنت بھیجنا اور حج کے دوران کنکریاں مارنا ہم تمام مسلمان ثواب سمجھتے ہیں تمھارا حشر کیا ہو گا کہ جو تم آئے روز خداوندکریم کی حکم عدولی کرتے ہوئے ڈریکولا کا روپ دھار کر ملک و قوم کا خون چوس رہے ہو یہ تو بس اوپر والا ہی جانتا ہے۔
بحرحال میں یہاں تمھیں یہ بھی باورکروا دوں کہ خداوندکریم نے قرآن پاک میں واضح ارشاد فرمایا ہے کہ میں نے تمام عبادات سے افضل عبادت حقوق العباد کو قرار دیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان مفاد پرست سیاست دانوں کے منظور نظر اعلی افسران و دیگر عملہ کو بھی آگاہ کرتا چلوں کہ خداوندکریم نے قرآن پاک میں یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ ظالم کا ساتھ دینے والا بھی ظالم ہی ہو گا ہاں تو مجھے یاد آیا کہ میں نے گزشتہ شمارے میں وطن عزیز میں ہو نے والے ظلم و ستم لوٹ مار اور ناانصافیوں کی چھوٹی سی مثال اپنے قارئین اور بالخصوص وطن عزیز کے حاکمین میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی نظر کی تھی کہ جس میں تحریر تھا کہ محمد امین نامی نوجوان جو خاندانی ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیمی قابلیت کے بل بوتے پر نہ صرف طب کی سند حاصل کی بلکہ سینٹری انسپکٹر کا ڈپلومہ بھی حاصل کیا جس نے 24-1-2011کو اپنے بوڑھے والدین بیوہ بہن اور اُس کے چار بچوں کے ساتھ ساتھ اپنے تین بچوں اور اہلیہ کی کفالت کیلئے ایک تحریری درخواست بطور میٹ بھرتی کیے جانے کی بلدیہ جھنگ کو دی لیکن رشوت نہ دینے کے پاداش میں بلدیہ جھنگ کے ارباب و بااختیار نے مجھے میٹ بھرتی کرنے کے بجائے خاکروب بننے کے آ رڈر دے دیئے جس کو دیکھ کر میں بہت رویا لیکن میں کیا کر سکتا تھا۔
غریب جو ٹھہرا بہرحال میں نے اپنے بوڑھے والدین اور اپنی بیوہ بہن اور اُس کے چار بچوں جن کا میں واحد سہارا تھا کی کفالت کیلئے اس خاکروبی کی ملازمت کو غنیمت سمجھ کر اپنا کر سات سال تک متواتر جھنگ سٹی گندے پانی کی ایک ڈسپوزل بغیر چھٹی کیئے رات کے اندھیرے میں کام کرتا رہا حالانکہ اس دوران میں نے متعدد بار بلدیہ جھنگ کے ارباب و بااختیار کو تحریری طور پر آ گاہ کیا کہ مجھے میرٹ کے مطا بق سینٹری انسپکٹر تعنیات کیا جائے چونکہ میں ڈپلومہ ہولڈر ہوں لیکن ہر بار میری غربت آڑے آئی اور مجھے یوں کا توں رہنے دیا تو یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ میں ملک میں روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیش نظر رات کی تاریخی میں مذکورہ ڈسپوزل پر کام کرتا اور علی اللصبح بھوکا پیاسا سبز منڈی میں مزدوری کرتا جس سے میرے گھر کے اخراجات بڑی مشکل سے پورے ہوتے بعض دفعہ تو میں اپنے بوڑھے والدین کا علاج معالجہ اپنے دوستوں سے اُدھار لیکر کرتا حالانکہ میں نے متعدد بار اس ذلت امیز زندگی سے چھٹکارا پانے کیلئے خود کشی کرنے کے بارے میں سوچا لیکن ہر بار اپنے بوڑھے والدین جہنوں نے میری پرورش محنت مزدوری کر کے کی تھی اور بیوہ بہن اور اُس کے چار بچوں کا خیال آتے ہی میں اپنی اس سوچ کو بدل کر اس ہتک آ میز نوکری پر چلا جاتا رہا بے رحم وقت اسی طرح گزر رہا تھاکہ اسی دوران میرے قائد میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی جانب سے بلدیاتی نظام کے رائج کرنے کی اطلاع ملی چونکہ میرے والدین 1947سے قبل کے مسلم لیگی تھے۔
میں نے بھی مسلم لیگ ن کی رکنیت حاصل کی ہوئی تھی اسی لیئے ہم سب گھر والے خوش تھے چونکہ مجھے یہ امید تھی کہ بلدیاتی نظام کے رائج ہوتے ہی مجھے میرٹ کے مطا بق تعنیات کر دیا جائے گا لیکن افسوس صد افسوس کہ مسلم لیگی شیخ نواز اکرم کے چیرمین بلدیہ جھنگ کے بننے کے فوری بعد بلدیہ جھنگ کا ہیڈ کلرک شیخ امتیاز جو کہ اپنے آپ کو چیر مین بلدیہ جھنگ شیخ نواز اکرم کا قریبی عزیز بتاتا ہے نے چالیس ہزار روپے رشوت کا مطالبہ یہ کہہ کر کر دیا کہ اگر تم نے مطلوبہ رقم ایک دن کے اندر ادا نہ کی تو میں تمھیں مذکورہ ڈسپوزل سے نکال کر سڑکوں کی صفائی کرنے پر تعنیات کر دوں گا جس سے نہ صرف تمھارا بلکہ تمھارے خاندان کی عزت کا جنازہ نکل جائے گا مذکورہ ہیڈ کلرک کی اس بات کو سننے کے بعد میں نے روتے ہوئے اسے خداوندکریم اور اس کے پیارے محبوب حضور پاک کا واسطہ دیا کہ میں ایک غریب شخص ہوں میں آپ کی مطلوبہ رقم ادا نہیں کر سکتا۔
آپ میرے ساتھ ایسا ظلم نہ کرے لیکن اُس نے میری ایک نہ سنی تو میں روتا ہوا بلدیہ جھنگ کے لائن سپریڈنٹ محمد نسیم کے پاس پہنچا اور اُسے اس سارے بے رحم واقعہ سے آ گاہ کیا جو مجھے لیکر چیر مین بلدیہ جھنگ شیخ نواز اکرم کے پاس پہنچا تو اُس نے مجھ سے ہمدردانہ رویہ اپناتے ہوئے دوبارہ مذکورہ ڈسپوزل پر کام کرنے کیلئے بھیج دیا لیکن اس واقعہ کے چند ہی روز بعد مجھے چوہدری اسحاق جسے بلدیہ جھنگ کا غیر قانونی چیف سینٹری انسپکٹر تعنیات کیا گیا ہے کا فون آ گیا کہ اگر تم نے مذکورہ ہیڈ کلرک کی مطلوبہ رقم ادا نہ کی تو میں تمھاری غیر حاضریاں لگا کر نوکری سے نکال دوں گا لیکن میں بددستور اپنے فرائض و منصبی مذکورہ ڈسپوزل پر ادا کرتا رہا لیکن اس کے باوجود انہوں نے میری تنخواہ بند کر دی ہے جس کے نتیجہ میں میرے خاندان کے افراد بھوک اور افلاس سے تنگ آ کر لوگوں سے بھیک مانگنے پر مجبور ہو گئے اپنے خاندان کو اس ذلت آ میز حالت میں دیکھ کر تو دل چاہتا ہے کہ ملک دشمن عناصر کے ہاتھوں بک کر خود کش بمبار بن جائوں یا پھر ڈاکو بن جائوں یا پھر ان مفاد پرست سیاست دانوں کو قتل کر کے قاتل بن جائوں جو اپنے ذاتی مفاد کی خا طر عدل و انصاف اور انسانیت کی تذلیل کر نے میں مصروف عمل ہیں کیا کروں اور کس سے انصاف مانگو ۔۔۔ جاری ہے۔۔۔۔