پانی کے بغیر زندگی کا تصور ممکن نہیں،کیونکہ پانی سے زندگی بنی اور پانی ہی زندگی کی بقا کا ضامن ہے لیکن سات دہائیاں پہلے وجود میں آنے والے اس ملک میں آج بھی پینے کا مناسب مقدار میں پانی نہیں اور اگر ہے تو طول و عرض میں جگہ بہ جگہ کھارا ، تعفن زدہ یا گندہ، انسان اور جانور کئی علاقوں میں ایک ہی جگہ سے پانی پیتے ہیں۔ ستم یہ کہ اسے سٹور کرنے، صاف کرنے اور بجلی بنانے کا بھی کوئی انتظام نہیں، آسمان سے اترے، پہاڑوں سے گرے یا شیطان ہمسائے کی طرف سے چھوڑا جائے سارا پانی تباہی ڈھاتا ہوا سمند ر میں گر کر ضائع ہو جاتا ہے۔
مستقبل کی جنگیں پانی پر ہوں گی اس حقیقت کے شعور کے باوجود کوئی رہنما پانی کے بحران کا نام لینے پر تیارنہیں، عوامی نمائندے الیکشن سے قبل رنگ برنگی پٹاریاں کھول کر زیادہ سے زیادہ لوگوں کو مسمرائز کرنے میں مگن ہے، مکر کے اس چکر میں صاف پانی اور ڈیموں کی کمی کا نام کون لے؟ وطیرہ ہے کہ قرض لے لے کر ترقیاتی منصوبے بناتے رہو، اللہ اللہ خیر سلہ!
ْقرض کی پیتے تھے مے اور کہتے تھے کہ ہاں رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
ڈیم فنڈ میں چند ہی دنوں میں 27 کروڑ 60 لاکھ روپے جمع کرنے کا عوامی اعتماد حاصل کرنے کے بعد کراچی میں گندے پانی کو صاف کرنے کیلئے واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کا افتتاح کرتے ہوے چیف جسٹس نے گزشتہ روز اپنے عہد کو پھر سے دہرایا ہے کہ لوگوں کو بنیادی حقوق پہنچانے کیلئے سپریم کورٹ کسی بھی اقدام سے گریز نہیں کرے گی ۔ ماڑی پور (کراچی)میں سیوریج پلان ایس تھری منصوبے کے تحت واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ یومیہ 77 ملین گیلن گندے پانی کو صاف کرے گا، پلانٹ180 میلین گیلن پانی کو صاف کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جس پر 36,117 ملین کی لاگت آئے گی۔
کراچی والوں کو واٹر پلانٹ کی تنصیب مبارک مگر کیا عوامی فلاح کے واٹر پلا نٹ منصوبے کے افتتاح کا کام سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا تھا؟ ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے والے قرضوں کی ادائیگی اور ارضِ پاک کی زمین کو بنجر ہونے سے بچانے کیلئے ڈیم بنانے کی فکر کرنا کیا چیف جسٹس کی Jurisdiction ہے؟ مگر عجب رسم چل نکلی ہے نہ خود کچھ کرنا ہے نہ کرنے دینا ہے۔ ہر جانب عدلیہ، فوج، آئی ایس آئی کے خلاف بد زبانی اور ہرزہ سرائی کا چلن عام ہے۔ نواز شریف، مریم نواز، حنیف عباسی، راؤ انوار، عابد باکسر، شہباز شریف احد چیمہ، فواد حسن فواد، جہانگیر ترین ڈالر گرل،اور ڈاکٹر عاصم سمیت سب کے سب معصوم ہیں ظالم ہیں تو منصف اور محافظ!