کبھی اسے کبھی خود کو رلایا کرتے تھے ہم اپنے غم کی کتھا جب سنایا کرتے تھے تیرا کرم کہ ہوئے آشنائے دربدری کبھی نہ گھر سے قدم بھی اٹھایا کرتے تھے کسی کے لوٹ کے آنے کی جو خبر ہوتی بڑے ہی چائو سے گھر کو سجایا کرتے تھے جدائیوں میں عجب اضطراب رہتا تھا قدم قدم پہ یونہی چونک جایا کرتے تھے یہ رنج و غم کے مسافر یہ بے زباں پیکر کسے خبر کہ کبھی مسکرایا کرتے تھے ہم ایسے دردِ محبت کے بانٹنے والے کبھی کبھی تیرا دل بھی دکھایا کرتے تھے